عبد اللہ شاہ دیوان حضوری
حافظ سید محمد عبد اللہ شاہ دیوان حضوری سلسلہ قادریہ کے عظیم بزرگ، بانیِ جامعۂ قادریہ اور مبلغِ اسلام تھے۔
ولادت
[ترمیم]سید محمد عبد اﷲ شاہ دیوان حضوری 29 شعبان المعظم 974ھ بمطابق 1566ء خواجہ سید نہال الدین شاہ کے گھر اکبر آباد تخت پڑی تحصیل وضلع راولپنڈی پنجاب پاکستان میں پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت
[ترمیم]آپ کے والد گرامی خود عالم دین تھے۔ اس لیے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ اس لیے آپ نے کم سنی میں ہی مکمل قرآن حکیم حفظ کر لیا۔ اس کے بعد اپنے وقت کے قابل ترین اساتذہ سے دیگر علوم دینیہ کی تکمیل کی۔ پھر تصوف کی طرف راغب ہوئے تو آپ کے والدکریم نے پوری توجہ سے آپ کی تربیت و راہ نمائی فرمائی۔
سفر حج و بیعت
[ترمیم]محمد عبد اﷲ شاہ دیوان حضوری تربیت کے دوران شیراز سے ایک درویش سید سرمست شیرازی جامعہ قادریہ اکبر آباد تحصیل وضلع راولپنڈی نزد روات مقیم تھے۔ آپ کو اس درویش سے عقیدت تھی اور اپنا فارغ وقت اکثر انہی کی صحبت میں گزارا کرتے تھے۔ آپ کا ارادہ حج کرنے کا ہوا،سید سرمست شیرازی بھی حج بیت اﷲ کا ارادہ رکھتے تھے۔ چنانچہ اپنے والدین کریمین سے اجازت لے کراس شیرازی بزرگ کے ساتھ ہی عازم سفر حج ہوئے۔ کعبۃ اﷲ میں قیام اور طواف کے بعد حج سے فارغ ہو کر آپ بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضری کے لیے مدینہ منورہ چلے گئے۔ اس کے بعد آپ بغداد کی طرف روانہ ہوئے۔ بغداد میں بارہ برس تک سید عبد القادرگیلانی کے مزار پر گزارے۔ بغداد میں قیام کے دوران وہاں کے علمائے کرام سے خوب اکتساب فیض کیا۔ بارہ برس بعد ایک شب شاہ بغداد نے آپ کو حکم دیا،’’اے عبد اﷲ! پوٹھوہار کے علاقے میں قصبۃ الخیل میں جاکر مخلوق خدا کی خدمت کا فریضہ انجام دو ظاہری بیعت کے لیے شاہ محمد بندگی بخاری دہلوی کی خدمت میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ اور فرمایا کہ ہم نے بارہ تبرکات اور بارہ خطابات تمھاری امانت چھوڑے ہیں۔ جو وقت کے سجادہ نشین تمھارے حوالے کریں گے۔‘‘ آپ کی اسی عظمت کو حضرت میاں محمد بخشؒ اپنی شہرۂ آفاق ’’تحفۂ میراں‘‘ میں یہ ذکر کیا۔
دیوان حضوری
[ترمیم]موجودہ دیوان حضوری خانقاہ شریف کا علاقہ بشن داس منڈو کے نام سے مشہور تھا۔ 1990 میں پنجاب کے وزیر اعلیٰٰ نے مجلس قادریہ کے سربراہ اور دربار عالیہ کے سجادہ نشین صاحبزادہ پیر سید دلدار علی شاہ کی دعوت پر اس گاؤں کا نام بشندور سے تبدیل کرکے دیوان حضوری رکھ دیا۔
بیری کا درخت
[ترمیم]آپ کے مزار اور مسجد کے درمیان لان میں بیری کا ایک قدیمی درخت ہے، جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ درخت آپ بغداد سے لائے تھے اور اسے اپنے ہاتھوں سے یہاں لگایا۔ ساتھ ہی فرمایا،’’اس بیری کے پتوں میں ہر بیماری کی شفا ہے۔‘‘
وفات
[ترمیم]20 شوال 1072ھ بمطابق 1661ء آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔[1][2]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام،ج 1،ص205 تا 215،
- ↑ عبد اﷲ شاہ دیوان حضوری - ایکسپریس اردو