مندرجات کا رخ کریں

غلام احمد (مولانا)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مولانا غلام محمد کا شمار دار العلوم نعانیہ لاہور کے بلند پایہ اساتذہ میں ہوتا ہے۔ آپ نے تمام عمر درس و تدریس میں گزاری۔


ولادت

[ترمیم]

مولانا غلام احمد کی ولادت 1273ھ بمقام کوٹ اسحاق تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ میں ہوئی۔ آپ کے والد بزرگوار کا نام شیخ احمد تھا۔

حصول تعلیم

[ترمیم]

غلام احمد ہوش سنبھالتے ہی تحصیل علوم میں منہک ہو گئے۔ آپ نے ملک کے اطراف سے بہترین اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔

اساتذہ

[ترمیم]

مولانا غلام احمد کے اساتذہ کے اسما گرامی یہ ہیں مولانا علاؤ الدین بھابھڑہ ضلع ہوشیار پور

  1. مولانا شاه دین
  2. مولوی محمد الدین ساکن احمد نگر گوجرانوالہ
  3. مولانا ابو احمد مراد علی بیگووال علاقہ کپور تھلہ
  4. مولانا محمد عمر ساکن رامپور مہناراں
  5. مولوی عبد اللہ تلونڈی ہوشیار پور
  6. مولانا غلام قادر بھیروی بیگم شاہی مسجد لاہور
  7. مولوی محمود حسن دیوبندی
  8. مولوی محمد یعقوب
  9. میاں نذر حسین دہلوی

درس و تدریس

[ترمیم]

مولانا غلام احمد تحصیل علم سے فارغ ہونے کے بعد اس دور کی تعلیمی درس گاہ دار العلوم نعمانیہ لاہور میں بحثیت مدرس دوم طلبہ کو درس دینے میں مصروف ہو گئے۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیت و قابلیت کی بدولت بہت جلد اپنی فضیلت علمی کا لوہا منوایا لیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ صدر المرسلین کے عہد پر سرفراز ہو گئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد مفتی اعظم انجمن نعمانیہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ مولانا مفتی غلام احمد کو علوم معقول و منقول پڑھانے میں یدطولی حاصل تھا۔ آپ فتوی نویسی میں بھی کامل دسترس رکھتے تھے۔ اس عہد کے فتوے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کوئی ایسا فتوی نہیں ملتا جس پر مولانا غلام احمد کے دستخط نہ ہو۔ رسالہ انجمن نعمانیہ میں آپ کے ہزاروں فتوے شائع ہوئے۔ کمال یہ ہے کہ آپ کا ایک بھی فیصلہ احتیاط اور علمی تحقیق سے خالی نہ تھا۔ عربی ادب میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ دوران درس عبد اللہ ٹونکی جو ان دنوں اورینٹل کالج میں پروفیسر عربی تھے کے حواشی پر آپ اعتراضات کرتے اور عند الملاقات ان کو آگاہ کرتے اور وہ تسلیم کرتے تھے۔ ندوة العلما جب قائم ہوا تو جلیل القدر سنی علما و عمائدین ندوہ کی دعوت پر اجلاس میں شرکت کرتے تھے۔ لاہور سے انجمن نمعانیہ کی طرف سے مولانا غلام احمد شرکت کیا کرتے تھے۔ ان اجلاس میں آپ کی تقریروں کو بہت سراہا جاتا تھا۔ آپ کے زمانے میں مدرسہ نعمانیہ نے بے حد ترقی کی اور اطراف و اکنان سے طلبہ دینیہ کھینچے چلے آتے تھے۔ آپ کے دور میں منتہی طلبہ کی تعداد تین صد کے قریب تھی جن کی کلاسیں شاہی مسجد لاہورمیں لگا کرتی تھیں۔ آپ کو انجمن نعمانیہ کے دار العلوم نعمانیہ میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ چنانچہ ہزاروں طلبۂ علوم اسلامیہ جو پاک و ہند میں آسمان علم پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکے وہ آپ کے فیض کے مرہون احسان ہیں۔ علوم عربیہ کے ہزاروں طلبہ آپ سے پڑھ کر فارغ ہوئے اور پاک و ہند کا شاید ہی کوئی مکتب ایسا ہو جہاں آپ کے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد کام نہ کر رہے ہوں۔

تلامذہ

[ترمیم]

مولانا غلام احمد کے تلامذہ کی ایک کثیر تعداد ہیں جن میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں۔

  1. مولانا فیض الحسن جہلمی
  2. مولانا محمد عالم آسی امرتسری
  3. مولانا احمد علی سابق نائب شیخ الجامہ جامعہ عباسیہ بہاولپور
  4. مولانا عبد اللہ پروفیسراسلامیہ کالج لائلپور (فیصل آباد)
  5. مولانا محمد حسین خلف رشید پیر حافظ سید جماعت علی شاہ
  6. مولانا غلام محمد گھوٹوی شیخ الجامعہ بہاولپور
  7. مولانا محمد عالم مدرس مدرسہ نمعانیہ
  8. مولانا شہاب الدین خطیب مسجد جوپرجی کوارٹرز

اخلاق و اطوار

[ترمیم]

آپ کے شاگرد رشید مولانا سیّد علی زینبی (مدرس اول مدرسہ فرقانیہ و نائب مہتمم دار العلوم ندوۃ العلما، لکھنؤ) نے ایک واقعہ بیان کیا ہے جس سے اسلاف کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ مولانا عبد السلام قدوائی ندوی ان کی زبانی لکھتے ہیں: ’’علمی قابلیت کے ساتھ سادگی، انکسار، حسن اخلاق اور شفقت ومحبت کا پیکر تھے۔ بہت ہی سادہ لباس پہنتے۔ سادہ غذا کھاتے اور نشست وبرخاست میں کسی امتیاز کو گوارا نہیں کرتے تھے۔ کبھی کبھی لاہور سے گھر جاتے تھے۔ ایک مرتبہ طبیعت ناساز تھی، سواری کے لیے ٹٹو لے لیا، مولانا حیدر حسن خاں ہم راہ تھے، مولانا غلام احمد کی طبیعت اچھی نہ تھی، مگر اُن کی مساوات پسند طبیعت نے یہ گوارا نہ کیا کہ تنہا ٹٹو پر سوار رہیں، تھوڑی دور چلنے کے بعد اُتر پڑے اور کہا کہ مولوی جی، اب تم سوار ہوجاؤ، مولانا حیدر حسن خاں نے عرض کیا: میں آپ کا کم ترین شاگرد اور ادنیٰ خادم ہوں، میری یہ مجال نہیں کہ آپ پیادہ پا ہوں اور میں سواری پر بیٹھوں، لیکن مولانا غلام احمد نے فرمایا: نہیں، مولوی جی تم کو بیٹھنا ہوگا۔ مولوی صاحب نے بہتیری منت سماجت کی، مگر مولانا غلام احمد نے ان کی ایک نہ سنی اور جب تک اُن کو سواری پر بٹھا نہ لیا چین نہ آیا۔ اسی طرح باری باری اُترتے چڑھتے اپنے وطن کوٹ اسحق پہنچے۔ مولانا حیدر حسن خاں نے اس واقعہ کو زندگی بھر یاد رکھا۔ واقعہ تھا بھی یاد رکھنے کے لائق، حضرت عمرؓ کے سفر بیت المقدس کا منظر نگاہ کے سامنے آجاتا ہے۔‘‘

مولانا حیدر حسن خان ٹونکی (شیخ الحدیث دار العلوم ندوۃ العلما، لکھنؤ) نے بھی اپنے استاذِ گرامی کے حسن اخلاق کے بیش تر واقعات بیان کیے ہیں۔ ان کے تلمیذ مولانا عبد السلام قدوائی نقل کرتے ہیں: ’’مولوی صاحب ان کی سادگی کا ذکر کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ میرا کرتا اُن کے کرتے سے لانبا ہوتا تھا اور بعض اوقات لوگوں کو دھوکا ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ پیر مہر علی شاہ سے ملنے گئے، اُنھوں نے مولانا غلام احمد کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا، سادہ لباس اور چھوٹے کرتے سے انھیں دھوکا ہوا اور استاد سے زیادہ شاگرد کی طرف ملتفت ہوئے۔ مولوی صاحب نے تعارف کرایا تو پیر صاحب کو اندازہ ہوا۔ اسی سفر کی بات ہے کہ مولوی صاحب نے فرمایا کہ پیر صاحب نے مولانا کو کھانا کھلایا اور خاطر مدارات کی۔ مولانا غلام احمد کی خودداری اور عزتِ نفس کو گوارا نہ ہوا کہ مفت کا کھانا کھائیں، رخصت ہوتے ہوئے کچھ روپے پیر صاحب کو نذر کیے۔ مزاج کی سادگی اور بے تکلفی کا یہ حال تھا کہ کسی وقت امتیاز کا خیال نہ آتا۔ عام آدمیوں کی طرح چلتے پھرتے، عام آدمیوں کی طرح رہتے سہتے، کسی چیز کی ضرورت محسوس کرتے تو خریدتے بھی، کبھی جی چاہتا تو راستہ میں کچھ کھا بھی لیتے، کبھی گنا چوستے۔ مولوی صاحب کہتے بھی کہ آپ ایک ممتاز عالم اور شہر کے معزز فرد ہیں، اس طرح سرِ راہ لوگ کھاتے دیکھیں گے تو کیا کہیں گے۔ پرانے فقہا نے بازار میں کھانے کو معیوب قرار دیا ہے، وہ ایسے شخص کی شہادت معتبر نہیں سمجھتے۔ مولانا غلام احمد مسکرا کر فرماتے: مولوی جی، ہمیں کہاں گواہی دینی ہے، ہم ان تکلفات میں اپنے کو تکلیف کیوں پہنچائیں۔ راستہ میں کہیں مجمع ہوتا یا کوئی چیز قابل دید ہوتی تو رک جاتے اور مولوی صاحب سے کہتے کہ دیکھ لو، مولوی صاحب عذر کرتے، تو فرماتے: مولوی جی، دیکھ بھی لو، دیہات میں یہ تماشے کہاں دیکھنے کو ملیں گے۔ یہ طلبہ کے ساتھ ان کی غایت شفقت اور دل داری تھی، ورنہ اُن کے زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت اور متانت و سنجیدگی کی شہادت کوئی تذکرہ نویسوں کی زبان سے سنے۔‘‘ سانچہ:(چند تصویر نیکاں: مولانا عبد السلام قدوائی ندوی، مرتبہ پروفیسر مشیر الحق، ص ۴-۳۳، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، 1989ء)

وفات

[ترمیم]

مولانا غلام احمد کا وصال 16 اپریل 1907ء کو کوٹ اسحاق میں ہوا۔ آپ کا مزار کوٹ اسحاق تحصیل حافظ آباد ضلع گجرانوالہ میں ہے۔ [1]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. تذکرہ علما اہلسنت و جماعت لاہور مولف علاقہ احمد فاروقی صفحہ 221 ، 222