مظفر شہ میری
ڈاکٹر مظفر علی شہ میری | |
---|---|
پیدائش | 05مئی 1952ء اننتپور ضلع، آندھرا پردیش، بھارت |
رہائش | حیدرآباد , آندھرا پردیش |
اسمائے دیگر | مظفر شہ میری |
پیشہ | ادب سے وابستگی، درس و تدریس |
وجہِ شہرت | شاعری |
مذہب | اسلام |
مظفر شہ میری : (پیدائش 05 مئی، 1952) -
پیشہ ورانہ سفر
[ترمیم]مظفر علی شہ میری نے اپنی ملازمت کا آغاز 1977ء میں مظہر العلوم کالج،آمبور( تامل ناڈو) سے بہ حیثیت ٹیوٹر کے کیا۔تقریباً تین ماہ یہاں کام کرنے کے بعد اُنھوں نے اسلامیہ کالج ،وانم باڑی ،(تامل ناڈو )میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہو گیا۔ اس کالج میں وہ لگ بھگ پندرہ سال رہے۔ اسی اثناء میں تامل ناڈو کی ایک اسکیم کے تحت پانچ سال گورنمنٹ آرٹس کالج، کر شنا گری میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیے۔وانم باڑی کی پندرہ سالہ سروس سے مستعفی ہو کر 1992ء میں، سری وینکٹیشورا یونی ورسٹی، تروپتی میں از سرِ نو اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ تروپتی میں بارہ سال اپنے فرائض کی انجام دہی کے بعد ان کا تقرر 2004ء میں یونی ورسٹی آف حیدرآباد کے شعبۂ اردو میں ہو گیا۔ جہاں وہ پروفیسر اور صدرِ شعبہ کے عہدے پر مارچ 2017ء تک فائز رہے۔ ابھی ان کی دو ماہ کی سروس باقی تھی کہ یکم اپریل 2017ء کو ان کا تقرر ڈاکٹر عبد الحق اُردو یونی ورسٹی، کرنول، آندھرا پردیش کے بانی وائس چانسلر کی حیثیت سے ہو گیا۔ ڈاکٹر عبد الحق اُردو یونی ورسٹی میں شیخ الجامعہ کی حیثیت سے وہ 24؍مارچ 2021ء تک اپنے فرائض بہ حسن و خوبی ادا کرتے رہے اور یہیں سے وہ وظیفہ حسن خدمت پر سبک دوش ہوئے۔
ادبی سفر
[ترمیم]اب تک مظفر شہ میری کی پانچ (5) تحقیقی و تنقیدی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔حفیظ جالندھری کا تنقیدی مطالعہ (1977)، اردو غزل کا استعاراتی نظام (1994)، نقش و نظر (1998)، کاوشِ فکر (2010)اورحضرت عبد الحق شہ میر ثالثؒ :حیات، شخصیت اور فن ( 2019)وغیرہ۔علاوہ ازیں تین ترجمہ کی ہوئی کتابیں ؛ ’کہکشاں ‘ (1996)، ’مجذوب‘ (2015) اور ’بٹوارہ‘ (2017) شائع ہو چکی ہیں۔ نیز ایک شعری مجموعہ ’پیاس ‘ (2010)بھی منظرِ عام پر آچکا ہے۔ پروفیسر شہ میری نے چار کتابیں؛ سخن ورانِ ویلور (1987)، زخم زخم زندگی (1994)، نذرِ جاوید (1996) اور اردو زبان و ادب (2004) بھی مرتب کی ہیں۔ان کتابوں میں حفیظ جالندھری کا تنقیدی مطالعہ کو 1977ء میں اور کہکشاں کو 1996ء میں آندھراپردیش اردو اکیڈمی کے ایوارڈ ملے۔ کہکشاں، تامل ناڈو کے معروف شاعر کوی۔کو عبد الرحمان کے شعری مجموعے ’پال ویدی‘ کا منظوم اردو ترجمہ ہے۔ پروفیسر شہ میری کو اس ترجمے کے لیے تِرویم کروناندھی نے 1998ء میں چینائی میں تہنیت پیش کی تھی۔ آندھراپردیش اردو اکیڈمی کی جانب سے 2009ء کا کارنامۂ حیات یعنیLife time achievement award، سابق چیف منسٹر آندھرا پردیش، آنجہانی راج شیکھر ریڈی کے ہاتھوں دیا گیا تھا۔ 2011ء میں انجمنِ اردو، کوئمبتور، تامل ناڈو کی جانب سے انھیں’ سرسید ایوارڈ‘ پیش کیا گیا۔ قبل ازیں 2003ء میں سری وینکٹیشورا یونی ورسٹی، تروپتی کا Meritorious Teacher Award بھی انھیں مل چکا ہے۔ علاوہ ازیں 1986ء میں BBC, London نے اُن کے ایک مضمون پر انھیں انعام سے سرفرازکیا تھا۔ 2017ء میں عثمانیہ یونی ورسٹی ’حیدرآباد نے انھیں ’’فرزندِ اردو‘‘ کے ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔ 2019ء میں چیف پوسٹ ماسٹر جنرل، تلنگانہ سرکل کی جانب سے مظفر علی شہ میری کے نام پر 5؍ روپے کا پوسٹل اسٹیمپ بھی جاری کیا گیا ہے۔ 2021ء میں زمریس ایجوکیشنل اکیڈمی، حیدرآباد نے انھیں ’’اردو کا مسافر‘‘ ایوارڈ پیش کیا اور 2022ء میں آندھرا پردیش اردو اکیڈمی نے انھیں ’’مولانا ابوالکلام آزاد نیشنل ایوارڈ ‘‘ سے بھی سرفراز فرمایا ہے جو آندھرا پردیش کے وزیرِ اعلیٰ جناب جگن موہن ریڈی کے ہاتھوں انھیں دیا گیا۔
تصانیف، تالیفات اور شاعری
[ترمیم]تصانیف
- حفیظ جالندھری : فن اور شخصیت۔ 1978
- اردو غزل کا استعاراتی نظام۔ 1994
- نقش و نظر۔ 1998
- کاوش فکر۔2009
تالیفات
- سخن وران ویلور۔ 1987
- زخم ز خم زندگی۔ 1994
- نذر جاوید۔ 1996
- اردو زبان اور ادب۔2004
شاعری
- کہکشاں۔ 1994
- پیاس۔ 2009
سیمنار اور مقالے
[ترمیم]مظفر شہ میری اب تک تقریباً 50 مقالے ریاستی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر پیش کرچکے ہیں۔ اہم سیمینارس کا ذکر ذیل پر دیکھیں۔
- عالمی کانفرینس، تہران، ایران - 2004
- تامل ناڈو میں دکنی زبان - بین الاقوامی سیمینار - لندن - جولائی 2009
تدریس اردو بہ ذریعۂ ابلاغ
[ترمیم]ای ٹی وی اردو کے ذریعے اردو کی تدریس کا ایک پروجیکٹ انھوں نے انجام دیا۔ یہ پروگرام مشترکہ طور پر آندھرا پردیش اردو اکیڈمی اور راموجی فلم سٹی کے زیر اہتمام رہا۔ اس ٹی وی پر درسی پروگرام کے 76 ایپیسوڈ تھے، جو کافی مقبول ہوئے۔ اس پروگرام کو تقریباً 52 ممالک کے ناظرین نے دیکھا۔ ان تمام ایپیسوڈس کو یوٹیوب پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، مثلاً 70 ایپیسوڈ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
ابلاغ میں مظفر شہ میری
[ترمیم]نجی زندگی
[ترمیم]پروفیسر مظفّرعلی شہ میری،30؍اپریل 1953ء بہ مطابق 16؍شعبان المعظم 1372 ہجری کو مدراس کے سفر کے دوران پاکالا، ضلع چتورمیں پیدا ہوئے۔اُن کے والد گرامی کا نام حاجی عثمان علی ہے جو کدری ضلع سری ستیہ سائی کے متوطن تھے۔دفتری ریکارڈ کے مطابق اُن کی تاریخ پیدائش 5؍ مئی 1952درج ہے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن کدری ، میں حاصل کرنے کے بعداُنھوں نے 1972ء میں بی۔اے۔ اور1974ء میں ایم۔اے ۔ (اردو) کی تعلیم سری وینکیشورا یونی ورسٹی ، تروپتی سے مکمل کی۔ تامل ناڈو میں اپنی ملازمت کے دوران پروفیسر نجم الہدی کی نگرانی میں اردو غزل کے استعاراتی نظام پر تحقیقی مقالہ لکھ کر 1989 میں مدراس یونی ورسٹی سے پی ایچ۔ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی۔