پدھومی پیتا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پدھومی پیتا
پیدائشسی ویروتھ چلم
25 اپریل 1906(1906-04-25)
Thiruppadirippuliyur, تمل ناڈو
وفات5 مئی 1948(1948-50-50) (عمر  42 سال)
تروواننتاپورم
پیشہAuthor, scriptwriter
زبانتمل زبان
قومیتبھارت
تعلیمبی اے
مادر علمیہندو کالج، ترونلویلی
دور1934–46
اصنافافسانہ نگاری، سماجی موضوعات
موضوعSocial Satire, Politics
ادبی تحریکمنی کوڈی
نمایاں کامKadavulum Kandasami Pillayum، Ponnagaram، Thunbakeni
شریک حیاتکملا
اولاددینا کاری

پدھومی پیتا (انگریزی: Pudhumaipithan) (تمل زبان:துமைப்பித்தன்) (25 اپریل 1906ء تا 5 مئی 1948ء) تمل ادب کے مایہ ناز ادیب اور بڑے افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں۔[1] انھیں تمل ادب کا انقلابی ادیب مانا جاتا ہے اور وہ صف اول کے ادیب ہیں۔[2] وہ سماجی موضوعات پر لکھتے تھے۔ ترقی پسند تھے اور اتفاقیات کو قبول کرتے تھے۔ معاصرین نقاد اور اور لکھاری ان سے خال خال ہی اتفاق رکھتے تھے۔ اس لیے وہ اپنے میدان کے مرد تنہا تھے اور تقریباً 60 برسوں تک کوئی ان کا ثانی نہ ہوا۔ انھوں نے اپنی موت تک اپنا سکہ جمائے رکھا۔ یہاں تک کہ معاصرین ادبا کو ان کا لوہا ماننا پڑا اور تمل ادب میں وہ چمکتے سورج کی مانند بن گئے۔ [3][4][5] 2002ء میں حکومت تمل ناڈو نے ان کے ادبی کام کو ملک بھر میں پھیلایا اور انھیں نیشنل ہیرو بنا دیا۔[6]

حیات اور کارنامے[ترمیم]

ان کی ولادت کڈالور کے ایک سیویا پلے خاندان میں ہوئی۔[7] ان کی ابتدائی تعلیم کلاکوریچی اور تندیوانم میں ہوئی۔ انھوں نے بیچلر کی ڈگری 1931ء میں ہندو کالج سے حاصل کی۔ اسی سال وہ مدراس چلے آئے۔

1933ء میں ان کا پہلا مضمونگلاب جامن سے محبت مجلہ گاندھی میں شائع ہوا۔[8] ان کا پہلا افسانہ پلائی، ندی کے کنارے 1934ء میں شائع ہوا۔ انھوں نے تمل سنیما میں بھی کام کرنا شروع کیا اور 1945ء میں پورت کماری پروڈکشن کا آغاز کیا۔ ان کی وفات 5 مئی 1948ء کو تروواننتاپورم میں ہوئی۔[1]

ادبی سفر[ترمیم]

منی کوڈی مجلہ

انھوں 15 برس (1943ء تا 46ء) بہت لکھا اور گویا یہی ان کی فعالی کا زمانہ ہے۔ اس دوران میں انھوں نے 100 افسانے اور اتنے ہی مضامین مختلف موضوعات پر لکھے۔ ان کے علاوہ 15 نظمیں اور کچھ ڈرامے بھی انھوں نے تخلیق کیے۔ اپنے ایک مضمون میں وہ لکھتے ہیں:

ہم ایک ایسی خیالی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں (تمل) ادب میں کچھ کہا جا سکتا ہے اور بہت کچھ کہنا نا ممکن ہے۔ ہم اسی فلسفہ کے ساتھ جی رہے ہیں۔ تقریباً 200 برس ہم نے طفیلیت کی زندگی گزاری ہے۔ ہم میں اتنی ہمت بھی نہیں ہیکہ ہم کسی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھ سکیں اور اسی لئے ہم اپنے لئے بہانے تلاشتے رہتے ہیں۔ اگر افسانہ اور ادب راون، خون خرابے اور گناہوں کے کام کو جگہ دے سکتا ہے تو یہ غربت اور جسم فروشی کو کیوں نہیں اپنا سکتا؟ اس سے سماج کو زنگ تو نہیں لگ جائے گا۔ مزید یہ کہ اگر کسی چیز کو زنگ لگ ہی چکا ہے تو اسے بچانے کا کیا طریقہ کار ہے؟ کوئی نہیں۔[9]

}}

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب
  2. Ā۔ Irā Vēṅkaṭācalapati (2006)۔ In Those Days There was No Coffee: Writings in Cultural History۔ Yoda Press۔ صفحہ: 17۔ آئی ایس بی این 81-902272-7-0، آئی ایس بی این 978-81-902272-7-8 
  3. "Pudumaipithan's literary legacy remembered, The Hindu 7 مئی 2007"۔ 09 مئی 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2019 
  4. "Tamil is not language of just a region, says President Kalam, The Hindu 19 Dec 2006"۔ 04 جنوری 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2019 
  5. Jayakanthan (2007)۔ Jayakanthan's reflections۔ East West Books۔ صفحہ: 134۔ آئی ایس بی این 81-88661-59-7، آئی ایس بی این 978-81-88661-59-6 
  6. "A heart for Art, The Hindu 25 ستمبر 2003"۔ 31 مارچ 2004 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2019 
  7. Puthumaipithan – His Contribution to Modern Tamil Literature
  8. "....இலக்கியத்தில் இன்னதுதான் சொல்ல வேண்டும், இன்னது சொல்லக்கூடாது என ஒரு தத்துவம் இருப்பதாகவும், அதை ஆதரித்துப் பேசுவதாகவும் மனப்பால் குடித்துக்கொண்டிருக்கலாம். உண்மை அதுவல்ல; சுமார் இருநூறு வருஷங்களாக ஒருவிதமான சீலைப்பேன் வாழ்வு நடத்திவிட்டோம். சில விஷயங்களை நேர் நோக்கிக் பாக்கவும் கூசுகிறோம். அதனால் தான் இப்படிச் சக்கரவட்டமாகச் சுற்றி வளைத்துச் சப்பைக்கட்டு கட்டுகிறோம்.குரூரமே அவதாரமான ராவணனையும், ரத்தக்களறியையும், மனக் குரூபங்களையும், விகற்பங்களையும் உண்டாக்க இடம் இருக்குமேயானால், ஏழை விபசாரியின் ஜீவனோபாயத்தை வர்ணிப்பதாலா சமூகத்தின் தெம்பு இற்றுப்போய் விடப்போகிறது? இற்றுப்போனது எப்படிப் பாதுகாத்தாலும் நிற்கப்போகிறதா? மேலும் இலக்கியம் என்பது மன அவசத்தின் எழுச்சிதானே? நாலு திசையிலும் ஸ்டோர் குமாஸ்தா ராமன், ஸினிமா நடிகை சீத்தம்மாள், பேரம் பேசும் பிரமநாயகம் – இத்யாதி நபர்களை நாள் தவறாமல் பார்த்துக்கொண்டிருந்து விட்டு, இவர்களது வாழ்வுக்கு இடமளிக்காமல், காதல் கத்தரிக்காய் பண்ணிக்கொண்டிருப்பது போன்ற அனுபவத்துக்கு நேர் முரணான விவகாரம் வேறு ஒன்றும் இல்லை. நடைமுறை விவகாரங்களைப் பற்றி எழுதுவதில் கௌரவக் குறைச்சல் எதுவும் இல்லை"..Essays of Pudumaipithan, Meenakshi Publishers (1954)