اشرف السوانح

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اشرف السوانح
مصنفعزیز الحسن غوری
ملکبھارت
زباناردو
تاریخ اشاعت
1943ء
تاریخ اشاعت انگریری
2018ء

اشرف السوانح اشرف علی تھانوی کی سوانح عمری۔ تھانوی کے مستر شد خواجہ عزیزالحسن مجذوب اور مولانا عبد الحق نے موصوف کی زندگی میں ہی سوانح نگاری کا ارادہ کیا، شروع میں تھانوی نے منع فرمایا، آپ کا خیال تھا کہ زندگی میں سوانح لکھنے کی روایت اکابر بزرگوں کی نہیں رہی ہے، اس لیے میٹل احتیاط کے خلاف ہے، لیکن دوسری طرف آپ نے یہ خیال فرمایا کہ زندگی میں نگاہوں کے سامنے لکھی جانے والی سوانح میں افراط و تفریط سے بچنا آسان ہے کہ صاحب سوانح خودا پنی تنقید سے غلو پسند مواد کوختم کر سکتا ہے، چناں چہ دونوں سوانح نگاروں کو اجازت مل گئی اور زندگی کے مختلف گوشوں کی یادداشت جمع کی جانے لگی، دوران تصنیف احوال دریافت کیے جاتے رہے اور صاحب سوانح اعتدال کے ساتھ رہنمائی کرتے رہے ؛ یہاں تک کہ تین جلدوں میں سوانحی مواد اکٹھا ہو گیا اور اس سوانح کا نام’’اشرف السوانح‘‘ رکھا گیا، اس کے ساتھ اس کا ایک تاریخی نام ’سیرت اشرف زمانہ‘ (1354 ھ) تجویز ہوا، جس سے تاریخ تصنیف نکلتی ہے، مگر اتفاق سے وہ معروف نہ ہوا، جس طرح تھانوی کا نام ددھیال والوں نے ’’عبد الغنی“ رکھا تھا اور نانیہا والوں نے ’’ اشرف علی‘‘ رکھا تھا، دوسرا نام ہی مشہور ہوا، آج کوئی بھی حضرت کو پہلے نام سے نہیں جانتا۔

’’اشرف السوانح‘‘ کی چوتھی جلد بھی سوانح نگاروں نے مرتب کی، مگر اس جلد کومحرومی رہی کہ حضرت تھانوی کی نگاہ سے نہیں گذری، اس جلد میں حضرت تھانوی کی زندگی کے آخری چھ سال کے احوال درج ہیں، مرض وفات اور وفات کا بھی ذکر ہے، اسی طرح وفات کے بعد معاصرین کے تاثراتی مضامین بھی اس میں شامل ہیں، تھانوی کے سب سے بڑے علمی وروحانی خلیفہ حضرت مفتی شفیع دیو بندی کا مرتب کردہ ایک مضمون بھی اس میں ہے، جس کا عنوان ہے : ’’ سیرت ملفوظات في مرض الوفات ‘‘ وفات کے بعد لوگوں نے حضرت کو خواب میں دیکھا، ان سارے خوابوں کو بھی حتی الامکان بعینہ انھیں الفاظ میں قلم بند کر کے چوتھی جلد میں شامل کیا گیا، اس کا عنوان ہے بشارت منامی۔[1][2]

جامع تعارف[ترمیم]

سوانح کی ہر جلد کے شروع میں چار سطروں میں اس کا تعارف لکھا ہوا ہے : یہ صرف سوانح حیات ہی نہیں، بلکہ حضرت کی علمی وروحانی کمالات، مجددانہ کارنامے، اصول تربیت وسلوک، عارفانہ نکات، زریں اقوال، مریض ومسموم قلوب کے لیے مسنون و مجرب تعلیمات کا تریاق حضرات سلف کا علمی، عملی ذخیرہ اور یادگار حقیقی اسلام کا مکمل درس اور دنیا و آخرت کے سنوارنے کا مکمل انتی عمل ہے ۔[2]

بعض عناوین کی تبدیلی[ترمیم]

سوانح نگاروں کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کی باضابطہ آپ نے وصیت فرمائی، اسی کے ساتھ بعض عناوین میں آپ نے تبدیلی بھی کی، مثلا : آپ کی کرامت اور کشف کو سوانح نگارلکھنا چاہ رہے تھے تو آپ نے اس کی صراحت کی کہ مجھے کشف نہیں ہوتا اور نہ مجھ سے کرامت صادر ہوتی ہے؛ ہاں ! اگر لکھنا چاہیں تو کشف و کرامت سے متعلق شریعت کی تنقیحات لکھیں اور عنوان میں’تنقیح‘ کا لفظ بڑھا کر ”تنقیح کشف وکرامت“ لکھیں؛ چناں چہ ایسا ہی کیا گیا۔[2]

تتمہ، تذییل اور تذنیب کی اصلاح[ترمیم]

مضمون کے نقص کو پر کرنے کے لیے جو اضافہ کیا جا تا ہے، اسے تمہ کہتے ہیں اور مضمون کے اخیر میں ضرورت کے بہ قدراضافے کو ’ ’ تذییل ‘ ‘ سے تعبیر کرتے ہیں، بھی صفحہ کے نیچے کچھ لکھنے کوبھی تذییل کہتے ہیں، پہلے معنی کے لحاظ سے تذییل کا عنوان’’اشرف السوانح“ میں نظر آیا۔ اسی طرح ’ ’ تذ نیب“ کا عنوان بھی نظر سے گذرا بھی مضمون کی مناسبت سے بعض باتیں بڑھائی جاتی ہیں، جب کہ مضمون میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی یعنی اس اضافے کے بغیر بھی مضمون پورار ہتا ہے ’ ’ اشرف السوانح‘ ‘ میں یہ دونوں اصطلاحات بھی گذر ہیں، اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ سوانح نگار اصول تصنیف وتالیف کی باریکیوں سے خوب واقفیت رکھتے تھے یا ایسا ہو سکتا ہے کہ خود صاحب سوانح نے ان چیزوں کی طرف رہنمائی کی ہوگی؟ بہر صورت’’اشرف السوانح“ کے معیاری تصنیف ہونے میں شبہ نہیں۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Mohammed Parvez۔ A Study of the Socio-Religious Reforms of Maulana Ashraf Ali Thanvi (PDF) (بزبان انگریزی)۔ Department of Islamic Studies, Aligarh Muslim University.۔ صفحہ: 147۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اپریل 2020 
  2. ^ ا ب پ ت Ishtiaque Ahmad (2020)۔ Ulama E Deoband Ki Swaneh Umriyon Ka Tanqeedi Tajziya Azadi Se Qabl۔ India: Department of Urdu, مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی۔ صفحہ: 265–273۔ hdl:10603/338413