حاجی غلام حیدر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سلطان الفقرا ء شہنشاہ اولیا ء تاجدار اصفیا ء قاسم حب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و آل محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سرکار حاجی غلام حیدر قادری رضوی ضیاءی دامت برکاتہم عالیہ

سرکار حاجی غلام حیدر قادری ضیائی

تاریخ پیدائش[ترمیم]

راحت العاشقیں حضرت جناب عزت ماٰب حاجی غلام حیدر قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالی کی تاریخ ولادت 2 دسمبر 1941 ہے

جائے پیدائش[ترمیم]

قبلہ و کعبہ سرکار حاجی غلام حیدرؔ مد ظلہ عالی باغبانپورہ شریف میں دنیائے اسلام کی دو بزرگ و برتر ہستیوں نشانِ محبت و وفا حضرت سرکار لال حُسین شاہ صاحبؒ اور سرکار مادھوؒ صاحب کے دربار اقدس کے عقب میں واقع علاقہ میں ایک نہایت عالی مرتبت ہستی پابند صوم و صلواۃ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا قبلہ حضرت جناب غلام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گھر پیدا ہوئے۔ قبلہ سرکار غلام محمدؒ صاحب کی کل اولاد پاک نو ہیں جن میں آپ سرکار کا مقام بالحاظ تعداد چھٹا ہے۔

آبا و اجداد[ترمیم]

قبلہ سرکار حاجی صاحب کے آبا کا تعلق برصغیر پاک و ہندکے شہر شاہدرہ سے ہے آپ کے دادا حضور کا اسمِ مبارک قبلہ حضرت جناب علم دین تھا۔

والدین ماجدین[ترمیم]

حضرت غلام محمدؒ وقت کے اعلیٰ درویش تھے۔ آپؒ محنت کش او ربہت قناعت پسند انسان تھے۔ پیشے کے لحاظ سے ایک درزی تھے اور آپ ؒ نے ساری عمر اپنی نیک اولاد کی پرورش رزقِ حلال سے فرمائی۔ آپؒ انتہائی عبادت گزار تھے بعد از نماز فجر پورا پنج سورہ پڑھنا آپؒ کا اپنے وصال تک معمول رہا اور بعد از نماز مغرب چھ نوافل پڑھ کر حضور پر نور سیّد یوم النشور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق اوّل شافعیِ امتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سیّدی حضرت اویس قرنی ؓ کی روح پرفتوح کو ہدیہ فرمایا کرتے تھے۔

والدہ ماجدہ[ترمیم]

آپ سرکار سلطان الفقراء کی والدہ ماجدہ کنیز فاطمہ باندی زینب سیدہ حضرت حاجن بی بی سردار بیگم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا انتہائی نیک سیرت پاک طینت اور سخی خاتون تھیں۔ آپ کو خدا نے بے پناہ بصیرت سے نوازا تھا۔ یہ آپؒ کی ہی نگاہِ با بصیرت تھی جنھوں نے اپنے شہزادے کے مقام و مرتبہ کو پہچان لیا تھا اور انھی کے حکم سے قبلہ سرکار حاجی صاحب نے باقاعدگی کے ساتھ آستانہ حیدریہ قادریہ کے محفل کے دروازہ کو مخلوقِ خدا کی خدمت کے لیے وا فرما دیا تھا۔

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

اپنی والدہ ماجدہ سیّدہ کی آغوشِ تربیت اور والد ماجدساجد کی نورانی صحبت کے ساتھ ساتھ آپ سرکار صاحبِ اسرار نے ابتدائی تعلیم باغبانپورہ شریف سے حاصل فرمائی۔ دوسری جماعت تک آپ کارپوریشن کے اسکول میں زیرِ تعلیم رہے پھر تیسری اور چوتھی جماعت کے لیے مندر والا اسکول میں حصولِ علم کے لیے کوشاں رہے۔ پرائمری کلاس سے میٹرک تک آپ گورنمنٹ ہائی اسکول باغبانپورہ شریف لاہورمیں علم کے چراغ سے منورہوتے رہے۔

بچپن[ترمیم]

اوصاف ولائیت بچپن ہی سے نمایاں تھے۔ آپ کے انداز و اطوار عام بچوں سے با لکل جدا تھے۔ کمسن بچوں کی طرح فضول مشاغل میں شرکت نہیں فرماتے تھے۔ آپ نے کبھی اپنے والد گرامی سے جیب خرچ کا تقاضا نہیں فرمایا۔ آپ کے والد گرامی بھی آپ کی اس ادا ئے بے نیازی پر حیرت زدہ ہوجاتے کہ اتنی کمسن عمر میں بھی اس شہزادے کو عام بچوں کی طرح کھلونوں اور جیب خرچ کا شوق نہیں جبکہ بڑے شہزادے ان کے سامنے مجھ سے پیسے لیتے ہیں اور یہ الگ تھلگ بے پروا کھڑے رہتے ہیں۔

اعلی تعلیم[ترمیم]

میٹرک کے بعد آپ نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں ایف۔ ایس۔ سی (نان۔ میڈیکل ) میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں آپ نے سرکاری ملازمت کے دوران بی۔ اے کا امتحان پرائیویٹ طور پر پاس کیا۔

ملازمت[ترمیم]

معرفتِ خداوندی کے قاسم سرکار قبلہ حضرت حاجی غلام حیدرؔ ضیائی مد ظلہ العالی رقیق القلب اور دردِ انسانیت رکھنے والی شخصیت توہیں ہی مگر آپ ہمیشہ سے ہی ایک انتہائی خودار انسان اور اقبال ؒ کی خودی کے رموز سے آشنا اوراسکا عین مظہر ہیں۔ اسی واسطے آپ نے دورانِ تعلیم ہی اپنے والدِ گرامی کا دست و بازو بننے کا ارادہ فرمایا اور 10مئی 1960 سے اے۔ جی آفس لاہور میں ملازمت کے فرائض سر انجام فرمانے لگے۔

کاروبار[ترمیم]

1970 ء میں قاسمِ حُب محمدؐ و آلِ محمدؐ نے اے۔ جی آفس کی ملازمت کو خیر آباد فرمایا اور ایک عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضورؐ پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کپڑے کا کاروبار شروع فرمایا۔ حضوؐر سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ پاک کی بارھویں کی نسبت سے 12 جولائی 1970 ء کو اس مبارک کام کا آغاز بدستِ مبارک سراج الاتقیاء تاج الاصفیاء حضرت قبلہ صوفی صدیق صاحب الرفاعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ہوا اور انھوں نے ہی پہلے گاہک کے طور پر اپنی والدہ ماجدہ کے لیے کپڑا خرید فرما کر دکان کو برکتوں سے آراستہ فرما دیا۔ 1987 ء میں بصدقہ پنجتن پاک یہ دکان آپنے خرید لی اور آج کل آپ کے چھوٹے صاحبزادے حضرت والا شان جناب جنید حیدر قادری مدظلہ عالی کی ملکیت میں زینت خلائق ہے۔

شادی مبارک[ترمیم]

یکم جولائی 1966ء 11 ربیع الاوّل کی مبارک رات کو جب عاشقانِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جا بجا حضور ؐ کی آمد کی خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے وہی اُن کی محبت سے سرشار یہ عشوہ ساز مدنی ماہی ڈھولن کی سنتِ مبارکہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو رہے تھے۔ رسمِ ولیمہ 12 ربیع النور کے با برکت اور پُر مسرت دن کو بفضلِ تعالیٰ ادا ہوئی۔

آلِ پاک[ترمیم]

خدائے عزو جل نے آپ سرکار کو پنجتن پاک کے صدقے عدد پانچ کی نسبت پانچ نہایت عالیشان اور نیک سیرت اولادوں سے نوازا جن میں 2 شہزادے اور 3 شہزادیاں شامل ہیں ۔

بیعت[ترمیم]

1970ء وہ مبارک سال تھا جس میں نور ولایت سرکار حاجی غلام حیدر قادری ضیائی مد ظلہ العالی کو اللہ تبارک تعالیٰ نے شمعِ محفل رونق محفل اور جانِ محفل بنانے کے لیے ملازمت سے استعفیٰ پھر کاروبار اور بیاہ کے بعد حج بیت اللہ کے فرائض عظیم سے سبکدوش فرمایا۔ دورانِ حج زیارتِ دیارِ یاراں کوچہء جاناں عرشِ مدینہ طیبہ منورہ میں مسجد ِنبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بالمقابل ڈاکخانہ والی گلی میں حسّان الہند عبد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امامِ اہل سنت والجماعت اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خاں بریلوی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ و شاگردِ اوّلین مدفون پائے سیّدہ مطہرہ منورہ ساجدہ عابدہ زاہدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا و آلِ علیہا حضرت قطب مدینہ جناب ضیاء الدین مہاجر مدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دستِ اقدس و شفقت پر مشرفِ بیعت ہو کر مسندِ عرفان پر براجمان ہوئے ۔

آستانہ عالیہ حیدریہ قادریہ[ترمیم]

سلطان الفقراء سرکار قبلہ حاجی غلام حیدر قادری رضوی ضیائی میں اوصافِ ولایت تو بچپن سے ہی عیاں تھے اور آپ کی علم دوستی مہمان نوازی سخاوت اور جود و کرم کا شہرہ عالم شباب سے ہی زبان زد عام تھا۔ مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی، ان کی داد رسی فریاد رسی ہمیشہ سے ہی آپ کے اخلاق کریمانہ کا حصہ تھی یہی وجہ تھی کہ آپ کی والدہ ماجدہ ساجدہ کے حکم پر آپ نے باقائدہ طور پر مخلوق خدا کے لیے خود کو وقف فرما دیا۔ اللہ کے بندوں کا تانتا بندھنا شروع ہو گیا اور جوق در وق لوگ آپ کے دربارِ عالیہ حیدریہ میں حاضری دینے لگے جنوری 1990ء سے لے کر آج کے دن تک حکمت و عرفان کے پیاسے آپ کی نگاہ پاک کے چشمہ سے فیض یاب ہونے کے لیے کھچے چلے آتے ہیں۔

بیعت کا آغاز[ترمیم]

محفل کا آغاز تو جنودی 1990 ء سے ہی آپ کے آستاں ضوفشاں پر ہوتا تھا۔ 1998ء میں جب آپ کو مدینہ پاک سے عاشق رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سردارِ عارفین عالی مرتبت رہبر شریعت خلیفہ حضرت ضیا ء الدینؒ مہاجر مدنی جناب حضرت عارف قادری صاحب دامت برکاتہم عالی کے وسیلہ سے خلافت کی تحریری سند عطا فرمائی گئی تو باوجود مرتبہ خلافت پر فائز ہونے کے آپ سیّدی نے عرصہ تک کسی کو بیعت نہیں فرمایا کیونکہ آپ کو پیرانِ عظام کی دنیادارانہ حرکات و سکنات، طلبِ مریدی اور جو کچھ آج کل کے نام نہاد سجادہ نشین حضرات کرتے ہیں سے شدید نفرت ہے۔ سیّدی فرماتے ہیں کی ( میں کبھی بھی پیر نہیں بننا چاہتا تھا اگر یوں کہا جائے کی میں دھکے سے پیر بنا دیا گیا ہوں تو بجا ہو گا )۔ راقم تحریر احقر کمتر عرض گزار ہے کہ فقیر کو ما سوائے اللہ کے کسی شے کی طلب نہیں ہوتی اور میرے صاحب، سرکار، سردار، ذی وقار تو جلد کسی کو بیعت سے مشرف نہیں فرماتے۔ آپ سیّدی سرکار اپنے مریدین پر بھر پور ظاہری اور باطنی توجہ فرماتے ہیں۔ آپ کا مرید جہاں کہیں سے بھی آپ کو باطنی ظاہری طور پر مدد کے لیے پکارے تو آپ اس کے داد رسی فرماتے ہیں۔ ہر پل آپ سے کرامات صادر ہوا چاہتی ہیں مگر آپ ہمیشہ بسبب عاجزی یہی فرماتے ہیں کی میں کچھ نہیں اور اسے اللہ تبارک تعالیٰ کا امر فرماتے ہیں(بیشک کہ امر تو اللہ ہی کا ہوتا ہے مگر خدائے ذولجلال اسے اپنے محبوب و مقرب بندوں کے وسیلہ سے پورا فرما کر اولیاء اللہ کی شان کو خلق پر ظاہر فرماتا رہتا ہے)۔ مخلوق خدا جو آپ کے قرب سے زرّہ بھر آشنا ہوتے ہیں اور آپ کی عالی وقار شخصیت کی ہلکی سی جھلک دیکھ لیتے ہیں وہ بے ساختہ آپ کو صاحب کن، محبوب خدا ،سلطان الفقراء، شہنشاہ اولیاء کے اسماء سے پکار اُٹھتے ہیں۔ آپ کے ارادت مندوں کو یہ قوی یقین ہے کہ جو آپ سیّدی سرکار کی زبان مبارک سے نکل گیا وہ حق ہے اور ہو کر رہے گا آپ کی نگاہِ کشور کشا میں وہ قوت ہے کہ ایک ہی لمحے میں انسان کا باطن پاک اور ترک گناہ سے نیکی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔

کیا خوب کرو ہو کیا کمال کرو ہو تم جس کو تکو حیدر بیمثال کرو ہو

جان و جہان کا حسن و جمال[ترمیم]

آپ سرکار صاحب اسرار حاجی غلام حیدر قادری رضوی ضیاءی کردار و اطوار اور مرتبہ و افکار میں تو بلند و بر تر ہیں ہی قطب الاقطاب غوث الغیاث سلطان افقراء کے منصب پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کا جسد پیکر نور کا ایسا ہالہ معلوم ہوتا ہے کہ زمانے بھر کی نازنینوں حسیناؤں اور جنت کی حوروں اور غلمان کی چمک دمک ماند پڑ جاتی ہے۔ آپ کے رخ انور کی ضیا کے سامنے ماہتاب و آفتاب منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ آپ کی پیشانی مبارک پر درج نقش جس میں اللہ محمد ؐ اور علی ؑ کے اسمائے پاک واضح طور پر نظر آتے ہیں جو آپ سیدی پیکر کمال و بیمثال کے بلند مرتبت ہونے کی دلیل ہیں۔ آپ کے ابرو مبارک آپ کی نگاہ ناز پر یوں محسوس ہوتے ہیں جیسے تنی ہوئی کمان ہو اور ان میں سے آپ کی چشمِ ہوش ربا کے پے در پے تیر نکل کر عاشقوں کے دل و جگر کو یوں گھائل کرتے چلے جاتے ہیں کہ بسمل تڑپ تڑپ کر ہر بار ایک نئے وار کا منتظر رہتا ہے۔ ہر بار ایک نئے زخم کو ترستا ہے۔ اپنے سر کو آپ کے قدموں میں نثار ہونے کو بچھا دیتا ہے۔ اپنا سب کچھ آپ پر قربان کر دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔ پلکوں کی چلمن کی جنبش سے نسیم صبح کی سرمستی جھومتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ آپ کے رخسار مبارک کی سرخی آپ سیدی مولائے من جان من کی گوری رنگت پر یوں محسوس ہوتی ہے جیسے شفق کے سرخ ڈوروں نے وقت سحر آسمان کے کناروں پر ڈیرے جما لیے ہوں۔ آپ کی بینی مبارک کی رفعت آپ کی عظمت و شان کی گواہی ہے ۔ آپ سیدی جہان من کے لبان مقدسہ جواہرات کی وہ کلید ہیں جن کے کھلتے ہی عرفان کے سب گنجینے دلوں کی اجڑی ہوئی مفلوک الحال بستیو ں کو شاہانہ تاج پہنانے نکل پڑتے ہیں۔ آپ کے دہن مبارک کا لعاب پاک شفائے کل امراض ہے۔ آپ کے تبسم سے گوہر سپیدہ کا جھرمٹ عیاں ہو کر آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا ہے۔ اور ان موتیوں کے دربان کے پیچھے کسی شرمیلی دلہن کی طرح خاموشی کا حجاب اوڑھتی ہوئی لسان مبارک جب اپنے محبوب ربّ قدیر کے حکم سے اسرار کے پردے وا فرماتی ہے تو حق کے متلاشی یک گام منزل پر پہنچ جاتے ہیں جبکہ باطل کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ نفسانیت اور شیطانیت کے بت فاتح خیبر شیر خدا کے غلام کے کلام کی حرارت میں پگھل کے ریزہ ریزہ ہو کر زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ آپ کی دراز قامت اور متانت، دید والے پر ایک ایسی سحر انگیز جام کی بوند ٹپکاتی ہے کہ وہ ازل سے پیاسے رند کی طرح آپ کا میخانہ ڈھونڈتا ہوا قدموں میں ڈھیر ہو جاتا ہے۔ اور اگر آپ کی نگاہِ جوانائے قلب کے ساغر کو وہ رند پسند آ گیا تو پھر خوش قسمتی کے دروازے اس پر کھول کر مستقل رندوں کی قطار میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ آپ کے نرم و نازک رنگِ ابیض سے مزیّن دست اقدس وہ نوری چادریں ہیں جن کے سائے تلے ہزاروں یتیموں کے آشیانے ہیں۔ بیواؤں کے کاشانے ہیں۔ غرباء کی تقدیر ہے۔گناہگاروں کی تطہیر ہے۔ دکھیاروں کی دوا ہے۔ بیماروں کی شفا ہے۔ بے سہاروں کا آسراء ہے۔ ٹھکرائے ہوؤں کی پناہ ہے۔ غمزدوں کی تسکین ہے۔ عارفوں کی تمکین ہے۔ آپ کے مرمریں پر لحم مستحکم قدموں میں سالکوں کا جہان ہے عاشقوں کا ایمان ہے

پیکر شاہکار غلام حیدر کرار کے اخلاق و اطوار مبارکہ[ترمیم]

آپ سیدی سردار نابغہ روزگار غمخوار غربا اور مساکین پر نہایت محبت و شفقت فرماتے ہیں۔ نماز عصر سے لے کر رات گئے تک مخلوق خدا آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتی رہتی ہے۔ آپ کے آستانہ عالیہ کا در ہر خاص و عام کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ اور آپ ہر نئے آنے والے مہمان کے ساتھ انتہائی عزت و تکریم سے پیش آتے ہیں حتی کہ آنے والا کتنا ہی غریب و بے کس کیوں نہ ہو خود کو کسی ملک کا بادشاہ تصور کرنے لگتا ہے۔ جو شخص پل بھر پہلے اپنی قسمت کا رونا رونے آیا تھا اور بیماری پر مضطرب تھا حالات کے تھپیڑوں سے شکوہ و شکایت کی لمبی فہرست دل میں زنگ کی طرح گھر بنا چکی تھی آن کی آن میں ہی آپ کی ایک نگاہ کی بدولت آپ کے حسن خلق کی چمک پا کر روشنی اور امید کی کرن لیے اپنی کمزوری و بیماری اور حالات سے نبرد آزما ہونے اور غلبہ پانے کے لیے پوری طرح تیار ہو چکا تھا۔ اور یہ ہی آپ سیدی وجان و مہربان کی سب سے بڑی کرامت ہے جو ہر لمحہ ہر وقت ہر ایک کے ساتھ صادر ہو رہی ہے۔ کوئی سائل ایسا نہی جو آپ کے در سے خالی گیا ہو۔ جو آیا دینی دنیاوی اور روحانی دولت کے خزانوں سے مالا مال گیا۔ زیادہ تر ہم جیسے لوگ دنیا کی طلب میں فقیروں کے قدموں میں ڈیرہ لگا لیتے ہیں۔ مگر سیدی مہربان ہمیشہ ہماری دنیاوی حاجات کے ساتھ ساتھ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سودا بھی بنا مانگے مفت و مفت عطا فرما دیتے ہیں۔ اللہ پاک جل شانہ سرکارِ دو عالم نور مجسم شفیع امم جانِ حرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے مولائے کائنات شیر خدا جناب علی المرتضیٰ علیہ السلام کے صدقے سیّدہ طیبہ طاہرہ عابدہ زاہدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حضور کی ساری آل کے صدقے آپ سیّدی سرکار صاحب اسرار کو عمر خضری عطا فرما کر آپ کا سایہ مبارک تا دیر ہم غریبوں کے سروں پر سلامت رکھے۔ آپ کا آستانہ قیامت تک آباد رہے عشق کے ماروں کو تسکین اور یقین کی دولت سے نوازتا رہے۔ آمین! سدا بہار دیویں اس باغے کدے خزاں نا آوے ہوون فیض ہزاراں تائیں ہر بھکا پھل کھاوے