رودکی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
رودکی

رودکی فارسی شاعری کا باوا آدم خیال کیا جاتا ہے۔

ولادت[ترمیم]

اگرچہ رودکی کی ولادت کے بارے میں کوئی مستند حوالہ ہمیں نہیں ملتا ہے جبکہ بعض مورخین نے دسمبر 21، 858ء کو رودکی کی ولادت کا سال قراردیا ہے۔لیکن اس بات میں تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ تیسری صدی ہجری کے دوسرے حصے میں یعنی جس وقت فارسی شعر اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل سے گذر رہاتھا اس وقت فارسی زبان و ادب کے اس معمار یعنی ’’ابو عبد اللہ جعفر محمد رودکی سمر قندی‘‘نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔آپ کو ’’رودکی‘‘ اس لیے کہا جاتاہے ہے کہ آپ سمر قند کے ایک ’’رودک‘‘ نامی گاؤں میں پیداہوئے اور وہی پر نشو و نما پائی ہے ۔[1]

نام[ترمیم]

پورا نام ابو عبد اللہ جعفر بن محمد رودکی سمر قندی تھا۔ عبد الکریم بن محمد السمعانی نے رودکی کا پورا نام ’’ابو عبد اللہ جعفر بن محمد بن حکیم بن عبد الرحمن بن آدم‘‘ لکھا ہے ۔[2]

ابتدائی حالات[ترمیم]

جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ رودکی کی تاریخ ولادت کے حوالے سے کوئی معتبر حوالہ دستیاب نہیں ہے۔البتہ مورخین نے آپ کے ابتدائی حالات کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ بچپن ہی سے اس قدر ذکی اور تیز فہم تھے کہ آٹھ سال کی عمر میں نہ صرف قرآن مجید کو حفظ کیا تھا بلکہ بچپن ہی سے شعر گوئی میں بھی کمال حاصل کیا تھا اس لیے لوگ آپ کی بہت قدر کرتے اور احتراماً ’’استاد‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔آپ کی آواز میں بلا کی کشش پائی جاتی تھی۔رودکی کی بصارت سے محرومی کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے کہ آیاوہ پیدائشی نابینا تھا یا بعد میں کسی وجہ سے نابینا ہوئے تھے۔بعض انھیں مادر زاد نابینا سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے بعض مورخین کا خیال ہے کہ وہ پیدائشی نابینا نہیں تھے بلکہ بعد میں کسی وجہ سے نابینا ہوئے تھے۔ادب نامہ ایران کے مصنف اس دوسری رائے یعنی رودکی کے بعد میں نابینا ہونے کی حمایت میں لکھتا ہے کہ :یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ رودکی کے اشعار میں بعض تشبیہات ایسی بھی ہیں جنہیں وہی شخص لکھ سکتاہے جو بصارت کی دولت سے بہرہ ور رہ چکا ہو ۔[3]لیکن استاد بدیع الزمان فروزانفر اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتے ہیں اور عربی کے ایک پیدائشی نابینا شاعر بشار بن برد کے دیوان سے ایسی متعدد مثالیں پیش کرتے ہیں جن میں شاعر دیکھنے اور رنگوں کی بات کرتا ہے یا ایسی تشبیہات دیتاہے جن کا تعلق بصارت سے ہے۔ان کے خیال میں پیدائشی نابینا شاعر بھی اپنے تخیل کے زور سے اور طرز بیان کے عام سانچوں کو استعمال کرتے ہوئے ایسی باتیں کہہ سکتاہے۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

آٹھ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور قرات کا فن بھی سیکھا۔آواز اچھی تھی تو شاعری کے ساتھ ساتھ موسیقی کی جانب بھی رجوع کیا۔ بربط خوب بجاتا تھااور شعر بھی خوب کہتا تھا۔اس لیے موسیقی کے باعث اس کی شہرت دور دور پہنچی۔آپ کی شاعری اور خوش الحانی سے متاثر ہونے والوں میں سے ایک نصر بن احمد سامانی بھی تھا۔نصر بن احمد سامانی پر رودکی کے اشعار کے اثرات کے حوالے سے ایک انتہائی دلچسپ واقعہ بیان کیا جاتاہے ہے کہ کہ ’’ایک مرتبہ کسی سفر کے دوران جب امیر نصر بن احمد سامانی ایک خوبصورت سرسبز مقام پر پہنچا تو وہاں پر پڑاؤ ڈالا۔کافی عرصہ بعد جب وہاں پر اقامت کا دورانیہ طویل ہو گیا تو آپ کے قافلے میں شامل لوگوں کو گھر بار اور بیوی بچوں کی یاد ستانے لگی لیکن ان میں سے کسی کو یہ ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ شاہ سے واپسی کے بارے میں بات کرسکیں یہاں تک کہ ان سب نے رودکی کا دامن تھاما اور ان سے کہا کہ کسی طریقے سے شاہ کو واپسی کے لیے تیار کرے اس وقت رودکی نے ’’بوی جوی مولیان‘‘ نامی قصیدے کو اس طرح خوش الحانی اور خوبصورتی کے ساتھ شاہ کو سنایا کہ وہ جوتے پہنے بغیر ہی گھوڑے پر سوار ہوکر بخارا کی طرف روانہ ہونے لگاتھا۔‘‘[4] بوی جوئی لولیان آید ہمی یاد یار مہربان آید ہمی اکثر شعرا اور تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ رودکی مادر زاد اندھا تھا[5] جبکہ بعض دوسرے مورخین کا یہ ماننا ہے کہ آپ بعد میں کسی وجہ سے نابینا ہو گئے تھے ۔[6]

رودکی کا شمار فارسی کے عظیم ترین شعرامیں ہوتاہے ،بعد کے شعرا نے اسے استادِ شعرا یا سلطانِ شعرا کے نام سے یاد کیا ہے۔رودکی فارسی کا پہلا شاعر ہے جس نے فارسی کے وسیع امکانات کی نشان دہی کی۔کہا جاتاہے کہ رودکی بہت ہی پر گو شاعر تھا۔رشیدی سمر قندی کے بقول اس نے ایک لاکھ تیس ہزار شعر کہے لیکن استاد سعید نفیسی مرحوم نے بڑی کاوش کے بعد رودکی کے جو اشعار جمع کیے ہیں ان کی تعداد بمشکل ایک ہزار تک پہنتی ہے ۔[7]

غزل کا پہلا شاعر[ترمیم]

ان کی شاعری کا دیوان قصیدوں، رباعیوں، مثنویوں اور قطعات پر مشتمل ہے۔ انھیں فارسی کا ابو الآباء سمجھا جاتا ہے۔ رودکی نے ابوالفضل بلعمی کی فرمائش پر کلیہ و دمنہ کا فارسی میں منظوم ترجمہ کیا تھا۔ یہ تصنیف اب ناپید ہے۔ کچھ اشعار فرہنگِ اسدی اور تحفۃ الملوک میں ملتے ہیں۔ ان کو غزل کا پہلا شاعر بھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ نصر بن احمد شاہ بخارا کا درباری شاعر تھا۔

رودکی کے ہم عصر شعرا[ترمیم]

رودکی کے ہم عصر شعرا کے نام حسب ذیل ہیں : شہید بلخی،فرالاوی،مرادی،ابوالعباس،ربخجنی،ابوالمثل،بخرارائی،ابواسحاق جوئباری ،ابو الحسن اغجی،طمخاری،خبازی نیشاپوری، ابو الحسن کسائی ، دقیقی،ابوذراعہ،گرگانی ،استغنائی نیشاپوری، ابو عبد اللہ جنیدی ،عمارہ مروزی وغیرہ۔[8]

رودکی سے ہم عصر شعرا کی رقابت[ترمیم]

رودکی کو ایران کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا ہے کیونکہ اس شاعر کے نہ صرف ایسے اشعار جو اس کی فضیلت اور اس کی بلند خیالی کو ثابت کرتے ہیں، گذشتہ اور اس کے ہم عصر شاعروں سے زیادہ باقی ہیں بلکہ تمام تذکرہ نویسوں نے اس کا اسی طرح ذکر کیا ہے۔ اس کے سوا بہت سے شاعروں نے اور خاص کر اس کے ہم عصر شعرا جیسے شہید بلخی اور معروف بلخی وغیرہ نے اس کی بڑی تعریف کی ہے اور ان لوگوں نے جو اپنے آپ کو بڑا شاعر گردانتے تھے رودکی کے ساتھ رقابت کا اظہار کیا ہے چنانچہ معمری گرگانی جو اپنے آپ کو بہت بڑا اور کامل شاعر سمجھتا تھا اور اس کے اشعار سے بھی اس کی قوت سخن آزادگی اور بے نیازی آشکار ہے رودکی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے اور کہتا ہے ۔

اگر بدولت بارودکی نہ نمسانم عجب   کہ من سخن از رودکی نہ کم دانم

عنصری جو قصیدہ کا استاد تھا، غزل میں رودکی کی ہنر مندی اور استادی کی تصدیق کرتا ہے اور اس طرح اس کی تعریف کرتا ہے۔

غزل رودکی وار نیکو بود غزل ہائے من رودکی وار نیست

عالموں اور فاضلوں نے بھی رودکی کی تعریف کی ہے۔ اسماعیل بن احمد سامانی کے مشہور وزیر ابوالفضل بلعمی کا قول ہے کہ عرب اور عجم میں رودکی کا جواب نہیں ۔[9]

رودکی کا سبک اور شاعری[ترمیم]

رودکی کو قصیدہ ،رباعی، قطعہ،غرض تمام فنون سخن اور انواع شعر میں مہارت حاصل تھی اور وہ ہر طرز میں کامیاب رہاہے۔خاص کر قصیدہ سرائی میں وہ سب کا پیش روہے۔اس لحاظ سے کہنا چاہیے کہ رودکی بعد اسلام ایران کا بڑا شاعر ہے جس نے نہایت بلند پایہ اور محکم قصیدے لکھے ہیں۔رودکی نہ صرف سخن پردازی اور الفاظ کے تناسب کا استاد تھا بلکہ اس نے نہایت دقیق معانی سے بھی کام لیا ہے اور عبرت آمیز قطعات اور حکیمانہ اشعار اپنی یادگار چھوڑے ہیں ۔[10]رودکی کے قصیدوں میں ایک قصیدہ ہے جو اس نے اپنے بڑھاپے کے زمانے میں اپنی حالت پر لکھا ہے۔اس قصیدے میں اس نے جوانی کے دنوں کے مزوں اور بڑھاپے کے دنوں کے ضعف کا نقشہ کھینچا ہے۔اسی قصیدے کے سلسلہ میں اس نے اپنی شاعری ،اپنی شاعری کی شہرت اور اس کے اثر و نفوذ کا بھی ذکر کیا ہے ۔[11]

رودکی کے ممدوحین[ترمیم]

رودکی کا اولین ممدوح نصر بن احمد سامانی ہے جس کے دربار کا وہ شاعر تھا۔ رودکی کے اشعار میں نصر بن احمد کا نام نہیں آتاہے۔ رودکی کا ایک اور ممدوح امیر ابو جعفر حاکم سیستان تھا۔ رودکی کے ممدوحین میں ایک اور نام ابو طیب مصعبی کا بھی آتا ہے جو نصر بن احمد کا ایک نامور وزیر تھا اور علم و سخاوت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔[12]

رودکی کے بارے میں کتابیں[ترمیم]

  • صدرالدین عینی اور سیمینوف۔ پروفیسر روداکی (فارسی اور لاطینی زبان میں) ، اسٹالن آباد 1940
  • روڈاکی (روسی زبان میں) ای ایس بریگنسکی کے تعارف کے ساتھ ، ژاوین ، اسٹالن آباد 1955 میں ترجمہ کیا۔
  • م. زند۔ کیران کے مصنف ماسٹر روداکی ہیں ، (فارسی اور سیرلک میں) - اسٹالن آباد 1957۔
  • عبد الغنی مرزائیف۔ رودکی اور شام کے 10-15 (تاجک فارسی میں) ، اسٹالن آباد 1957 کی شام کو شاعری کی شاعری کی نشو و نما۔
  • عبد الغنی مرزائیف۔ روڈکی ، (تاجک فارسی میں) میں افسانوی داستانوں کا نمونہ۔ اسٹالن آباد 1958۔
  • پوپک نیک طلب۔ سرو سمرگھنڈ (سمرقند کا دیودار) ، رودکی کی نظموں کی مستقل ترجمانی ، تہران 2020 [13]

انتقال[ترمیم]

رودکی نے 304ھ بمطابق 940ء میں وفات پائی۔[14]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ادب نامہ ایران،مرزا مقبول بیگ بدخشانی،نگارشات لاہور،2000ء،ص94
  2. ایضا
  3. ادب نامہ ایران،ص95
  4. تاریخ ادبیات ایران،از ڈاکٹر رضا زادی شفق،مترجم سید مبارزالدین رفعت،ندوۃ المصنفین دہلی،1969ءص66
  5. استاد بدیع الزمان فروزانفر
  6. استاد سعید نفیسی
  7. فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ از ڈاکٹر محمد ریاض ،ڈاکٹر صدیق شبلی،لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز،2011ء،ص24
  8. ادب نامہ ایران،ص97
  9. تاریخ ادبیات ایران،ص62
  10. ایضا،ص63
  11. تاریخ ادبیات ایران،ص56
  12. ادب نامہ ایران،ص 96
  13. https://en.wikipedia.org/wiki/Rudaki#Books_about_Rudaki
  14. لطائف اشرفی جلد 3 صفحہ 572