سید اکبر خان ببرک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

لیاقت علی خان کا قاتل

16 اکتوبر 1951ء کی اس شام کمپنی باغ راولپنڈی میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں لیاقت علی خاں کے قتل کو ایک انفرادی جرم قرار دینا مشکل ہے۔ اس دن لیاقت علی خان پر دوران تقریر بندوق سے فائر کیے گئے، جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہو گئے،

لیاقت علی خان کو قریب ہی واقع کمبائینڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) پہنچایا گیا لیکن وہ 50 منٹ بعد قائدِ ملت سے ’شہیدِ ملت‘ ہو گئے۔

پہلے تو انسپکٹر شاہ محمد نے پولیس سپرنٹنڈنٹ خان نجف خان کے حکم پر اکبر خان پر قریب سے پانچ گولیاں چلائیں، پھر مشتعل ہجوم ان پر پل پڑا اور لاتیں، گھونسے، برچھیاں اور گملے مار کر انھیں ہلاک کر دیا۔ کچھ دیر بعد ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان نے میڈیا کو بیان جاری کیا کہ قاتل کا تعلق خاکسار تحریک سے تھا، تاہم بعد میں یہ بیان واپس لے لیا گیا لیکن اس کے باوجود ملک بھر میں خاکسار تحریک کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ چند گھنٹے بعد حکومت نے تصدیق کی کہ قاتل کا تعلق افغانستان کے صوبہ خوست کے زادران قبیلے سے تھا اور اس کا نام سید اکبر خان ببرک تھا۔

آنے والے دنوں میں اکبر خان کے بارے میں تفصیلات سامنے آنے لگیں۔ وہ افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان کی فوج میں بریگیڈیئر تھے، لیکن جب افغانستان میں خانہ جنگی کے نتیجے میں امان اللہ کو ملک سے فرار ہونا پڑا اور اقتدار ظاہر شاہ کے پاس آ گیا تو 1947ء میں آزادیِ ہند سے سات ماہ قبل اکبر خان بھی ملک چھوڑ کر ہندوستان آ گئے جہاں انگریزوں نے انھیں سیاسی پناہ دے دی اور وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ایبٹ آباد میں مقیم ہو گئے۔

اکبر خان کو انگریز حکومت کی طرف سے گذر بسر کے لیے وظیفہ ملتا تھا، جب پاکستان بنا تب بھی وظیفہ جاری رکھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اقبال اور مولانا رومی کے بڑے مداح تھے اور ان کا نشانہ بے خطا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی چلائی ہوئی پہلی گولی لیاقت علی خان کے دل کے پار ہو گئی

قتل کے بعد سید اکبر کے متعلق تحقیقات کا آغاز ہوا، وہ ہر وقت کشمیر میں جہاد اور بھارت پر حملے کے خواب دیکھتا رہتا تھا۔ اس نے اپنے گھر میں الٹے سیدھے جنگی نقشے لٹکا رکھے تھے ۔ وہ ایبٹ آباد کے مولویوں سے تقاضا کیا کرتا تھا کہ وہ عوام پر جہاد کی اہمیت واضح کریں۔ 14 اکتوبر کو ایبٹ آباد سے راولپنڈی جاتے ہوئے سید اکبر نے وہی لباس پہن رکھا تھا جو اس نے جہاد میں شریک ہونے کے لیے تیار کرایا تھا۔ اس کے مکان کی تلاشی میں روزنامہ تعمیر اور نوائے وقت کے متعدد تراشے ملے جن میں بیگم لیاقت علی خان کے خلاف رسوا کن اداریے تحریر تھے ۔ ان دونوں اخبارات میں وزیر اعظم اور ان کی بیوی کے خلاف گھٹیا مہم چلائی جا رہی تھی جس میں سید اکبر کو گہری دلچسپی تھی۔ دوسری طرف سید اکبر کے بھائی مرزک کے مطابق سید اکبر خود پردہ ترک کر چکا تھا۔ وہ کبھی کبھی اپنی بیوی اور بیٹے کو سینما دکھانے لے جایا کرتا تھا۔ اس نے 16 اپریل 49 کو لاہور سے دو گھڑیاں خریدیں، جن میں سے ایک اس کی داشتہ رخ عافیہ کے لیے تھی۔ اس نے اپنے لڑکے دلاور خاں کو ایبٹ آباد میں ماڈرن یورپین اسکول میں تعلیم کے لیے داخل کرایا تھا۔ مرنے کے بعد سید اکبر کی جیب سے 2041 روپے برامد ہوئے ۔ 450 روپیہ ماہانہ سرکاری وظیفہ پانے والے قاتل کے گھر سے 7650 روپے کے نوٹ اور منی لال چمن لال اینڈ کمپنی بمبئی کی تیار کردہ نقلی سونے کی 38 اینٹیں ملیں۔ سید اکبر پر اسرار طور پر کچھ آدمیوں سے ملتا جلتا تھا۔ 14 اکتوبر کو پنڈی پہنچ کر سید اکبر نے چند سوالات لکھ کر کسی سے استخارے کی درخواست کی تھی۔ قتل سے ایک روز قبل اسے تحریری جواب ملا جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا تھا کہ بہشت میں حوریں تمھاری منتظر ہیں۔ تم ہماری خوشنودی پاؤ گے ۔