محمود فاروقی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمود فاروقی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 13 مارچ 1978ء (46 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گورکھپور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ انوشہ رضوی   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی سینٹ پیٹر کالج، اوکسفرڈ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فلم ہدایت کار ،  منظر نویس   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمود فاروقی مشہور و معروف بھارتی کاتب، نقاد اور ہدایت کار ہیں۔ وہ وہ داستان گوئی کے فن میں مہارت حاصل کرنے کی وجہ سے اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں [1][2][3][4][5]۔ داستان گوئی کے فن کا تعلق 13,ویں صدی سے ہے اور اس فن میں داستان کو لوگوں کے سامنے سنایا جاتا ہے۔ داستان گو کے لہجے کے اتاؤ چڑھاؤ کو  اس فن میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ دھیرے دھیرے یہ فن وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا چلا گیا لیکن 2005 میں اس فن کے احیاء کے لیے دوبارہ کام شروع کیا گیا ہندوستان میں داستان گوئی سے متعلق سینکڑوں جلسے منعقد کیے گئے۔محمود فاروقی نے داستان گوئی میں ہزاروں بار اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

محمود فاروقی نے اپنے انکل شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ مل کر داستان گوئی کے قدیم فن کو دوبارہ زندہ کیا ہے [6][7][8][9][10]۔

سال 2010 میں انھیں استاد بسم اللہ خاں یووا پرسکار سے نوازا گیا[11]۔

تعلیم[ترمیم]

محمود فاروقی نے اپنی ابتدائی تعلیم دوناسکول سے حاصل کی اور بعد میں تاریخ کا علم حاصل کرنے کے لیے سر اسٹیفنز کالج دہلی میں داخلہ لیا۔انھیں روڈذ اسکالرشپ بھی ملی جس کی بنا پر وہ سر بیٹر کالج یونیورسٹی آف آکسفرڈ میں تاریخ کا علم حاصل کرنے گئے۔

داستان گوئی[ترمیم]

محمود فاروقی نے 2005 میں داستان گوئی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں شروع کی اور اس دن سے آج تک انھوں نے داستان گوئی کے ہزاروں جلسے منعقد کیے ہیں۔ چودہویں صدی کی مشہور فارسی داستان گوئی جس میں امیر حمزہ کی زندگی اور حیرت انگیز کارناموں کی کہانیاں سنائی جاتی تھی انھوں نے اس طرح کی داستان گوئی میں نئی جدت پیدا کی اور امیر حمزہ کی داستانوں کے ساتھ ساتھ نئے زمانوں کی کہانیاں بھی شامل کی۔ہندوستانی شاعر اور نقاد شمس الرحمان فاروقی  ان کے چچا ہیں اور ان کے ساتھ محمود فاروقی نے داستان گوئی کے احیا کے لیے کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں۔

تصانیف[ترمیم]

ان کی اشاعتوں میں ایوارڈ جیتنے والی تعداد میں کتابیں شامل ہیں:

  • محاصرہ : دہلی سے آوازیں، 1857
  • حبیب تنویر: یادیں ، اردو کے تھیٹر کے ڈائریکٹر حبیب تنویر کے یادگاروں کا ترجمہ اور ایک تعارف کے ساتھ
  • داستان گوئی ،داستان گوئی آرٹ کا تعارف
  • یادگار پاکستان کے لیے: انتظار حسین کی دنیا
  • جدید اردو ادب، ثقافت اور مختصر تاریخ کی ادبی اور حیاتیاتی جائزہ

وہ کئی مضامین کے مصنف بھی ہیں  جس میں شامل ہیں

  • 'دہلی کے دو دانشور' ،1857 کی بغاوت میں چھپا
  • "1857 کی دہلی میں پولیس  " جسے  روزی جونز نے مدون کیا اور میپن پبلشنگ انڈیا، نے 2017 میں شائع کیا

ذاتی زندگی[ترمیم]

محمود فاروقی کی شادی فلم ڈائریکٹر اور سکرین لکھاری انوشا رضوی سے ہوئی ہے جنھوں نے سال 2010 میں فلم "پیپلی" کی ہدایت کاری کی جس میں کسانوں کی خودکشی کو موضوع بنایا گیا۔

زبردستی کا الزام اور بریت[ترمیم]

21 جون 2015 کو ایک امریکی ریسرچ سکالر نے فاروقی پر زبردستی کا الزام لگایا ، ٹرائل کورٹ نے محمود فاروقی کو قصور پایا اور سات سال جیل کی سزا سنائی [12]۔ ہائی کورٹ اپیل میں فیصلہ محمود فاروقی کے حق میں آیا اور انھیں رہا کر دیا گیا، سپریم کورٹ نے بھی رہائی کے فیصلے کو برقرار رکھا[13][14]۔

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Dastangoi is a fun tradition: Mahmood Farooqui – Times Of India"۔ Articles.timesofindia.indiatimes.com۔ 02 فروری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2012 
  2. "An interview with Mahmood Farooqui – Rediff.com News"۔ News.rediff.com۔ 14 ستمبر 2010۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2012 
  3. "Walk Back in Time: Experience life in Nizamuddin Basti, the traditional way"۔ دی انڈین ایکسپریس۔ 29 نومبر 2012۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2012 
  4. Vikram Ahmed Sayeed (14 جنوری 2011)۔ "Return of dastangoi"۔ Frontline۔ 18 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2012 
  5. Shoaib Ahmed (6 دسمبر 2012)۔ "Indian storytellers bring Dastangoi to Alhamra"۔ Dawn۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2012 
  6. Dec 24, 2011 07:50pm (2011-12-24)۔ "COLUMN: Dastan and dastangoi for the modern audience – Newspaper – DAWN.COM"۔ X.dawn.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اگست 2016 
  7. "Manhood Farooqui revives the lost Indian art of the Dastans – The Rhodes Trust"۔ Rhodeshouse.ox.ac.uk۔ 3 اگست 2009۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2012 
  8. "The forgotten storytellers – Culture"۔ livemint.com۔ 31 جولائی 2009۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2012 
  9. Business Standard (24 اگست 2010)۔ "Lunch with BS: Mahmood Farooqui"۔ Business-standard.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2012 
  10. Yogendra Kalavalapalli (21 ستمبر 2010)۔ "Cities / Hyderabad : Dastangoi floors one and all"۔ The Hindu۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2012 
  11. http://pib.nic.in/newsite/PrintRelease.aspx?relid=80742
  12. "'Peepli Live' co-director, Mahmood Farooqui, sentenced to 7 years in jail on rape charges"۔ Economic Times۔ Delhi۔ 4 اگست 2016۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2016 
  13. http://www.india.com/news/india/supreme-court-dismisses-appeal-against-mahmood-farooquis-acquittal-says-hc-judgement-very-well-reasoned-2851916/
  14. http://www.india.com/news/india/supreme-court-dismisses-appeal-against-mahmood-farooquis-acquittal-says-hc-judgement-very-well-reasoned-2851916/