طاہرہ عبداللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
طاہرہ عبد اللہ
طاہرہ عبد اللہ
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش c. 1953
قومیت پاکستان
عملی زندگی
پیشہ سماجی کارکن، فیمینسٹ، اقتصادی ترقی کی ماہر
کارہائے نمایاں امن پسند، فعالیت پسند برائے انسانی حقوق، فعالیت پسند برائے حقوق نسواں

طاہرہ عبد اللہ (پیدائش: c. 1953) ایک پاکستانی فعالیت پسند برائے انسانی حقوق و حقوق نسواں ہیں۔ [1][2][3][4]

طاہرہ عبدلاللہ پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے

2009ء میں انھیں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ وہ عدلیہ کی آزادی کے حق میں چلنے والی تحریک کا حصہ تھیں۔ [5] طاہرہ عبد اللہ ایک رضاکار کے طور پہ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ وہ تعلیم جیسے فلاحی کاموں اور پالیسی ساز اداروں کے ساتھ بھی کام کرتی ہیں۔ انھوں نے نصاب میں شامل نفرت انگیز مواد کے خاتمے کے لیے جدوجہد کی اور خواتین کی تعلیم تک آسان رسائی کے لیے آواز اٹھائی۔ [6][7][8][9][10] حقوق نسواں کی زبردست حامی ہونے کے ناطے انھوں نے خواتین کے اوپر ہونے والے ہر قسم کے صنفی جبر کی مخالفت کی۔ [11][12][13][14][15][16] انسانی حقوق کی علمبردار ہونے کی وجہ سے انھوں نے ناحق قتل کیے جانے والے بے گناہ افراد کے حق میں ہمیشہ آواز اٹھائی اور انصاف کا تقاضا کیا۔ انسانی حقوق کی خالف ورزیوں کے خلاف پمیشہ اپنا موقف واضح کیا۔ [17][18][19][20]

انسانی حقوق کی کارکن[ترمیم]

طاہرہ عبد اللہ نے انسانی بنیادوں پہ انسانی حقوق کے کارکن کے طور پہ پہلی بار 2005 سے کام کرنا شروع کیا جب پاکستان زلزلے سے بری طرح متاثر ہوا ، پھر 2009ء میں مہاجرین کا سلسلہ شروع ہوا تب بھی طاہرہ نے متاثرین کی مدد کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ 2010 ء کے سیلاب زدہ علاقوں میں بھی متاثرین کی مدد کی۔ طاہرہ صنفی برابری اور خواتین کے حقوق کی حامی ہیں اور ان کے تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں رہی ہیں۔ وہ خواتین کی جنسی ہراسانی کی روک تھام چاہتی ہیں، خواتین کے لیے ہر دیہات میں اسکولوں اور تعلیم تک رسائی چاہتی ہیں، تعلیم کا بجٹ بڑھانے اور تعلیم کو مفت کرنے کی درخواست کرتی ہیں۔بجٹ کا پانچ فیصد حصہ بنیادی تعلیم کے لیے مختص ہونا چاہیے جو دو فیصد سے بھی کم ہے۔ طاہرہ اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل مسائل کی نشان دہی کرتی ہیں۔[21]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. The Newspaper's Staff Reporter (13 September 2020)۔ "Protesters demand justice for victims of sexual violence"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  2. "Aurat Foundation launches study on honour killings"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 4 January 2012 
  3. "LUMS Live Session 43: Sexual Violence and Safety: Current Realities, Next Steps"۔ LUMS 
  4. "Pakistan NGO Alternative Reporton CEDAW–2005-2009" (PDF) 
  5. Aisha Sarwari۔ "How to be a woman in Pakistan"۔ Aisha Sarwari۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2017 
  6. "K-P's curriculum: Khan's real fight"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 3 February 2016 
  7. "Religious inclusion and equitable education policy stressed for national cohesion"۔ Dispatch News Desk۔ 3 March 2020 
  8. "Textbooks must be neutral, bias-free, student-friendly, says study"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی) 
  9. Zubeida Mustafa (1 April 2016)۔ "Textbooks of hate"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  10. A. Reporter (28 February 2015)۔ "'School syllabus needs to be purged of extremist content'"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  11. "Khalil ur Rehman Qamar, Owais Tohid debate gender issues | SAMAA"۔ Samaa TV 
  12. "Feminist Tahira Abdullah owns Khalil-ur-Rehman Qamar on women's rights"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی) 
  13. "Lawmakers, activist demand Lahore CCPO's removal over victim-blaming remarks | SAMAA"۔ Samaa TV 
  14. "Pakistani Women"۔ Alternative Radio 
  15. "Protesters in Pakistan Demand Change After Two Violent Rapes"۔ Democracy Now! (بزبان انگریزی) 
  16. KATHY GANNON (13 October 2020)۔ "Pakistan police arrest key suspect in shocking highway rape"۔ SFGATE۔ 18 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 نومبر 2020 
  17. "Eight Demands on March 8: HRCP moot urges opening up spaces for women human rights defenders"۔ Human Rights Commission of Pakistan۔ 9 March 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 نومبر 2017 
  18. Asma Ghani (17 August 2016)۔ "Child abuse cases: Implementation of laws to protect children demanded"۔ The Express Tribune۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 نومبر 2017 
  19. Associated Press (16 July 2020)۔ "Minorities under attack as PM pushes 'tolerant' Pakistan"۔ Daily Herald 
  20. "HR activist condemns Pemra's ban on Geo"۔ Pakistan Press Foundation۔ 9 June 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 نومبر 2017 
  21. https://www.youtube.com/watch?v=g7vHHc8xb7w