ازدواجی انتشار

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
میریلن مونرو اپنے اٹارنی جیری گیسٹر کے ساتھ مل کر اپنے شوہر جو ڈی میگیو سے طلاق کے حصول کے لیے کاغذات داخل کرتے ہوئے۔

ازدواجی انتشار (انگریزی: Marital breakdown) ایک عام طریقۂ کار کا نام ہے جس کے تحت شادی شدہ جوڑوں کے بیچ کا تعلق میں زبردست بکھراؤ واقع ہو جاتا ہے۔ یہ اس حد تک اپنی جڑیں مضبوط کر لیتا ہے کہ عام طور سے یہ لوگ رشتے کو حسب سابق قائم نہیں رکھ سکتے۔ اس کے کئی مراحل ہوتے ہیں اور ہر فرد ان مراحل سے مختلف مواقع پر گزرتا ہے۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ طریقہ ہے جس میں نفسیات، شخصی مالیہ اور مذہب تک کا دخل ہو سکتا ہے۔ یہ گھریلو توقع کی خلاف ورزی ہے، جس کی وجہ سے اکثر طلاق یا ازدواجی رشتے کی تحلیل واقع ہو سکتی ہے۔ ان مراحل کے اختتام پر یا تو رشتہ باقی نہیں رہے گا یا پھر اس میں زبر دست کھنچاؤ اور قریب الختم ہونے کا احساس ہوگا۔ ہر ازدواجی انتشار اس معاملے میں مختلف ہو سکتا ہے۔


ازدواجی انتشار کے اسباب[ترمیم]

ازدواجی انتشار کے اسباب مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایک عام سبب ازدواجی توقعات کا بکھراؤ ہے۔ 1982ء میں بھارت میں بنی فلم "نکاح" میں شوہر اور بیوی کے بیچ تعلقات میں تلخی کا بڑا سبب شوہر کا کام میں ضرورت سے زیادہ الجھا ہونا اور بیوی کا ایک ساتھ وقت کے زیادہ گزارنے پر زور۔ تاہم زندگی میں ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کی اس کشمکش کی وجہ سے میاں بیوی میں طلاق کی نوبت آتی ہے۔ اگر چیکہ فلم کا کلیدی موضوع کچھ ناقدین کی رو سے طلاق مغلظہ اور اس کے بعد مسلمان خواتین کی متاثرہ زندگی ہے۔

طلاق کا ایک انتہائی عجیب و غریب سبب ہے ’’ محبت کی شادی‘‘ ہے۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ یہ تعلق ہی غیر ذمہ دارانہ قسم کا تعلق ہوتا ہے البتہ شیطان اسے انتہائی مزین کر کے پیش کرتا ہے اورخود طرفین ایک دوسرے پر اپنی خوبیاں ہی ظاہر کرتے ہیں ہر وہ گذر گاہ اور ہر وہ موقع جہاں ایک دوسرے کو نظر آجانے کا امکان ہوتا ہے وہاں کوشش یہ ہوتی ہے کہ زینت میں رہیں اگر زینت میں نہ رہیں توھیئت کم ازکم خراب نہ ہو۔ظاہر ہے اس تصور کے ساتھ دولوگوں کا ناجائز رابطہ ہوتا ہے تو بھلا خامیوں پر نظر کیسے جا سکے گی پھر بالعموم دونوں پر کسی قسم کی ذمہ داری نہیں ہوتی اس لیے ذہن و دماغ میں تفریح کی بھر پور آمادگی قائم رہتی ہے پھر بات بات میں جان قربان کردینے سے کم پر کوئی اظہار نہیں ہوتا، مزید یہ کہ شادی سے پہلے شوہرانہ اور بیگمانہ غیرت بھی نچلی سطح کی ہوتی ہے لیکن شادی کے بعد جب آسمانی دنیا سے زمین پر اترنا ہوتا ہے اور رنگین عینک آنکھ سے اتر جاتی ہے او رٹھیک ٹھیک دکھائی دینے لگتا ہے جان دینے والا پانی بھی خود سے اٹھا کر پینے کو راضی نہیں ہوتا شیطان بھی اب گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتا ہے پہلے تو دونوں کو ایک دوسرے کے لیے مزین بنا کر پیش کرتا تھا اور اب صرف ہاتھ ہی نہیں اٹھا لیتا دونوں میں بگاڑ کی راہیں استوار کرنے لگ جاتا ہے ۔ تو طلاق ہوجاتی ہے۔[1]

اس کے علاوہ شک و شبہ، ازدواجی بے وفائی، عنانت، بانجھپن، دائمی مرض، جنسی کمزوری وغیرہ بھی ازدواجی انتشار کے اسباب ہو سکتے ہیں۔


مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]