بیلگام
ಬೆಳಗಾವಿ | |
---|---|
شہر | |
بھارت | بھارت |
ریاست/عملداری | کرناٹک |
District | بیلگام ضلع |
حکومت | |
• Administrator | Shri.Nitesh Patil[1] |
رقبہ[2] | |
• شہر | 94 کلومیٹر2 (36 میل مربع) |
رقبہ درجہ | 4 |
بلندی | 762 میل (2,500 فٹ) |
آبادی (2011)[3] | |
• شہر | 490,045 |
• درجہ | 2 |
• کثافت | 5,200/کلومیٹر2 (14,000/میل مربع) |
• میٹرو | 610,189 |
زبانیں۔ کنڑا ۔ اردو۔ مراٹھی ۔ انگریزی ہندی | |
• دفتری | کنڑا |
منطقۂ وقت | IST (UTC+5:30) |
PIN | 5900XX |
ٹیلی فون کوڈ | (+91) 831 |
گاڑی کی نمبر پلیٹ | KA-22 |
ویب سائٹ | belgaumcity.gov.in |
بیلگام:ریاست کرناٹک کا ایک شہر ہے، کارپوریشن اور ایک ضلع بھی ہے۔
تاریخ
[ترمیم]بارہویں صدی عیسوی میں رٹہ حکومت نے بلگام شہرکو قائم کیا ،جو قریبی مقام سنودتی پر حکومت کرتے تھے۔ بچی راجا نامی رٹہ افسر نے بلگام کے قلعے کی تعمیر 1204میں کی۔ دیوا گیری کے یادوا سلطنت سے ہارنے سے پہلے تک یعنی 1210 تا 1250 بلگام رٹہ سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ پھر بلگام کچھ عرصہ تک دیوگیری کے یادوا کی حکومت میں رہا۔ اس کے بعد دہلی کیل خلجی اور وجے نگر سلطنت 1300 اور 1336 میں حکومت کیے۔ تقریباً ایک صدی بعد یہ شہر ہیرے اور لکڑی کی تجارت کے لیے مشہور ہو گیا۔ بیدر پر حکومت کر رہی، بہمنی سلطنت نے 1474 میں بلگام کے قلعہ پر قبضہ کیا۔ بہمنی 1518 میں حکومت کے پانچ حصوں میں تقسیم ہونے پر بیجاپور میں عادل شاہی حکومت قائم ہوئی اور بلگام اب اس کا ایک حصّہ بن گیا۔ عادل شاہی نے اس قلعہ کو اس کی موجودہ ساخت دی۔ 1686 میں جب اورنگ زیب نے عادل شاہوں کو حکومت سے نکال باہر کیا تو بلگام مغل حکومت کا حصّہ ہو گیا۔ اورنگ زیب کی وفات )1707( کے بعد پعشوا نے اس پر قبضہ جما لیا۔ 1776 میں میسور کے حیدرعلی اس پر قابض ہوئے، لیکن پیشوا نے پھر اسے انگریزوں کی مدد سے دوبارہ حاصل کر لیا۔ 1818 میں انگریزوں نے پیشوا کو ہٹا کر ان کی حکومت حاصل کر لی، بلگام بھی اس کا ایک حصّہ تھا۔ ڈسمبر 1924 مہاتما گاندھی کی صدارت میں ہونے والے 39ویں انڈین نیشنل کانگریس کا 39واں اجلاس بلگام میں رکھا گیا۔ بلگام میں انگریزوں نے فوجی لشکر رکھا، کیونکہ یہ گوآ کے باالکل قریب تھا، جہاں پر پرتگالیوں کی حکومت تھی۔ انگریزوں کے جانے کے بعد اب بھی یہ فوجی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ 1961 میں گوآ پر پرتگالیوں کے خلاف حملے کے لیے جواہر لعل نہرو نے اسے استعمال کیا۔ 1947 میں آزادی کے بعد یہ بمبئے ریاست کا حصّہ بنا۔ 1956 میں لسانی بنیاد پر ریاستوں کی تقسیم کے بعد یہ ریاست میسور کا حصّہ بنا اور 1972 میں یہ ریاست کا نام بدل کر کرناٹک رکھا گیا۔
بیلگام آج کل
[ترمیم]2006 میں ریاست کرناٹک نے بلگام کو ریاست کا دوسرا صدر مقام بنایا اور یہ طئے کیا کے یہاں پر سال میں کم سے کم 15 دن کا لیجسلیچر سیشن رکھا جائیگا۔
بلگام کا سورنا سودھا
شہر بلگام سے قریب بستواڑ کے علاقہ میں سورنا سودھا کی تعمیر عمل میں آئی جو بنگلور کے ودھان سودھا کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔ 2007 میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور 11 اکتوبر 2012 میں صدر ھند جناب پرنب مکھرجی نے اس کا افتتاح کیا۔ اس کی تعمیر پر 400 کروڑ روپئیوں کی خطیر رقم صرف ہوئی۔
بلگام شہر میں کنڑ زبان کے علاوہ اردو زبان اور مراٹھی زبان .ہندی زبان کی بہت بڑی آبادی موجود ہے۔
٢٠١٩میں بلگام شہر میں۔ ہندوستان کا سب سے اونچا ترنگا لہرایا گیا۔ جس کی اونچائی 110 میٹر ہے۔یہ جھنڈا پنجی بابا تالاب کے بازو موجود ہے
بلگام میں اس وقت اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کے تحت بہت سے ترقیاتی کام جاری ہیں
بلگام میں اردو
نیچے کے لنک پر نظم سر زمین بلگام ملاحظہ کیجیے 👇
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1478872448990161&id=100006022592652
بلگام میں اردو شعرا اور ادیب کی بہت بڑی تعداد بستی ہے۔ ع صمد خانہ پوری( 2020 میں انتقال فرما گئے ) ۔ ڈاکٹریاسین راہی۔ شریف احمد شریف۔ احمد باشا ساغر۔ امان اللہ نظامی۔ مشتاق حسین فاروقی۔ ایوب راشد ۔ طاہر حسین طاہر۔ مشتاق علی گوہر۔ حافظ نوشاد۔ ناصر جمال۔ پروفیسر شوکت علی منیار۔ سلمان سجاد وغیرہ کے نام کافی مشہور ہیں۔
اردو صحافت میں جناب م فاروق حنان کی خدمات قابل ستائش ہیں ۔ پچھلے چار دہائیوں سے وہ اردو اخبار جوہر گفتار اور ہھر جوہر صحافت شائع کر رہے تھے
جناب امان اللہ نظامی نے فاروق حنان کی چالیس ساله صحافتی خدمات پر کتاب بھی مرتب کی ہے جو جنوری 2022 میں شایع ہوئی ۔
یکم نومبر 2022کو فاروق حنان دل کا دورہ پڑنے سے 67 سال کی عمر میں چل بسے۔
پیغام اتحاد اردو نیوز پورٹل بڑی تیزی سے مقبول عام ہوا ہے جس کے مدیر اقبال جکاتی صاحب ہیں ۔
تعلیمی ادارے
بلگام شہر میں اردو اسکولوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ اسلامیہ اردو ھائی اسکول۔ باشیبان اردو ھائی اسکول سردار اردو ھائی اسکول اور چنتامنی اردو ھائی اسکول یہاں کے پرانے تعلیمی ادارے ہیں۔کئی سرکاری اردو پرائمری اسکول ہیں۔ جن میں اردو ماڈل اسکول نمبر ١۔ خنجر گلی۔ اردو ماڈل اسکول نمبر ١١۔ اعظم نگر۔ اردو ماڈل اسکول نمبر ١5۔ نیو گاندھی نگر۔ اردو ماڈل اسکول نمبر ٦ شاہ پور اور اردو اسکول نمبر ٩۔مجگائوں اردو ماڈل اسکول ویر بهدر نگر قابل ذکر ہیں۔ اردو اسکول مجگاوں کا فیس بک لنک نیچے درج ہے۔
👇Google map of urdu school majgaon
اردو اسکول مجگاوں کا گوگل میاپ
https://maps.google.com/?cid=12582611743328370186
مسلم تعلیمی اداروں میں الامین اردو ھائی اسکول ۔
مدنی اسکول۔ حضرت فقیہ المقدم اردو ھائی اسکول۔
ام الفقراء گرلس ھائی اسکول۔ بیگم۔لطیفہ گرلس ھائی اسکول۔ قابل ذکر ہیں۔
کالجس میں اسلامیہ پری یونیورسٹی کیمپ۔ انجمن اسلام ڈگری کالج بلگام ۔ شیخ سائنس اور ہومیوپیتھی میڈیکل کالج نہرو نگر۔ الامین پری یونیوسٹی آزاد نگر۔ شاہین پری یونیورسٹی امبیڈکر روڈ۔ کے نام قابل ذکر ہیں۔
بلگام شہر میں اردو خطاطی کے ماہر بھی بستے ہیں جن میں سر فیرست جناب عبد الواحد شاہپوری صاحب کا نام تھا جو 2021 میں چل بسے وہ
جو پچھلے چار دہائیوں سے اردو فن خطاطی کی۔ خدمات پیش کرتھے ے ہیں۔ اس کے علاوہ امتیاز احمد اتھنی اشرفی۔ خلیل احمد سوداگر۔ خلیل کوٹھی والے وغیرہ نام بھی موجود ہیں۔
بلگام میں اولیاے کرام
سرزمین بلگام اللہ کے نیک ولیوں کی آرام گاہ ہے۔ یہاں پر
١۔ حضرت قتال ولی شاہ رحمة اللہ علیہ
٢۔ حضرت سید عمر پیر باشیبان رحمة اللہ علیہ
٣۔ حضرت قیصر شاہ ولی رحمة اللہ علیہ
4۔ حضرت مراد شاہ ولی رحمة اللہ علیہ
5۔حضرت بدرالدین شاہ ولی رحمة اللہ علیہ(قلعہ)
٦۔حضرت عبدارحمن خنجر شاہ ولی رحمة اللہ علیہ
٧۔ حضرت اسد خان لاری رحمة اللہ علیہ(کیمپ)
٩۔ حضرت ابدال شاہ ولی رحمة اللہ علیہ
١٠۔ حضرت صدر الدین انصاری (جنگلی پیر)رحمة اللہ علیہ
وغیرہ کے آستانوں پر عقیدتمندوں کا ہجوم رہتا ہے۔
بلگام کی سیاست
2019 کے انتخابات میں بلگام شمال سے ایڈوکیٹ انیل بینکے (بی جے پی) رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ بلگام جنوب سے ابھے پاٹل (بی جے پی) رکن اسمبلی بنے اور بلگام دیہی سے لکشمی ہیبالکر (کانگریس)رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔ بلگام پارلیمانی حلقہ سے مسلسل تین بار سریش انگڑی (بی جے پی) رکن پارلیمان بنے۔2021 میں محترمہ منگلا انگڑی بلگام کی ركن پارلیمان منتخب ہوئی ہیں۔بلگام کے اساتذہ زمرے کے MLC جناب پركاش ھو کیری 2022 میں منتخب ہوئے ۔
واضح رہے کہ 1999 تک بلگام میں مہاراشٹر اے کی کرن سمیتی اقتدار پر تھی اس کے بعد 1999 میں پہلی بار کانگریس سے رمیش کڈچی نے جیت درج کی دس سال بعد 2009 میں فیروز سیٹھ نے جیت حاصل کی اس طرح 2019 کے بعد بلگام میں MES کا صفایا ہو چکا ہے ۔
بلگام کے سماجی خدمت گار ادارے
شہر میں غریبوں مسکینوں اور ضرورت مند لوگوں کی خدمت کے لیے کئی نوجوان مختلف سماجی اداروں کے ذریعے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔کچھ اہم سماجی خدمت گار تنظیموں کے نام اس طرح ہیں
1.اقراء ایجوکیشن اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی
2.النصر ایجوکیشن اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی
3.دی باغبان مسلم سوشل ویلفیئر سوسائٹی
4.مدینہ مسجد ریلیف فاؤنڈیشن
5.رحمان فاؤنڈیشن بلگام
6.انجمن اسلام بلگام
7.نظامیہ ویلفیئر سوسائٹی وڑگاون بلگام
بلگام کے اور مقامات
[ترمیم]بلگام بہت خوبصورت شہر ہے۔ یہاں کی آب و ہوا سب کو راس آتی ہے۔ بلگام شہر کے قلب میں جامع مسجد ہے جو دربار گلی میں موجود ہے۔
بلگام شہر میں اعظم نگر۔ گاندھی نگر۔ اجول نگر۔ امن نگر۔ ویر بھدر نگر۔ اسدخان سوسائٹی۔ خنجر گلی۔ چاندو گلی۔ قصاب محلہ۔ دربار گلی۔ گھی گلی۔ یہ سب صد فیصد مسلم آبادی کے علاقہ ہیں۔شہر میں 70 سے زائد مساجد ہیں۔
بلگام شہر کا مرکزی بس اسٹانڈ ٹیپو سلطان سرکل سے قریب ہے۔ یہیں پر بلگام شہر کا سب سے معروف ہوٹل نیو نیاز بھی ہے۔
بلگام کی ندیاں
بلگام ضلع سے دریاے کرشنا گزرتی ہے۔ اس کے علاوہ گھٹ پربھا ندی مل پربھا ندی مارکنڈے ندی دودھ گنگا وغیرہ یہاں بہتی ہیں۔
بلگام کا قلعہ
بلگام کا قلعہ تاریخی مقام ہے۔ یہاں سن 1600 میں تعمیر شدہ سب سے قدیم۔ مسجد صفا ہے۔ اس کے قریب حضرت شاہ بدرالدین رحمة علیہ کی درگاہ و مسجد بھی موجود ہے۔ ایک جین بستی کمل بستی کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں داخلی دروازے پر درگا مندر ہے۔ قلعہ بلگام اس وقت فوجی چھاونی کو تحت آتا یے۔ فوج ہی یہاں کی انتظامیہ ہے۔یہاں ہندوستانی فوج کی ١١4 مراٹھا لائٹ انفینٹری ٹکڑی طعینات ہے۔
قلعہ کے شمالی دروازے کے سامنے خوبصورت پنجی بابا تالاب موجود ہے۔ آج کل یہاں سیر و تفریح کا سامان موجود ہے۔ بوٹ کا بھی ابتظام ہے۔
بلگام میں فوجی تربیت گاہ
بیلگام کی آب و ہوا ، ساحل سے قربت اور پرتگالی گوا کے قریب اسٹریٹجک پوزیشن نے اسے برطانوی فوج کے لیے فوج کے ایک تربیتی مرکز اور چھاؤنی کے لیے موزوں مقام کے طور پر سراہا ، جو آج بھی ہندوستانی مسلح افواج کے لیے ایک فضائیہ کے اسٹیشن کے ساتھ ساتھ قائم ہے۔ بھارتی ایئر فورس . انگریز کے پاس یہاں ایک بڑی تعداد میں پیدل فوج تھی ، جسے اس نے اپنے جغرافیائی محل وقوع کی فوجی اہمیت کا احساس کیا تھا۔
وسائل کی نقل و حرکت اور بعد میں فوجیوں کے ریل نیٹ ورک کی ترقی ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانویوں نے ہندوستان پر قابو پانے کے لیے ایک ذریعہ تھا۔ بیلگام میںمراٹھا لائٹ انفنٹری رجمنٹٹل سنٹر (ایم ایل آئ آر سی) ہے۔اس میں کمانڈو ٹریننگ ونگ بھی موجود ہے جو انفنٹری اسکول ، مہو کا ایک حصہ ہے ، جہاں ملک کے پیادہ کمانڈوز کو برداشت ، فرار اور چوری ، گوریلا اور کمانڈو جنگی تکنیک اور زمین سے دور رہنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ کمانڈو بیلگام میں کورس کے تمام پیدل فوج کے افسران کے لیے لازمی ہے۔ دوسرے اسلحہ اور خدمات کے افسران اور یہاں تک کہ کچھ غیر ملکی افسران بھی اس کورس کو شروع کرتے ہیں۔ ملٹری اسپتال اور کمانڈو ٹریننگ سینٹر کے درمیان ایک نامور مقام موجود ہے بیلگام ملٹری اسکول ، جو 1945 میں قائم ہوا تھا اس کا رقبہ 64 ایکڑ (26 ہیکٹر) میں پھیل گیا۔
ہند تبتی بارڈر پولیس ، آئی ٹی بی پی، ایک مکمل تفریح کی تعمیر اور Halbhavi میں بیلگام میں مرکز تربیت ہے۔ بیلگام تفریح کے لیے ایک بہترین آب و ہوا مہیا کرتا ہے اورآئی ٹی بی پی اعلی بلندی کے دباؤ ڈیوٹی کے بعد اپنے فوجیوں کے لیے بیلگام میں بڑے خاندانی اڈے بنائے گا۔
ایلیٹ سینٹرل نیم فوجی دستوں کا سنٹرل ریزرو پولیس فورس انسٹی ٹیوٹ بیلگام کے خان پور میں ایک قومی سطح کا تربیتی ادارہ (جنگل کی جنگ کے لیے) قائم کر رہا ہے۔
شہر کے باغیچے
بلگام میں کئی چھوٹے بڑے باغیچے ہیں مثلا
امبیڈکر گارڈن۔۔ شیواجی گارڈن۔۔۔ سری نگر گارڈن۔۔
ملٹری مہادیو گارڈن۔۔رانی باغ۔۔۔شرکت پارک ۔ وغیرہ۔
شہر سے قریب دس کلومیٹر فاصلہ پر بھوت رام ہٹی علاقہ میں رانی کتور چنما چڑیا گھر zoo موجود ہے۔
بلگام کی تاریخی ہنڈ لگا جیل
بلگام شہر سے دس کلومیٹر فاصلے پر ہنڈلگا نامی علاقے میں جیل میں موجود ہے۔جسے انگریزوں نے تعمیر کیا تھا ۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "DC Rule"۔ City Corporation of Belgaum, Govt. of Karnataka۔ 23 April 2012۔ 09 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2012
- ↑ "city/town summary"۔ 29 ستمبر 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اکتوبر 2014
- ↑ "Cities ohaving population 1 lakh and above, Census 2011" (PDF)۔ Government of India
ویکی ذخائر پر بیلگام سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |