تبادلۂ خیال:درس نظامی

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ایک صفحہ ملانظام الدین محمد سہالوی کے عنوان سے بنایا تھا چند دن پہلے اس کے نام پر بحث ہوئی اور پھر سرے سے غائب ہو گیااب وہ کہیں بھی مل نہیں رہا رہنمائی کیجئے گا --ابو السرمدمحمد یوسف (تبادلۂ خیالشراکتیں) 07:12, 8 اکتوبر 2016 (م ع و)

ادراج کتب[ترمیم]

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ تنظیم الاشتات شرح مشکات ایضاح المشکات شرح مشکات بھی داخل کریں

Asemkasemy (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:53, 20 ستمبر 2017 (م ع و)

درسی نظامی جدید ناگزیر ہے[ترمیم]

نصاب سازی

        ایک سروے کے مطابق دنیا جس رفتار سے علم و تحقیق کے مراحل طے کر رہی ہے ، ہر دس سال بعد یہ علم و تحقیق کی وسعت و گہرائی دگنی ہو جاتی ہے. اس دور میں جہاں انسان کی تعلیم و تربیت کے لیے مختلف طریقے، نصاب سازی اور ادرہ سازی وجود پا رہی ہے. وہاں مذہبی تعلیم کے لئے دن بدن مشکلات بڑھ رہی ہے. ہمارے کچھ اکابر جامد تقلید کے قائل ہیں. تو دوسرے نئی نظام وسوچ میں ضم ہونا چاہتے ہیں. تو کیا اس دور جدید میں بین الاقوامی سطح پر منظور شدہ نصاب و ادارہ کی ضرورت ہیں یا نہیں ؟ اس کے لیے کون اور کس نے کیا اقدامات کئے اور کن کی ضرورت ہیں؟
         مدارس پر جب بهی حکومت کی طرف سے زور دیا جاتا ہے کہ نصاب کو بین الاقوامی سطح کے معیار کے مطابق ڈهال دو تو وہ عصری تعلیم کی نصاب پر سوالات اٹھاتے ہیں کہ سکول و کالج میں دین کی تعلیم نہیں ہے. یہاں سوال اٹھایا جا سکتا ہے:  دین اسلام ہی ہے  (القرآن)
          اسلام صرف عبادات کا نام نہیں بلکہ اس میں عقائد و عبادات کے علاوہ معاملات و معاشرت کے واضح و صریح احکامات و قوانین موجود ہے. ہماری فقہ کا ایک حصہ عبادات باقی معیشت، قوانین حدود و نکاح اور معاشرت پر مبنی ہے. تو کیا ہمارے مدارس معیشت دان و قانون دان اور جج پیدا کر رہے ہیں؟ سوشل سائنسز کے ماہرین پیدا ہورہے ہے جو جدید معاشرے کی تشکیل کر سکیں؟  ہمیں ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو ایسے افراد پیدا کرے جو پختہ نظریات کے ساتھ سیاسیات و معاشیات و اقتصادیات اور قانون کے ماہر ہو. جو دین سے آشنا اور معاشرے کے اسلوب سے روشناس ہو. تاکہ دنیا کو عملی و علمی ماہرین کا ایک نمونہ دکها سکے. ایک فطری و نظری معاشرہ بنا سکے. ایک اخلاقی ماڈل پر مبنی ریاست کا قیام ممکن ہو سکے.
            آج پاکستان کو ایک بڑا مسئلہ طبقاتی نظام تعلیم درپیش ہے. مدرسہ والا مدرسے سے باہر جھانکنے کو تیار نہیں اور سکول و کالج والا اندر کی فضا،  ماحول اور مزاج سے ناآشنا ہیں. ملا و مسٹر کی کشمکش نے آج قومی ہم آہنگی سے محروم کردیا ہے. مدرسہ والے اسکول و کالج کے طلباء کو دین سے دور اور دین بیزار سمجھتے ہیں. اگر دیکها جائے تو پاکستان کا ہر عصری تعلیم سے بہرور طالب علم عقائد کی بنیادی تعلیم یعنی علم الکلام سے واقفیت رکھتا ہے. عبادت کی بنیادی مسائل جو مدرسہ کے قدوری اول کے منتخابات پر مشتمل ہوتا ہے پڑھ چکا ہوتا ہے. ہر طالب علم کو سیرت و تاریخ اور تفسیر و حدیث کے منتخابات اور اس کے اصول و مبادیات کے مراحل سے گزارنا ہمارے تعلیمی اداروں کی حسن ہے. وہ الگ بات ہے کہ ہر جگہ پڑهانے والے میسر نہیں ہوتے.

          حکومت دینی مدارس کی نفی یا وجود کے خلاف نہیں ہے. بلکہ ہر ادارہ میں ان کی فضلاء کی وجود کا خواہشمند ہے. عصری و دینی تعلیم میں ہم آہنگی لانے کے لئے اقدامات کرنا چاہتی ہے. جس کے لئے مدارس والوں کو تهوڑی سے لچک دکهانی ہوگی. میٹرک تک کی تعلیم تو ہر ایک کے لئے لازمی و ضروری ہو. سکول میں سب کے ساتھ ایک کمرے میں پڑھ کر پاس کرے کیونکہ یہ قومی ہم آہنگی کا ذریعہ ہے. اس کے بعد یہی درسی نظامی پڑهائی جائی لیکن نصاب کو بین الاقوامی یا ایچ ای سی کے ڈھانچوں میں ڈهال دے.

I.sharia (Genral) 12 year education Bs sharia (Quran, Hadees, fiqu, Arabic) 16 year education Ms shariah 18 years education Phd yani mofti

         ویہی مواد، وہی کتابیں اور ویہی طریقہ تدریس ہوں گی، بس تهوڑی سے ترمیم و اضافات کے ساتھ کورس جدید اور قابل قبول ہو جائے گا. اس کے ساتھ وہ  بی ایس شریعہ اینڈ لا، شریعہ اینڈ بزنس، شریعہ اینڈ پولیٹکس اور صحافت کی ڈگری بهی جاری کر کے جدید قانون دان و معاشیات اور سیاست و صحافت کے ماہر بهی پیدا کر سکیں گے. حکومت کو یہ بهی معلوم ہے کہ ہر مدرسہ میں یہ قابل قبول نہیں ہے لیکن جن مدارس کے پاس وسائل ہے وہ تو اس جدید درسی نظامی اور ارتقاء کی طرف آئیں.
          اس کام کی جہاں افادیت اور مقاصد بہت اعلیٰ اور بلند ہیں. وہاں کچھ ایسے پہلو بهی ہیں جن کا ادراک ضروری ہے. ان کے سدباب کے لئے کچھ ضروری اقدامات اٹھانے ہونگے. ورنہ ایسا نہ ہو کہ یہ پهولوں کے کلیاں مرجھا نہ جائے. یہ گلستان ویران اور کانٹوں کا ڈھیر نہ بن جائے. ایمان کے نور سے منور یہ صدائیں برگشتہ قلوب کا ذریعہ نہ بن جائے. ؟ یہی افراد انتشار کا ذریعہ نہ بن جائے. یہ باتیں بے حد مضموم و گرفتہ دل ہیں لیکن وقت کا عین تقاضا ہے. حکومت کو چاہیے کہ مک بهر کے مدارس کو شریعہ یونیورسٹی چهتری تلے جمع کر کے ان کو شریعہ کالج کا درجہ دیا جائے. تاکہ ان کی فضلاء کرام ہر ادارہ میں قابل قبول ہو. وہاں خدمات دینے کے دروازے کهل سکے. اللہ تعالیٰ ایسے افراد پیدا فرمایے جو دین کی ہر ضرورت کو سمجھ کر پورا کرنے کے لیے تگ و دو شروع کرے. 
  • فوری اقدامات ناگزیر ہے*

شریعہ کالج کے زیر اہتمام میٹرک پاس طلباء کے لیے I.SHARIAH (Grade 12 )

کا اجراء کیا جائے. جس کی تکمیل پر فضلاء امام و خطابت، درس قران اور یونیورسٹی گریجویشن کے لیےاہل اور موزوں ہوں. نیز فضلاء کرام مدینہ یونیورسٹی اور جامعہ ازہر, مصر میں اعلیٰ تعلیم کے لئے بهی اسکالرشپ پر جا سکیں. کورس 4 سیمسٹر میں کل credit hours 72 پر محیط ہو. اس دو سالہ انٹر میڈیٹ میں درج ذیل مضامین پڑھائی جائیں. 1. Al Quran 2. Al Hadees 3. Al Fiqah 4. USOOL (Quran, Hadees, Fiqah) 5. Ilm ul Kalam 6. Arabic Grammer 7. Arabic language 8. English 9. Economics 10. Pakistan Studies 11. (OPTIONAL) Human rights BASIC MATHS Introduction to Computer Islamic History, Seerah

انٹر میڈیٹ کے مقاصد و اہداف:

ہر طالب علم کو ایک Broadbased تعلیمی سطح پہ لانا تاکہ وہ مستقبل کے لیے اپنے لئے تعلیمی میدان کا انتخاب کریں. نیز

پاکستان کے ہر مسجد کو ایک باشعور، محب وطن و ملت، اکابر سے جڑا ہوا اور اصولی و بنیادی تعلیم کے زیور سے آراستہ امام و خطیب دینا ہے تاکہ ہر مسجد تعلیم و تربیت اور درس قرآن کی بابرکت مجالس سے سج جائے.

RECOMENDATION after completion: BS SHARIAH / ISLAMIC STUDIES / USOOL E DEEN BS SHARIAH AND LAW BS SHARIAH AND BUZINISS BS SHARIAH AND POLITICS BS SHARIAH AND IT

تحریر: انجنئیر لبیب Engr Labeeb (تبادلۂ خیالشراکتیں) 18:20، 6 اگست 2019ء (م ع و)

درس نظامی جدید علوم کے ساتھ[ترمیم]

درس نظامی میں علم طب علم فلکیات علم جغرافیہ قانون علم نفسیات جنرل سائنس انگریزی زبان بطور لازمی مضمون ضرور شامل ہونا چاہیئے 154.80.43.253 03:43، 17 ستمبر 2023ء (م ع و)