جینوم سلسلہ بندی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
Electropherogram are commonly used to sequence portions of genomes.[1]

جینوم سلسلہ بندی (انگریزی: Genome sequencing) جسے دیگرطریقوں سے مکمل جینوم سلسلہ بندی یا بے کم و کاست جینوم سلسلہ بندی بھی کہا جاتا ہے، یہ طریقہ ہے جس سے کہ مکمل طور پر یا تقریبًا مکمل انداز میں جانداروں کے ڈی این اے تسلسل کا کسی ایک وقت پر جائزہ لیا جاتا ہے۔[2] اس کے لیے ضروری ہوتا ہے جانداروں کے سارے کروموسوم کے ڈی این اے کی سلسلہ بندی کی جائے جو مائٹو کانڈریا میں جمع ہوتا ہے۔ یہ پیڑ پودوں میں کلورو پلاسٹ میں ہوتا ہے۔

وائرس اور بیماریوں میں افادیت[ترمیم]

کئی بیماریوں میں ایک جامع نام کے آگے اس کی ذیلی اقسام ہو سکتی ہیں اور ان سے متاثرہ افراد کے علاج و معالجہ کی تدابیر مختلف ہو سکتی ہیں۔ دنیا میں اس کی مثال کووڈ 19 اور اس کی اقسام جیسے کہ ڈیلٹا وائرس اور اومی کرون ہیں، جس میں سے ثانی الذکر کے تیزی سے پھیلاؤ کی صلاحیت کی وجہ سے جینوم سلسلہ بندی کی اپنی اہمیت بڑھی ہے۔

مروجہ بین الاقوامی سفری ہدایات کے مطابق بھارت کی مرکزی حکومت نے 28 نومبر 2021ء کو بھارت پہنچنے والے بین الاقوامی مسافروں کے لیے نظر ثانی شدہ رہنما ہدایات جاری کی ہیں۔ تازہ ترین رہنما ہدایات کے تحت ، خطرے والے ملکوں،کے طور پر نشان زد ملکوں سے بھارت پہنچنے والے تمام مسافروں کے لیے (کووڈ-19 سے بچاؤ کے لیے ٹیکا کاری کی صورت حال سے قطع نظر) اب لازمی طور پر ہوائی اڈے پر ہی کووڈ-19 سے متعلق طبی جانچ کرانی ہوگی۔یہ جانچ بھارت روانہ ہونے سے 72 گھنٹے قبل کووڈ-19 سے متعلق کرائی جاچکی جانچ کے علاوہ ہوگی۔ اس جانچ کے بعد بیماری سے متاثر پائے جانے والے مسافروں کو الگ تھلگ کر دیا جائے گا اور طبی بندوبست کے پروٹوکول کے مطابق ان کا علاج کیا جائے گا اس کے ساتھ ساتھ مکمل جینوم سلسلہ بندی کے لیے ان کے نموئے بھی لیے جائیں گے۔ جو مسافر اس بیماری سے متاثر نہیں پائے جائیں گے وہ ہوائی اڈے سے روانہ ہو سکتے ہیں لیکن انھیں سات روز تک گھر میں ہی الگ تھلگ رہنا ہوگا۔ جس کے بعد بھارت پہنچنے کے آٹھویں روز ان کی دوبارہ جانچ کی جائے گی جس کے بعد انھیں سات روز تک خود کی نگرانی کرنی ہوگی۔ اس کے علاوہ ، اومیکرون کی نوع میں پائے جانے والے ملکوں کی تعداد میں اضافے کی خبروں کے پیش نظر ، موجودہ رہنما ہدایات کے مطابق یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ ایسے ملکوں جو خطرے والے زمرے میں شامل نہیں ہیں ، جہاں سے آنے والے مسافروں میں سے پانچ فی صد مسافروں کی ہوائی اڈے پر ہی سرسری بنیاد پر کووڈ-19 سے متعلق جانچ کی جائے گی۔ [3]

اس کے علاوہ مرکز نے اقتصادی اور سماجی سرگرمیاں پھر سے شروع کرنے کے دوران تمام احتیاطی اقدامات کرنے اور ہر گز لاپروائی نہ برتنے پر زور دیا ہے۔ مرکزی صحت کے سکریٹری راجیش بھوشن نے اس سلسلے میں سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے چیف سکریٹریوں اور منتظمین کو ایک خط تحریر کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ تمام جنو بمشرقی ایشیا اور یورپ کے بعض ملکوں میں کووڈ 19- کے نئے کیسز سامنے آنے کی اطلاعاتموصول ہوئی ہیں۔ جناب بھوشن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ طبی جانچ، متاثرہ افراد کاپتہ لگانے، علاج معالجہ اور ٹیکہ کاری سے متعلق پانچ نکاتی حکمت عملی اور کووڈ سے بچاؤکے لیے مناسب طور طریقوں پر عمل درآمد پر مسلسل توجہ مرکوز رہنی چاہیے۔[4]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Bruce Alberts، Alexander Johnson، Julian Lewis، Martin Raff، Keith Roberts، Peter Walter (2008)۔ "Chapter 8"۔ Molecular biology of the cell (5th ایڈیشن)۔ New York: Garland Science۔ صفحہ: 550۔ ISBN 978-0-8153-4106-2 
  2. "Definition of whole-genome sequencing – NCI Dictionary of Cancer Terms"۔ National Cancer Institute (بزبان انگریزی)۔ 2012-07-20۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2018 
  3. https://pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=1776082
  4. https://newsonair.com/urdu/2022/03/18/the-center-has-advised-all-states-and-union-territories-to-conduct-more-active-and-continuous-genome-scavenging-to-deal-with-the-code-19-situation/