ڈی این اے
- DNA دراصل Deoxyribonucleic acid کا مخفف ہے اور اس کے نام کے اجزا کے معنی اور ان کے اردو متبادل یوں ہیں
- De = کم ہوجانا، نکل جانا، مَنـزُوع، فـقـید
- oxy = آکسیجن
- ribo = رائبوز (ایک قسم کی شکر کا نام)
- nucleic = مرکزہ (خلیہ کا)
- acid = ترشہ (تیزابی خاصیت رکھنے والا)
گویا اردو میں DNA کا مکمل نام فقید آکسیجن رائبو مرکزی ترشہ ہے۔ یہاں ڈی آکسی رائبو سے مراد ایک آکسیجن جوہر کم رکھنے والا رائبوز ہے جبکہ نیوکلک سے مراد خلیہ کا مرکزہ ہے اور ایسڈ ترشہ کو کہتے ہیں گویا اردو میں DNA کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ — ایک آکسیجن جوہر کم رکھنے والا مرکزی ترشہ — رائبوز کا لفظ دراصل گوند عربی (gum arabic) سے حاصل ہونے والی ایک شکر عریبینوز (arabinose) سے ماخوذ ہے، گوند عربی جنوبی صحرائے اعظم (sub-sahara) میں پائے جانے والے پودے اکیشیا (acacia) سے حاصل ہوتا ہے ۔
ڈی این اے ہے کیا؟
[ترمیم]جسطرح کمپیوٹر (کمپیوٹر) کے براؤزر پر نظر آنے والے صفحہ کے پیچھے HTML کے رموز (واحد: رمز) / Codes کارفرما ہوتے ہیں اسی طرح زمین پر چلتی پھرتی زندگی کے پیچھے DNA کے رموز ہوتے ہیں۔ یعنی کسی جاندار کی ظاہری شکل و صورت اور رویہ (طرزظاہری / phenotype) دراصل اس کے خلیات میں موجود ڈی این اے کے اندر پوشیدہ وراثی رمز (جینیٹک کوڈ) سے بنتا ہے، ڈی این اے میں لکھا گیا پوری زندگی کا یہ افسانہ طرز وراثی / genotype کہلاتا ہے۔ طرزظاہری اور طرزوراثی کے فرق کی وضاحت ایسی ہے کہ جیسے ایک ٹی وی کی اسکرین پر نظر آنے والا ڈراما ہو جو مکمل طور پر اپنے لیے لکھے گئے اسکرپٹ پر چلتا ہے، گویا ڈراما خود طرزظاہری کی مثال ہو اور اس کے لیے لکھا گیا اسکرپٹ طرزوراثی کی ۔
وراثہ (جین) اور ڈی این اے
[ترمیم]جین (وراثہ ج: وراثات) کو موروثی اکائی کہا جاتا ہے جو والدیں کا کوئی خاصہ (trait) یا کئی خاصات مثلا آنکھ کا رنگ، جسم کا قد وغیرہ اولاد کو منتقل کرتی ہے۔ یہ موروثی اکائیاں یا وراثات (جینز) ڈی این اے کے طویل سالمے پر ایک قطار کی صورت میں موجود ہوتی ہیں۔ اس کی مثال کچھ یوں دی جا سکتی ہے کہ جیسے دھاگے کے بہت سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو گرہ باندھ کر ایک کر دیا جائے تو اس طرح بننے والے بڑے دھاگے کو ڈی این اے اور گرہ سے بندھے ہوئے چھوٹے ٹکڑوں کو جین (وراثہ) کہا جا سکتا ہے۔
وراثہ یا جین کہلانے والے ڈی این اے کے سالمہ کے یہ ٹکڑے یا قطعات اپنے طور پر الگ الگ مخصوص و مختلف اقسام کی پروٹین تیار کرتے ہیں، یعنی ڈی این اے کے سالمہ میں جسم کو درکار مختلف اقسام کی پروٹین کو تیار کرنے کے لیے علاحدہ علاحدہ مخصوص حصے یا جینز ہوتے ہیں۔ دراصل جینز، پہلے کسی ایک پروٹیں کے لیے مخصوص RNA کا مسودہ ڈی این اے سے نقل کرتے ہیں اور پھر یہ آراین اے ، پروٹیں تخلیق کرتا ہے
- اوپر بیان کردہ ڈی این اے سے آراین اے بننے کا عمل انتِساخ (transcription) کہلاتا ہے اور پھر اس آراین اے سے پروٹین بننے کے عمل کو ترجمہ (translation) کا نام دیا جاتا ہے
تقریباًً ہر وراثہ میں تین اہم حصے ہوتے ہیں جن کے نام نیچے درج کیے جا رہے ہیں جبکہ ان کے کام کی تفصیل نیکلیوٹائڈ کو بیان کرنے کے بعد درج کی جائگی۔
- مِعزاز (promoter) یہ اپنے نیوکلیوٹائڈ کی ترتیب (sequence) کے ذریعہ ڈی این اے سے آراین اے بنانے کی شروعات کرتا ہے
- تَرميزی (encoding) یہ اپنے نیوکلیوٹائڈ کی ترتیب کے ذریعہ آراین اے کی نقل (کاپی) بناتا ہے
- توقف (stop) یہ اپنے نیوکلیوٹائڈ کی ترتیب کے ذریعہ آراین اے کی نقل کا عمل ختم کرتا ہے
ڈی این اے کہاں ہوتا ہے؟
[ترمیم]ڈی این اے تمام جاندار خلیات کے مرکزوں اور ڈی این اے حُمہ (virus) میں پایا جانے والا ایک سالمہءکبیر (macromolecule) ہے جو فحم، تیزابساز، ہائیڈروجن، نطرساز اور شبتاب جیسے کیمیائی عناصر (واحد: عنصر) / Elements سے بنتا ہے۔ خلیات کی بات کی جائے تو ایسے خلیات جن میں ایک ترقی یافتہ مرکزہ پایاجاتا ہے یعنی حقیقی المرکز (eukaryotic) خلیات میں تو یہ مرکزے کے لونی جسیمات (کروموزومز) میں پایا جاتا ہے لیکن ان خلیات میں جو ایک ترقی یافتہ مرکزہ نہیں رکھتے — بِدائِی المرکز (prokaryotic) — ڈی این اے ایک واحد دائری سالمہ کی صورت میں ہوتا ہے۔
تمام حقیقی المرکز خلیات کے مرکزے میں کروموزمز (لونی جسیمات) ہوتے ہیں جو ڈی این اے کے طولی سالمے (اور مطلقہ پروٹینز) سے ملکر بنتے ہیں۔ لونی جسیمات کی تعداد ہر نوع (اسپیشیز) میں مخصوص ہوتی ہے مثلاً انسان کے طبیعی (نارمل) خلیہ میں 46 لونی جسیمات پائے جاتے ہیں۔
بدائی المرکز خلیات (مثلاً بیکٹیریا) جن میں کوئی حقیقی مرکزہ نہیں ہوتا، ڈی این اے کا سالمہ ایک کثیف جسم کی صورت بناتا ہے جس کو لونیہ جسم (chromatinic body) کہا جاتا ہے۔
ڈی این اے کی طوالت اور مرکزہ کی جسامت
[ترمیم]ڈی این اے ایک انتہائی طویل سالمہ ہے اور اسے خود کو خلیہ کہ مرکزے میں سمونے کے لیے اپنے آپکو بل کھا کر، لپٹ کر ایک پیچدار صورت میں ڈھلنا پڑتا ہے۔ علم دانوں نے ڈی این اے کی لمبائی معلوم کرنے کی کوششیں کی ہیں اور ان کے مطابق صرف ایک خلیہ میں موجود ڈی این اے کے مالیکول کی طوالت دو تا تین میٹر ہوتی ہے۔
یہ تخمینہ لگانے کے لیے ڈی این اے کی بنیادی اکائیوں (زوج قاعدہ / base pair) کو استعمال کیا جاتا ہے، ہر ڈی این اے ان زوج قواید کے آپس میں ملنے سے بنتا ہے، ایسے ہی کہ جیسے موتیوں کے ملنے سے تسبیح اور ایک زرج قاعدہ (فرض کیجیے کے تسبیح کا ایک موتی) کی لمبائی 0.34 نینومیٹر ہوتی ہے (ایک نینو میٹر = ایک میٹر کا ایک اربواں حصہ) اور ایک خلیہ کے ڈی این اے میں 6x109
زوج قواید ہوتے ہیں لہذا ایک خلیہ کے ڈی این اے کی لمبائی تقریباًً دو میٹر نکلتی ہے۔
حِلز ِمُزدَو ِج
[ترمیم]ایک ڈی این اے کے سالمے میں دو لچھے یا پیچ ہوتے ہیں جو حِلز (helix) کہلاتے ہیں اور انسے بننے والے ڈی این اے کے مکمل سالمے کو حِلز ِمُزدَو ِج (double helix) کہتے ہیں۔ یہ دونوں حلز آمنے سامنے ایک دوسرے سے زواج قواید کے ذریعہ جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔
قاعدہ اور زوج قواعد
[ترمیم]- ڈی این اے میں چار قواعد ہوتے ہیں جنکو؛ ایڈنین (A)، گوانین (G)، تھائمین (T) اور سائٹوسین (C) کہا جاتا ہے
- ڈی این اے کا سالمہ ذیلی اکائیوں پر مشتمل ہوتا ہے جنکو نیوکلیوٹائڈ کہا جاتا ہے یعنی ڈی این اے ایک بڑا مکثور (پولیمر) سالمہ ہے جو چھوٹے موحود (مونومر) سالمات سے ملکر بنتا ہے
- ہر موحود (ج: مواحید) تین مزید چھوٹے سالمات کا مرکب ہوتا ہے
- چار میں سے کوئی ایک قاعدہ
- شکر؛ جو ڈی این اے میں مَنزوع آکسیجن رائبوز (deoxy ribose) اور آراین اے میں رائبوز کہلاتی ہے
- اب یہ شکر اور قاعدہ آپس میں ملکر ایک دوسالمــہ بناتے ہیں جو نیوکلیوسائڈ کہلاتا ہے اور جب اس نیوکلیوسائڈ سے ایک فاسفیٹ بھی مل جاتا ہے تو نیوکلیوٹائد کا سالمـــہ تشکیل پاتا ہے
- سائٹوسین اور تھائمین کا تعلق ایک ہی جـماعت سے ہے جس کو پیریمائڈائن کہتے ہیں
- ایڈنین اور گوانین کا تعلق ایک ہی جـماعت سے ہے جس کو پیورین کہتے ہیں
- ایک T کا ہمیشہ A سے ربط بنتا ہے اور G کا ہمیشہ C سے
اب یہ نیوکلیوٹائد قطار در قطار آپس میں جڑ کر ڈی این اے کی سیڑھی (حلز مزدوج) کا ایک بازو بناتے ہیں اور اس کے بعد دو بازو آمنے سامنے ہائیڈروجن ربط کے ذریعہ ملکر ڈی این اے کی سیڑھی مکمل کرتے ہیں۔ ایسی ترتیب پانے کی دیگر وجوہات میں سے علم کیمیا کی روسے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قواعد سیڑھی کی اندرونی جانب مائل ہوتے ہیں یعنی آب گزیر (hydrophobic) ہوتے ہیں جبکہ شکر و فاسفیٹ بیرونی جانب، یعنی آب نزدیک (hydrophilic) فطرت رکھتے ہیں۔