حوری نورانی
حوری نورانی | |
---|---|
حوری نورانی | |
معلومات شخصیت | |
قومیت | پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | کلاسیکی ڈانسر، آرٹسٹ، پبلشر |
کارہائے نمایاں | مکتب دانیال کی مالک |
درستی - ترمیم |
حوری نورانی ایک پاکستانی کلاسیکی رقاصہ، آرٹسٹ اور پبلشر ہیں۔ وہ پاکستان کے معروف پبلشنگ ہاؤس مکتب دانیال کی مالک ہیں جس نے مشتاق احمد یوسفی، فیض احمد فیض، فہمیدہ ریاض اور حبیب جالب سمیت مشہور مصنفین کی تخلیقات شائع کیں۔[1][2][3][4]
پس منظر
[ترمیم]حوری، کراچی میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کا تعلق ایک اعلیٰ طبقے کے گھرانے سے ہے۔ تقسیم ہند کے بعد ان کا کنبہ کراچی چلا گیا۔ ان کے والد ملک نورانی نے مکتبہ دانیال ، ایک پبلشنگ ہاؤس قائم کیا جس کی پاکستان میں اعلیٰ شہرت ہے۔ حوری کے والد نے نے پاکستان لا ہاؤس کی بھی تشکیل دی جس میں قانون سے متعلق مواد موجود ہے۔ حوری کی والدہ ممتاز نورانی، پاکستان ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن (PDWA) کی صدر تھیں۔ حوری نورانی کے والدین کمیونسٹ سیاسی گروہوں کے ارکان تھے۔ حوری کا گھر کلب روڈ پر واقع قصر زینب پر واقع تھا اور پاکستان کے بہت سے نامور ادیبوں نے ان کا دورہ کیا۔ اس ابتدائی تجرنے نے حوری کے لیے سیاسی سرگرمی میں دلچسپی پیدا کردی۔[5]
حوری نے 1976 میں کراچی گرائمر اسکول سے اے لیول کیا تھا۔ اس کے بعد وہ اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے ماسکو چلی گئیں۔ 1983 میں، انھوں نے ماسکو کی پیپلز فرینڈشپ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، انھوں نے فلولوجی میں ماسٹر کی ڈگری کے ساتھ روسی اور عالمی ادب میں تعلیم حاصل کی۔[6] حوری کی شادی، ندیم خالد سے ہوئی جو ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ جوڑے کے دو بچے ہیں۔[7]
پیشہ ورانہ زندگی
[ترمیم]حوری کو روسی ادب سے بڑی دلچسپی تھی اور وہ کلاسیکی روسی ادب سے متاثر تھیں۔ حوری، ماسکو سے وطن واپس آنے کے بعد روسی زبان میں بھی روانی سے بول سکتی تھیں اور وطن واپسی پہ انھوں نے فرینڈ شپ ہاؤس ، کراچی میں روسی زبان پڑھائی۔ بعد میں وہ اپنے والد کے پبلشنگ ہاؤس میں شامل ہوگئیں۔ جب حوری کے والد بیمار ہو گئے تو انھوں نے حوری کی تربیت کے لیے انھیں مکتبہ دانیال لے جانا شروع کیا۔ 1986 میں، والد کی وفات ہو گئی اور حوری نے پبلشنگ ہاؤس اور بک شاپ سنبھالی۔[8][9][10]
حوری نے چھ سال کی عمر میں، کلاسیکی رقص، معروف ڈانسر گانشیم سے سیکھا۔ انھوں نے ملک کی ایک اور معروف رقاصہ شیما کرمانی سے بھی کلاسیں لیں۔ حوری نے تھیٹر کے ساتھ کئی سال کام کیا۔ وہ "دستک گروہ" کا بھی حصہ تھیں، جس نے "گیلیلیو" کا مظاہرہ کیا تھا اور وہ 1980 کی دہائی میں پاکستان میں مشہور ہو چکا تھا۔ حوری کے تراجم دستک کے ذریعہ پرفارمنس کے لیے استعمال کیے گئے۔ حوری نے بیونس آئرس میں ہنری بوروک کے انٹرویو کا روسی سے اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ وہ مزید منصوبوں پر کام کررہی ہیں جن میں مکتبہ-دانیال میں ترجمہ شائع کرنا شامل ہے۔ فرانسیسی اور روسی ادب کے تراجم شائع ہو چکے ہیں جن میں میلان کنڈیرا اور تہر بین جیلون شامل ہیں۔ پریس پاکستانی مصنفین کے لکھے ہوئے جدید انگریزی ناولوں کے اردو ترجمے بھی شائع کررہا ہے۔[11]
حوری مقامی ادبی حلقوں کا بھی ایک حصہ ہیں اور انھیں ادب کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ وہ پاکستان میں سول سوسائٹی گروپوں میں بھی شامل ہیں۔[12][13][14][15][16] مارچ 2020 میں ، مکتبہ-دانیال کو انٹرنیشنل پبلشرز ایسوسی ایشن نے پرکس والٹیئر کے لیے شارٹ لسٹ کیا۔[17]
سرکاری چھاپہ
[ترمیم]مکتب دانیال پر کچھ نامعلوم افراد نے چھاپہ مارا۔ حنیف اور کتاب کے مترجم سید کاشف رضا کے مطابق، انھوں نے محمد حنیف کی کتاب، پھٹنے والے آم کا ایک مقدمہ، جس میں کاپیاں فروخت ہو رہی تھیں، کے دیگر کتابوں کی دکانوں کے نام بھی جاننے کے 250 ترجمے ضبط کرلئے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگلے دن یہ شخص ان کتابوں کی دکانوں کی فہرستیں لینے واپس آئے جو حنیف کا ناول فروخت کر رہے ہیں۔ اس ناول کا ترجمہ مکتب دانیال نے سن 2019 میں کیا تھا اور اسے ادبی میلوں میں خوب فروخت کیا گیا تھا۔ جب حوری دوسرے ایڈیشن کی تیاری کر رہی تھی، تو مکتب دانیال کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا اور کتابیں ضبط کرلی گئیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔ اس واقعے کو بی بی سی اور دی گارڈین جیسے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں بھی شائع کیا گیا ہے۔[18][19][20][21][22][23][24]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "ADAB FEST - Adab2019 Programme & Participants"۔ sites.google.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ From InpaperMagazine (2011-10-02)۔ "CROSSWORD/INTERVIEW: talkingbooks"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ "Hoori Noorani – Karachi Literature Festival" (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ "Kolachi, NOS, The News International"۔ jang.com.pk۔ 12 دسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ "Of language and literature"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ 14 دسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ "9th Karachi Literature Festival 2018 concludes"۔ The Frontier Post (بزبان انگریزی)۔ 2018-02-13۔ 22 جنوری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ Soofia Ishaque (2020-03-21)۔ "Tranquil Ambience in an Urban Home"۔ Home Love Lifestyle (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ "SOUTH ASIA: Indian Films Back On Pakistan's Big Screens"۔ Inter Press Service۔ 2008-03-26۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ "Urdu Hai Mera Naam"۔ T2F | A Project of PeaceNiche (بزبان انگریزی)۔ 10 دسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ "Urdu Conference discusses state of Sindhi and Punjabi literature"۔ Big News Network.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ joyofurdu۔ "A conversation about translating into Urdu from Russian"۔ 12 دسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ admin (2020-02-29)۔ "11th Karachi Literature Festival Inaugurated"۔ News Update Times (بزبان انگریزی)۔ 11 دسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ "UNPO: Coronavirus: Sindh Lockdown Sabotaged?"۔ unpo.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ Our Correspondent (2019-09-28)۔ "Islamabad Literature Festival moves into second exciting day"۔ TNT (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ South Asia Citizens Web (2020-11-30)۔ "Stand firm and united in support of democracy: statement by civil society groups in Pakistan"۔ South Asia Citizens Web (بزبان انگریزی)۔ 14 دسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ Kazim Raza Rizvi |۔ "Adab Festival Pakistan attracts thousands of literature lovers on second day"۔ CustomNews.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ "Mohammed Hanif's Urdu publisher shortlisted for Prix Voltaire award"۔ Dialogue Pakistan (بزبان انگریزی)۔ 2020-03-12۔ 11 دسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ "'A Case of Exploding Mangoes' finally releases in Urdu"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 2019-11-19۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ propakistani۔ "a case of exploding mangoes"
- ↑ "Pakistani Author Comes Under Fire For Satirical Novel After Urdu Edition Is Published"۔ NPR.org (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ timesnet۔ "case of the disappearing book"۔ 05 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "Translation of controversial Pakistani novel A Case of Exploding Mangoes hits bookstores - EasternEye" (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ Ganesh Radha-Udayakumar New DelhiJanuary 7، 2020UPDATED: January 7، 2020 15:36 Ist۔ "Mohammed Hanif, British-Pakistani author, slams 'ISI' raid on Urdu publisher"۔ India Today (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020
- ↑ Haider Shahbaz۔ "The case of the disappearing novel and the pandemic-struck market"۔ Scroll.in (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2020