مندرجات کا رخ کریں

جنوبی بحر اوقیانوس کی بے قاعدگی

متناسقات: 30°00′S 40°00′W / 30.000°S 40.000°W / -30.000; -40.000
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(خلائی برمودا تکون سے رجوع مکرر)
زمینی مقناطیسی میدان کی قوت، 2020

جنوبی بحرِ اوقیانوس کی بے قاعدگی (انگریزی: South Atlantic Anomaly)، دراصل زمین کے گرد موجود وان ایلن تابکاری پٹی کا وہ حصہ ہے جو زمین کی سطح کے قریب ترین واقع ہے۔ اس جگہ یہ پٹی زمین کی سطح سے 200 کلومیٹر کی بلندی سے گزرتی ہے۔ اس وجہ سے یہاں توانائی بردار ذرات زیادہ گزرتے ہیں اور اس مقام سے گزرنے والے مصنوعی سیاروں کو معمول سے زیادہ تابکاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کے جغرافیائی اور مقناطیسی قطبین ایک نہیں۔ اس لیے یہ بے قاعدگی اس جگہ بنتی ہے جہاں زمین کا مقناطیسی میدان کمزور ترین ہے۔

یہ شیطانی مثلث اور سمندری برمودا تکون کی طرح کا ایک پراسرار مقام ہے جو برازیل کے عین اوپر خلاء میں واقع ہے[1] جہاں پہنچتے ہی ان کے کمپیوٹر اور دیگر سائنسی آلات گڑ بڑ کرنے لگتے ہیں اور خود انھیں بھی اپنی آنکھوں کے سامنے عجیب و غریب روشنیاں نظر آتی ہیں۔ اسے خلائی برمودا تکون بھی کہا جاتا ہے۔

تعریف

[ترمیم]

اس بے قاعدگی میں وہ علاقہ شامل ہے جہاں سطح سمندر پر زمین کے مقناطیسی میدان کی طاقت 32٫000 نینو ٹیسلا سے کم ہو۔ اس کا اثر زمین کے آئنوسفیئر تک ہوتا ہے۔

مقام اور ساخت

[ترمیم]

وان ایلن تابکار پٹی زمینی مقناطیسی میدان کے عین متناسب اور زمین کی محوری گردش سے 11 درجے فرق ہے۔ محوری گردش اور مقناطیسی میدان کا ٹکراؤ زمین کی سطح سے اوپر لگ بھگ 450 تا 500 کلومیٹر کی بلندی پر ہوتا ہے۔ اس عدم تناسب کی وجہ سے اندرونی وان ایلن پٹی جنوبی بحر اوقیانوس پر زمین کی سطح سے قریب ترین یعنی 200 کلومیٹر کی بلندی تک آ جاتی ہے۔ سب سے زیادہ اونچائی شمالی بحرالکاہل کے اوپر ہے۔

یہ اس مقام پر موجود ہے جہاں وان ایلن حلقے (چارج شدہ ذرات کے ڈونٹ کی شکل کے دو حلقے جو ہمارے سیارے کو گھیرے ہوئے ہیں) کی اندرونی تابکاری کی پٹی زمین کی سطح کے قریب آتی ہے۔ یہاں، زمین کا مقناطیسی میدان خاص طور پر کمزور ہے۔

اگر ہم زمین کی مقناطیسیت کو لمبے مقناطیس سے ظاہر کریں تو یہ مقناطیس عین وسط کی بجائے شمال کی جانب کچھ زیادہ دکھائی دیتا ہے جو سنگاپور کی سمت بنتی ہے۔ اس کے عین مخالف سمت جنوبی بحرِ اوقیانوس ہے جہاں نسبتاً کمزور مقناطیسی اثرات پہنچتے ہیں۔ اس لیے یہاں نسبتاً کم مقدار میں ذرات کو واپس دھکیلا جاتا ہے اور اس طرح بالائی کرہ فضائی میں دیگر مقامات کی نسبت زیادہ مقدار میں باردار ذرات پہنچتے ہیں۔ وقت کے ساتھ اس بے قاعدگی کی شکل بدلتی رہتی ہے۔ 1958 میں پہلی بار اسے دریافت کیا گیا، سے اب تک اس کا جنوبی کنارہ تو لگ بھگ اسی جگہ رہا ہے مگر شمال مغرب، شمال اور شمال مشرق کی سمت اس میں پھیلاؤ دیکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دن اور رات کے وقت بھی اس کی ساخت اور ذرات کی کثرت میں فرق دیکھا گیا ہے اور اس مقام پر دوپہر کے وقت سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ یہاں لگ بھگ 500 کلومیٹر کی بلندی پر یہ بے ضابطگی منفی 50 سے صفر درجے عرض بلد اور منفی 90 سے 40 درجے طول بلد تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہر سال مغرب کی سمت یہ 0.3 درجے جتنا سرک جاتا ہے جو نہ ہونے کے برابر فرق ہے کہ زمین کی سطح اور اس کے مرکزے کی گردش میں 0.3 سے 0.5 درجے کا سالانہ فرق ہوتا ہے۔

کئی کتب میں زمین کی کمزور ہوتے ہوئے مقناطیسی میدان کو اس کے پھیلاؤ سے جوڑا گیا ہے۔

اثرات

[ترمیم]

جنوبی بحرِ اوقیانوس کی بے ضابطگی کافی اہم ہے کہ کئی سو کلومیٹر کی بلندی پر باقاعدگی سے گردش کرتے ہوئے مصنوعی سیارے اور خلائی جہاز جب یہاں سے گزرتے ہیں تو کئی منٹ تک وہ اس علاقے سے گزرتے ہیں اور اس دوران اس اندرونی وان ایلن پٹی میں پھنسے پروٹانوں سے ان کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ 51.6 درجے پر گردش کرتے ہوئے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو اس سے بچانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس مقام سے گزرتے ہوئے ہبل خلائی دوربین مشاہدات کو روک دیتی ہے۔ یہاں سے گزرنے والے خلابازوں کو بھی ‘ٹوٹتے ستاروں‘ جیسی چیزیں دکھائی دیتی ہیں جسے ‘کائناتی شعاعوں کا بصری عمل‘ کہا جاتا ہے۔ 2007 میں گلوبل سٹار نیٹ ورک کے مصنوعی سیاروں کی ناکامی کو ابھی اسی مقام سے جوڑا جاتا ہے۔

اس خلائی برمودا ٹرائی اینگل کے علاقے سے ’ہبل‘ نامی طاقتور ترین خلائی ٹیلی سکوپ بھی ڈیٹا اکٹھا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔

‘پامیلا‘ تجربے کے دوران اس مقام سے گزرتے ہوئے ضد پروٹان کا مشاہدہ کیا گیا جو متوقع مقدار سے کئی گنا زیادہ تھا۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ کائناتی شعاعیں جب زمین کی بالائی فضا سے عمل کرتی ہیں تو ضد ذرات پیدا ہوتے ہیں۔

ناسا نے بتایا ہے کہ خلائی شٹل پر رکھے گئے جدید لیپ ٹاپ یہاں سے گزرتے ہوئے کام چھوڑ دیتے تھے۔

یونیورسٹی آف روچیسٹر میں جیو فزکس کے پروفیسر جان ٹارڈونو کا کہنا ہے کہ "اس خطے میں کمزور جغرافیائی مقناطیسی میدان کے باعث مصنوعی سیاروں کے لیے زیادہ خطرہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ خلائی جہاز کو نقصان پہنچ سکتا ہے جب وہ اس علاقے سے گزریں۔"[2]

اکتوبر 2012 میں سپیس ایکس سی آر ایس 1 ڈریگن خلائی جہاز کو بھی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے جڑی حالت میں یہاں سے گزرتے ہوئے مسائل کا شکار ہونا پڑا۔

جاپان کی سب سے طاقتور ایکس رے رصدگاہ ہیٹومی کی ناکامی کا ذمہ دار بھی اسی مقام کو گردانا کہ اس بے قاعدگی کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہونا شروع ہوئے جس کی وجہ سے کچھ دیر کے لیے سمت نما نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور مصنوعی سیارے کو گردش نما آلات پر انحصار کرنا پڑا اور تیز گردش کی وجہ سے یہ مصنوعی سیارہ تباہ ہو گیا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "South-atlantic-anomaly" 
  2. "bermuda-triangle-in-space" 

30°00′S 40°00′W / 30.000°S 40.000°W / -30.000; -40.000