دی لیجنڈز آف دی پنجاب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

دی لیجنڈزآف دی پنجاب تاج برطانیہ کے ایک افسر کپتان رچرڈ کارنیک ٹمپل کی پنجاب کی لوک داستانوں پر لکھی گئی کتاب ہے[1] جس کے ذریعے پنجابی لوک داستانیں دنیا میں متعارف ہوئیں ۔[2]

کتاب کی چھپائی[ترمیم]

رچرڈ کارنیک ٹمپل نے ’’دی لیجنڈز آف دی پنجاب‘‘ تین جلدوں میں مرتب کی۔ اس کی پہلی جلد 1884ءمیں دوسری 1885ء جب کہ تیسری 1900ء میں چھپی۔ ’’دی لیجنڈز آف دی پنجاب‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے:

’’ان میں سے دو اشخاص اچھی شہرت کے حامل ہیں، جنھوں نے ہندوستان کی لوک داستانوں کو دنیا سے متعارف کروایا۔ ایک ولیم کروک ہے، جس نے دو جلدوں میں شمالی ہندوستان کی لوک داستانوں (1894ء) کا مطالعہ کیا۔ اَج بھی اس کا کوئی مد مقابل نہیں ہے۔ دوسرا آر۔سی۔ٹمپل ہے جس نے تین جلدوں میں ’’دی لیجنڈز آف دی پنجاب‘‘ (1900ء۔1884ء) میں اعلی معیار قائم کیا۔ اس نے زبانی مواد کو جمع کرکے اس کا ترجمہ، ترتیب، تفصیل تبصرہ اور درجہ بندی کر کے خود سے چھپوایا۔ ‘‘ [2]

مواد کی دستیابی[ترمیم]

ٹمپل نے جن لوگوں سے کتاب کا مواد اکٹھا کیا وہ ان کے بارے میں ہفیمی، سگریٹ نوش جیسے القابات استعمال کرتا ہے۔ (10) اس نے ’’دی لیجنڈز آف دی پنجاب‘‘ میں کچھ زمینداروں اور منشیوں کا شکریہ ادا کیا ہے لیکن یہ کہانیاں اس نے جن سے بھی سنی ہیں ان کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتا۔ہم نے بھی پنجابی لوک داستانوں کے بارے میں کچھ تحقیق کی ہے۔ یہ لوگ آج بھی میاں، میر اور قریشی کے ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں اور ان کو کسی اچھے نام سے یاد نہیں کیا جاتا۔ ٹمپل کو اس بات کا احساس تھا کہ ایک تو پیشہ ور بھٹ ختم ہو رہے ہیں اور اب خال خال ہی کوئی نظر آتا ہے۔[2]

موضوعات[ترمیم]

’’دی لیجنڈز آف دی پنجاب‘‘ کی تین جلدوں میں انسٹھ(59) منظوم کہانیاں شامل ہیں۔ اس نے ان کے تجزیے کے وقت جنوں، بھوتوں، دیوؤں، ڈائنوں، مکارنوں، سانپوں، جل پریوں، جادو، ٹونے ٹوٹکے، تقدیر پرستی وغیرہ کے موضوعات کو اُبھاراہے۔ وہ اس بات کو ثابت کرنا چاہتا ہے کہ برصغیر کی ثقافت بہت قدیم اور دقیانوسی ہے، جو وقت کا ساتھ نہیں دے سکی۔ اس تصور کے پیچھے میکس مولر اور ایڈورڈ۔بی۔ٹائلر کی سوچ نظر آ رہی ہے۔ مولر آریائی سوچ ماننے والوں میں سے تھا۔ اس نے کہا کہ برصغیر کا شمالی حصہ بھی آریاؤں کا ہی ہے، یہاں کی اپنی ثقافت بھی ابھری لیکن بعد ازاں اس نے جنوبی حصہ کی ثقافت کو اپنا لیا۔اب اس ثقافت کے احیاء کا سہرا گورے کے سر ہی باندھا جا سکتا ہے۔مزیدرار بات یہ ہے کہ یورپی محققین کو مولر کی یہ بات بھی نہ بھائی کہ پرانے وقتوں میں یہاں کے لوگ متمدن اور علوم و فنون کے ماہر ہوا کرتے تھے۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Richard Temple (1985)۔ "The Legends of the Panjab"۔ The Forgotten books۔ University of Dehli۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 دسمبر 2022 
  2. ^ ا ب پ Richard TEMPLE (1962)۔ "Legends Of The Punjab : Temple, R.c : Free Download, Borrow, and Streaming : Internet Archive"۔ Internet Archive۔ Jai Hind Printing Press Nehru Garden Road, Jullundur.۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 دسمبر 2022 
  3. J. LOCKWOOD KIPLING (1894)۔ [Tales of the Punjab "https://digital.library.upenn.edu/women/steel/punjab/punjab.html"] تحقق من قيمة |url= (معاونت)۔ Digital.library server at Penn Libraries۔ Macmillan & Co.۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 دسمبر 2009  روابط خارجية في |title= (معاونت)

بیرونی روابط[ترمیم]