روحانیت (عقیدہ)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

روحانیت کا عقیدہ تقریباً تمام مذاہب میں ملتا ہے۔ روحانیت سے مراد مذہبی نقطہء نظر سے یہ ہے کہ انسان عبادات و ریاضت کے ذریعے پاکیزگی و طہارت کی اُس منزل پر پہنچ جائے، جہاں اُس کے ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن بھی منور ہو جائے۔ بطور اشرف المخلوقات انسان دیگر تمام مخلوقات بشمول فرشتے، جنات وغیرہ سے برتر ہے لیکن یہ اصطلاح حقیقتاً صرف اُن انسانوں کے لیے ہے جو اللہ کے عشق میں، اللہ کی رضا کے لیے تمام تر دنیاوی نعمتوں سے منہ موڑ لیتے ہیں اور ہر طرف سے بے نیاز ہوکر اپنی زندگی کا محور و مقصد محض رضائے الٰہی بنا لیتے ہیں۔ ایسے افراد کو اسلام میں ولی اللہ، مسیحیت میں مقدس (Saint)، سکھ مذہب میں گُرو اور ہندو مذہب میں اوتار کہا جاتا ہے۔ روحانیت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ روحانیت تعویز گنڈوں، علمیات یا دعاؤں کا نام نہیں بلکہ روح کی حقیقت سے آشنا ہو کر خالق حقیقی سے صرف ظاہری نہیں بلکہ باطنی حقیقی رابطہ قائم کرنا ہے۔[1] معروف بزرگ محی الدین ابن عربی کے مطابق روحانیت آپ کو وجودی معرفت الہی کے وہ مشاہدے عطا کرے گی، جن کا آخ رہی ان کا اوّل ہے پس نہ کوئی اوّل ہوا نہ آخر۔ جان لو۔ اللہ تمھیں توفیق دے۔ بے شک حروف اللہ کے رازوں میں سے راز ہیں اور ان کا علم اللہ تعالٰیٰ کے ہاں موجود علم میں سب سے بہتر ہے، یہ وہی پوشیدہ علم ہے جو انبیا کرام اور اولیا عظام کے مطہر قلوب کے لیے ہے ،جس کے بارے میں حکیم ترمذی کایہ قول ہے: (علم الاولیاء) اولیاء کا علم ۔[2] روحانیت اور عاملیت میں بڑا واضح فرق ہے۔ روحانیت اللہ سے تعلق جوڑتی ہے۔ عاملیت وظائف، منتروں اور تعویذ و گنڈا کے ذریعہ اللہ سے تعلق کی قربت کو بگاڑتی ہے اور شرک کا مئوجب بھی بن جاتی ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مسلم امہ کی رسوائی روحانیت سے دوری اور نا آشنائی ہے، روزنامہ جنگ[مردہ ربط]
  2. "رسالۃ المیم والواو والنون"۔ 26 جنوری 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2009