سرمۂ بینائی
سرمۂ بینائی وحدت الوجود پر ایک قیمتی رسالہ ہے۔
تعارف
[ترمیم]’’سرمۂ بینائی‘‘حضرت شاہ اکبر داناپوری کی اردو زبان میں لکھا ہوا پچیس ؍تیس صفحات پر مشتمل ایک مشہور و معروف رسالہ ہے، اس میں صوفیانہ عقائد مثلاً وحدت الوجود، توحید، فنافی الذات، فنافی الصفات، حقیقت النفس اور توبہ جیسے مہتم بالشان عنوانات کو نہایت اختصار و جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، سچ تو یہ ہے کہ دریاکو کوزہ میں بند کردیا ہے ،سہل البیانی اور اثر و جاذبیت اس کا طرۂ امتیاز ہے، خیالات و نظریات کی تائید میں جابجا روشن مثالیں اور موقع محل کے اعتبار سے فارسی کے حسین و دلکش اور برجستہ اشعار پیش کیے ہیں۔[1]
حضرت شاہ اکبر داناپوری ایک نقشبندی ابوالعُلائی صوفی ہیں مگر ان کا رجحان سلسلۂ چشتیہ کی طرف کافی تھا، اس لیے انہوں نے نظم و نثر میںوحدت الوجود کے نظریے کی تبلیغ کی ہے اس لحاظ سے وہ ایک وجودی صوفی تھے، بر صغیر میں بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے جس میں ملا محب اللہ صابری الہ آبادی کا ’’رسالہ در وحدت وجود ابنِ عربی‘‘ اور ’’مکتوبات‘‘ شامل ہیں جو انہوں نے دارا شکوہ کو لکھے تھے۔[2]
اس کے علاوہ شاہ عبدالرحمٰن چشتی لکھنوی کی ’’کلمۃ الحق‘‘، شاہ ولی اللہ محدثِ دہلوی کی ’’فیصلہ وحدت الوجود والشہود‘‘، مولانا عبدالعلی لکھنوی کی ’’وحدت الوجود‘‘، حاجی امداداللہ مہاجرِ مکی کا ’’رسالہ در بیان وحدت الوجود‘‘، شیخ محمد محدثِ تھانوی کی ’’وحدت الوجود والشہود‘‘، مولانا فضل حق خیرآبادی کی ’’الروض المجود‘‘، مولانا احمد رضا خاں بریلوی کا’’القول المسعود المحمود فی مسئلۃ وحدت الوجود‘‘، سیّد علی سکندرآبادی کا ’’رسالۂ محمود‘‘، مولانا آلِ حسن موہانی کا ’’رسالہ وحدت وجود‘‘ اور مہر علی گولڑوی کی کتاب ’’کلمۃ الحق‘‘ وغیرہ قابلِ قدر ہے۔[3]