سیدہ جعفر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شہر حیدرآباد علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے ۔ اس کی رنگا رنگ گنگا جمنی تہذیب ایک ممتاز و منفرد مقام عطا کرتی ہے ۔ حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ کی تہذیب اور علمی سرگرمیاں درخشاں و تابناک رہی ہیں ۔ پروفیسر سیدہ جعفر اسی جامعہ کی مایہ ناز خاتون تھیں ۔ وہ اپنے علمی ، ادبی ، تدریسی ، تحقیقی و تنقیدی کارناموں کے باعث ہندوستان گیر شہرت کی حامل تھیں ۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کی بیش بہا خدمات انجام دیں ۔ سیدہ جعفر ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ ان کے والد سید جعفر علی اور شوہر سید احمد مہدی جو ایڈوکیٹ تھے ، نواب مہدی نواز جنگ ،سابق گورنر گجرات ، سیدہ جعفر کے دادا سید سجاد علی کے چھوٹے بھائی تھے ۔ اُن کے جد اعلیٰ سید رضی تھے جنھوں نے حضرت علیؓ کے خطبات کا مجموعہ ’’نہج البلاغہ‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا۔سید محمد والہ موسوی بھی اُن کے جد تھے ۔ حکیم شمس اللہ قادری نے سید محمد والہ کی سوانح لکھی جو مثنوی ’’طالب و موہنی ‘‘ کے خالق تھے ۔ مثنوی طالب و موہنی کو ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے اپنے مقدمہ کے ساتھ 1957 ء میں شائع کیا تھا ۔ اس کے علاوہ محمد تقی ہمدم نے بھی ’’لمعات شمس ‘‘ میں والہ کے خاندان حالات تفصیل سے قلمبند کیے ہیں ۔

ماہنامہ ’’اردو دنیا ‘‘ میں سردار سلیم کا پروفیسر سیدہ جعفر سے لیا ہوا انٹرویو اپریل 2013 ء کے شمارے میں شائع ہوا ۔ اس میں ادارہ نے اس طرح تعارفی کلمات لکھے ہیں۔ ’’سیدہ جعفر اردو تحقیق و تنقید کا ایک بڑا نام ہے ۔ اردو کے تحقیقی و تنقید ی ادب میں خواتین کی حصہ داری بہت کم رہی ہے اور جن خواتین نے صرف تحقیق و تنقید کو کار ادب کے طور پر اختیار کیا ہو ، ان کی تعداد تو اور بھی کم ہے ۔ ان سب میں کوئی بھی محترمہ سیدہ جعفر کا ہمسر نہیں ‘‘ ۔ انھوں نے پروفیسر عبد القادر سروری کی زیرنگرانی ’’اردو مضمون کا ارتقا ‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر 1959 ء میں جامعہ عثمانیہ سے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ 1965 ء میں شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ میں ریڈر بنائی گیئں ۔ 1983 ء میں پروفیسر اور 1984 ء سے 1986 ء تک صدر شعبہ کے عہدے پر فائز رہیں ۔ فبروری 1991 ء میں سیدہ جعفر بحیثیت پروفیسر اردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی منتقل ہوئیں ۔ وہاں انھیں 1994 ء میں وظیفہ پر سبکدوش ہونے کے بعد مزید دو سال کی توسیع دی گئی ۔ ادبی تحقیق و جستجو نے انھیں پاکستان ، ایران اور لندن جیسے ممالک تک پہنچایا ۔ ان ملکوں سے انھوں نے علمی استفادہ کیا ۔

پروفیسر سیدہ جعفر ایک کثیر التصانیف ادیب تھیں ۔ ان کا زور قلم ہمہ وقت جنبش میں رہتا ہے ۔ ان کا طرز نگارش بصیرت افروز ، سنجیدہ اور عالمانہ ہوتا۔ ان کا اردو اور انگریزی کا مطالعہ نہایت وسیع اور عمیق تھا ۔ ان کی تاحال 32 کتابیں شائع ہوکر علمی و ادبی حلقوں میں پزیرائی حاصل کرچکی ہیں ۔ جن میں بعض کتابوں کے ترجمے انگریزی ، عربی ، مراٹھی اور میتھلی زبان میں ہو چکے ہیں ۔ وہ دکنیات کے علاوہ رثائی ادب پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں ۔ انھوں نے رثائی ادب کو فنی زاویے سے دیکھا اور پرکھا ۔ معروف نقاد پروفیسر شارب ردولوی نے اپنے تبصرے میں اس طرح لکھا ۔’’ ڈاکٹر سیدہ جعفر نے اپنے کو صرف قدیم ادب یا دکنیات تک محددو نہیں رکھا ہے … لیکن جدید ادب پر بھی ان کی دسترس اسی طرح ہے جس طرح دکنیات پر ۔ انھوں نے ادب کے افق پر ہونے والی تبدیلیوں کا بہت غور سے مطالعہ کیا ہے ‘‘ ۔ ڈاکٹر زور کے کہنے پر سیدہ جعفر نے شاہ تراب چشتی کی مثنوی ’’منا سمجھاون ‘ پر کام کیا اور ثابت کیا کہ یہ مراٹھی کے شاعر رام داس کی کتاب’’ شری مناچے شلوک‘‘ سے متاثر ہوکر لکھی گئی ۔ دکنیات میں یہ ان کی پہلی تحقیقی تصنیف تھی ، اس کے دیباچے میں پروفیسر مسعود حسین خاں نے لکھا ۔’’ میں شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ کی جانب سے ایک ادبی تحفہ اور علمی چیلنج پیش کرتا ہوں ‘‘ ۔ مزید یہ بھی لکھا ۔ ’’سیدہ جعفر نے مرحوم عبد الحق ، وحید الدین سلیم اور ڈاکٹر زور کی روایات کا بھرم رکھا ہے ‘‘ ۔ سیدہ جعفر کی پہلی کتاب ’’ماسٹر رام چندر اور اردو نثر کے ارتقا میں ان کا حصہ ‘‘ تھی ۔ دکنیات میںان کی یہ کتابیں قابل ذکر ہیں ۔ من سمجھاون ، دکنی رباعیاں ، سکھ انجن ، دکنی نثر کا انتخاب ، مثنوی یوسف زلیخا ، چندر بدن و مہیار ، کلیات محمد قلی قطب شاہ ، مثنوی ماہ پیکر ، جنت سنگار ، دکنی ادب میں قصیدے کی روایت ، مثنوی گلدستہ اور نوسرہار کے علاوہ دکنی لغت ۔ ’’کلیات محمد قلی قطب شاہ ‘‘ سیدہ جعفر نے محمد قلی کی بارہ غزلوں کو اردو دنیا سے متعارف کروایا۔ یہ غزلیں انھوں نے لندن میں وہاں کے ایک نوادرات کے تاجر سے حاصل کی تھیں ۔ دکنی لغت میں انھوں نے ساڑھے تیرہ ہزار اندراجات کے علاوہ ہر لفظ کی جنس (تذکیر و تانیث) جمع واحد ، ماخذ اور محل استعمال کی نشان دہی کی ہے ۔ انھوں نے دکنی تحقیق سے ہٹ کر تنقید ، ترجمہ ، لغت نویسی اور ادبی تاریخ میں کارہائے نمایاں انجام دیے ۔ ترجمے میں ہر دیا کماری کی تصنیف ’’ویلاتھال‘‘ کا اردو میں کامیابی سے ترجمہ کیا جو ساہتیہ اکیڈیمی سے 1990 ء میں شائع ہوئی ۔ ساہتیہ اکیڈیمی کی جانب سے سیدہ جعفر کی تین تصانیف اردو ادب کے معمار سلسلے کی ’’ڈاکٹر زور ‘‘ ، ’’مخدوم محی الدین اور ’’فراق گورکھپوری ‘‘ شائع ہوئیں جو اہمیت کی حامل ہیں ۔ ان کی تنقیدی کتابیں ، تنقید اور انداز نظر ، مہک اور محک ، فن کی جانچ اور تفہیم و تجزیہ اردو ادب کے سرمایہ میں قابل قدر اضافہ ہیں ۔’’ فن کی جانچ ‘‘ کے پیش لفظ میں پروفیسر سید احتشام حسین یوں رقمطراز ہیں ۔ ’’سیدہ جعفر کو دو حیثیتوں سے خصوصیت حاصل ہے ۔ اول یہ کہ ان کی ذہنی صلاحیتیں تحقیق اور تنقید دونوں میدانوں میں سرگرم کار ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کی رفتار نگارش میں ہمواری اور توازن ہے ‘‘ ۔پروفیسر گیان چند جین ’ اردو مضمون کا ارتقا ‘ کتاب کے بارے میں اپنے مضمون ’’سیدہ جعفر بہ حیثیت محقق ‘‘ میں اس طرح لکھتے ہیں ۔’’ اس مقالے کا حصار بہت بڑا ہے ۔ اس میں سماجی ، اصلاحی ، تاریخی ، سیاسی ، رومانی ، مذہبی ، فلسفیانہ ، مزاحیہ ، تنقیدی اور تحقیق سبھی قسموں کے مضامین کا جائزہ لیا گیا ہے ‘‘ ۔ (پرکھ اور پہچان ص 357 ، 1990 ء دہلی) قومی کونسل کی جانب سے سیدہ جعفر نے گیان چند جین کے اشتراک سے ’’تاریخ ادب اردو 1700 ء تک ’’ پانچ جلدوں میں لکھی ۔ گیان چند جین اسی مضمون میں اس بارے میں یوں رقمطراز ہیں ۔ ’’ مجھے اور انھیں مشترکہ طور پر یہ ذمہ داری دی گئی ۔ میں نے ابواب کا خاکہ بناکر آدھا کام اپنے پاس رکھا ،آدھا سیدہ جعفر کے ذمہ کر دیا ۔ انھوں نے یہ کام اتنی شرح و بسط سے کیا کہ میں بالکل دب کر رہ گیا ۔ میں نے اپنے حصے کو چار سو صفحوں میں پورا کر دیا ، سیدہ جعفر نے 1700 صفحات گھسیٹ دیے اور کمال کی بات ہے کہ کچھ بھی غیر متعلق نہیں ‘‘ ۔اس کے علاوہ سیدہ جعفر نے ’’تاریخ ادب اردو ‘‘ (عہد میر سے ترقی پسند تحریک تک) چار جلدوں میں لکھی جو ’’بے منت غیر ‘‘ 2002 ء میں شائع ہوئیں ۔ اس تاریخ ادب سے ان کی علمی استعداد کا پتہ چلتا ہے ۔ ’’تاریخ ادب اردو ‘‘ کی ستائش ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اہم کارنامہ کہہ کر اور شمس الرحمن فاروقی نے گرانقدر اور عظیم الشان بناکر کی ہے ۔ پروفیسر سیدہ جعفر کی ان تصانیف کے علاوہ سینکڑوں پر’مغز نثر پارے ‘ مضامین ، انشائیے اور خاکے مختلف رسائل ، جرائد اور اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں ۔ پروفیسر اشرف رفیع نے مجلہ عثمانیہ 2004 ء میں اس طرح اظہار خیال کیا ہے ۔’’سیدہ جعفر کی تحقیقی کاوشیں ، تاریخی تہذیبی اور ادبی شعور کی ترجمان ہیں ۔ انھوں نے دکنی ادب پاروں کی اشاعت سے دکنی ادب کے سرمایہ میں نہ صرف گرانقدر اضافہ کیا ہے بلکہ گولکنڈہ اور بیجاپور کی تہذیب و ثقافت کو ازسرنو زندہ کر دیا ہے ‘‘ ۔پروفیسر سیدہ جعفر کی نگرانی میں 9 اسکالرز نے پی ایچ۔ ڈی اور گیارہ اسکالرز نے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔ ان کے شاگردو ںمیں ڈاکٹر افضل الدین اقبال ، ڈاکٹر لیئق صلاح ، ڈاکٹر سلمیٰ بلگرامی ، ڈاکٹر مہر جہاں ، ڈاکٹر سعیدہ بیگم ، ڈاکٹر شاہانہ امیر ، ڈاکٹر کوکب النساء اور ڈاکٹر عابد النساء وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر شفیق النساء روبینہ نے سیدہ جعفر کی حیات و ادبی خدمات پر مقالہ لکھ کر گلبرگہ یونیورسٹی سے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری لی اور ڈاکٹر امیر علی نے سیدہ جعفر کی شخصیت اور کارنامہ پر مقالہ لکھ کر جامعہ عثمانیہ سے پی ایچ ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ پروفیسر سیدہ جعفر کی ادبی و علمی خدمات پر انھیں دو درجن سے زائد اعزازات و انعامات سے نوازا گیا ۔ جن میں قابل ذکر قاضی عبد الودود ایوارڈ برائے تحقیق ، مخدوم ادبی ایوارڈ ، ڈاکٹر زور ایوارڈ ، نوائے میر ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ ، ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ اور عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ برائے 2009 ء ہندوستان سے پروفیسر سیدہ جعفر کو اور پاکستان سے ڈاکٹر جمیل جالبی کو دوحہ (قطر) میں دیا گیا ۔ پروفیسر سیدہ جعفر اردو دنیائے ادب کے لیے بیش بہا علمی و ادبی اثاثہ چھوڑ کر /24 جون 2016 ء کو اس دارفانی سے کوچ کرگیئں ۔ پروفیسر سیدہ جعفر /24 جون 2016 ء بروز جمعہ /18 رمضان المبارک کو اس دار فانی سے کوچ کر گیئں ۔