سید سلطان شاہ غازی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

محل وقوع[ترمیم]

سید سُلطان شاہ غازی رحمة اللہ علیہ کا مزار تحصل سرنکوٹ سے پونچھ جاتے ہوئے راستے میں ایک مقام، شیندرہ میں موجود ہے۔ شیندرہ سرحدی ضلع پونچھ کا ایک مشہور گاؤں ہے شیندرہ سُرنکوٹ سے 16اور پُونچھ سے تقريباَ 15کلومیٹر کی دوری پر ہے۔گاؤں کے اطراف واکناف میں اُونچے اُونچے اورلمبے پہاڑی ٹیلے اوربیچ میں خوبصورت سرسبز وشاداب علاقہ موجود ہے۔ يہ گاؤں اپني خوبصورت بلند وبالا چوٹيوں، گھنے جنگلات،زرخيز ميداني علاقوں، گنگناتي چشموں کی بدولت مضافاتی علاقوں ميں مشہور ہے۔ شیندرہ کی وجہ تسمیہ سینہ درہ کا مقامی زبان میں مطلب سیں یعنی شیر اور درہ مسکن گویا شیروں کے رہنے کی جگہ چونکہ یہاں بہت ہی گھنے جنگل ہوا کرتے تھے جن میں شیروں کے علاوہ دیگر جانور بھی رہتے تھے یہ جانور یہاں کسی کو اباد نہیں ہونے دے رہے تھے ،لیکن اللہ تعالی جب کوئی خطہ اباد کرنا چاہے تو اس میں کسی ولی کو بیج دیتا ہے ،اس علاقہ میں رشد و ہدایت کے لیے اس نے سلطان شیندرہ سید سلطان شاہ غازی کا انتخاب کیا ۔

شجرہ نسب[ترمیم]

سید سلطان شاہ غازی بن سید کرم شاہ غازی بن جعفر شاہ غازی بن اسحاق الحق شاہ بن موسی شاہ غازی بن قاسم شاہ غازی بن محمد عالم شاہ غازی بن غیاث الدین شاہ بن امام طاہر شاہ غازی بن عبد اللہ شاہ غازی بن ابو القاسم شاہ بن علاءالدین شاہ غازی بن عنایت شاہ غازی بن حیات محمد شاہ غازی بن اسمعیل شاہ غازی بن کمال شاہ غازی بن حسین شاہ بن احمد شاہ غازی بن زینب الدین شاہ غاذی بن نصیر الدین شاہ غازی بن عبد الکریم شاہ غازی بن وجہ الدین شاہ غازی بن ولی اللہ دین شاہ غازی بن محمد ثانی الغازی شاہ بن فیروز دین شاہ بن رضا دین شاہ بن سلطان ابو القاسم شاہ بن شاہ میر شاہ بن اسحاق شاہ بن موسی شاہ بن اول قاسم عبد اللہ شاہ بن محمد اول شاہ بن عالم شاہ بن ادریس شاہ بن ہارون شاہ بن یحی شاہ بن ابو بکر شاہ بن اسمعیل شاہ بن پیر مخدوم شاہ بن امام اسحاق الحق بن حضرت امام جعفر قدسی شاہ بن حضرت امام نقی بن امام تقی بن حضرت امام علی موسی رضا بن حضرت امام موسی کاظم بن حضرت امام جعفر صادق بن حضرت امام باقر بن حضرت امام زین العابدین بن حضرت امام حسین۔ راقم الحروف سید نثار بخاری کے  اجداد   بھی حضرت سید سلطان شاہ غازی ہیں۔ نثار بخاری اور سید سرفراز بن الطاف حسین شاہ بن فرمان شاہ بن مہتاب شاہ بن حسن علی شاہ بن حضرت سید اکبر شاہ غازی بن حضرت سید احمد شاہ غازی بن سید سلطان شاہ غازی[1]

حالات زندگی[ترمیم]

اللہ تعالٰی بزرگ و برتر کے برگزیدہ بندے جو اپنی تمام تر زندگی اللہ تعالٰی کی بندگی اور اس کی عبادت اور زہد و تقویٰ کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں جب چاہیں اپنی خصوصی عنایت سے ولی، ابدال،قطب اور غوث جیسے اعلیٰ و ارفع روحانی مراتب پر فائز کر دیتے ہیں جہاں ان سے خارق عادت اور کشف و کرامات کا ظہور ہوتا ہے اور وہ ہاتف غیبی، القاء اور الہام کا ادراک رکھتے ہی۔ بابا سید سلطان شاہ غازی (پاکستان نو) کی سیداں کسرواں تحصیل گوجرخان ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے ابتدأئی تعلیم وہیں  حاصل کی  وہاں کچھ عرصہ دعوت تبلیغ ونصیحت کی اُن کی بزرگی صاحب دلی اور خدا پرستی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ وہاں سے آپ کشمیر بمقام (کریری شریف کشمیر) تشریف لائے آپ کا سلسلہ نسب امام حسین سے جاملتا ہے، آپ کے والد کا نام سیّد کرم شاہ غازی تھا، آپ چار بھائی تھے، سید فیض علی شاہ غازی، نصیر الدین شاہ غازی، ابو بکر شاہ غازی۔ جب آپ پونچھ تشریف لائے تو اس وقت یہاں مسلم پہاڑی راجاؤں کی حکومت کا آغاز سراج الدین سے ہوا جو دراصل جود پور کے شاہی خاندان کا رکن تھا۔ وہ جود پُور کے راجا اودھے سنگھ کے بیٹے جسونت سنگھ کا پوتا تھا۔ اور اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام سراج اُلدین رکھا تھا تبدیلی مذہب کی وجہ سے اس کے ساتھ اختلاف ہو گئے اور وہ وہاں سے ہجرت کر کے کہوٹہ میں آباد ہو گیا۔ جہاں اس نے جیب چوہان کی بیٹی کے ساتھ شادی کی۔ حالانکہ اس کی پہلی بیوی نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ اس کے ہمراہ کشمیر آگئی تھی جیب چوہان کی وفات کے بعد اس کی وراثت سراج الدین نے سنبھالی۔ اسی دوران میں جب مغل بادشاہ اکبر نے اپنے بیٹے جہانگیر کے ساتھ کشمیر کا دورہ کیا۔ تو سراج الدین نے مغل بادشاہ اور شہزادہ جہانگیر کی بہت خدمت خاطر اور تواضع کی جس سے متاثر ہو کر اکبر نے سراج الدین کو پونچھ کا حکمران بنادیا۔ اس طرح پونچھ پر مسلم پہاڑی راجاؤں کی حکمرانی کا آغاز ہوا اس کے بعد راجا فتح محمد خان کی حکومت رہی[2]

فلسفہ محبت اورسلطان شیندرہ[ترمیم]

سید سلطان شاہ غازی عبادت و ریاضت و مجاہدہ میں یکتائے روزگار تھے۔ سادات زمانہ میں برگزیدہ اور کار معرفت کے محرم راز، صاحبِ طریقت ،اربابِ سیادت کے پیشوا کرامات میں مشہور و معروف تھے خلوت نشینی ،چلہ کشی، زہد وتقوی وعبادت الٰہی میں کما ل عروج حاصل تھا۔ جب آپ کی موضع شیندرہ میں تشریف آوری ہوئی تو اُس وقت یہاں کچھ خاص آبادی نہیں تھی البتہ کچھ گنے چنے لوگوں کی اطلاع موصول ہوتیں ہیں۔ گھنے جنگلوں نے اس علاقے کو گھیر رکھا تھا یہاں لوگوں سے زیادہ شیروں کی آبادی تھی اور جو گنے چنے لوگ یہاں رہتے تھے ان کو یہ شیر تنگ کرتے تھے خوفزدہ لوگوں نے آپ کے پاس التجاکی آپ نے ایک بڑا بکرا ذبح کرکے شیر کو پیش کر دیا اور لوگوں کو نجات مل گئی۔ آپ نے یہاں ایک مسجد تعمیر کرائی ایک سادا کچہ حجرہ چلہ کشی کے لیے اور وہی عبادت، تسبیح و تحلیل میں مشغول رہے۔ اس گاؤں کے گھنے جنگلوں میں انسانیت کو آباد کرنے والے،دعوت و تبلیغ اور اپنے کردارو عمل سے یہاں محبت،اخوت،مودت اور مساوات کا درس اگر کسی پہلی شخصیت نے دیا وہ مذکورہ بالا بزرگ جو سلطان شیندرہ کے لقب سے ملقب ہیں۔ سلطان شاہ غازی کی تبلیغی سرگرمیوں کے طفیل گاؤں شیندرہ اور مضافات میں اسلامی تصوف کو خاصا فروغ حاصل ہوا ہے جس کا تمام دارومدار کتاب و سنت پر تھا وہ اسلامی اصولوں اور سنت رسول سے باہر جانے کے قائل نہ تھے چنانچہ ان کی تبلیغ کی وجہ سے گاؤں میں مسلمان کافی حد تک مقامی اثرات اورا فراط و تفریط سے محفوظ ہیں۔

کشف و کرامات[ترمیم]

  1. لنگر سلطانیہ کے نیچے ایک نالہ بہتا ہے کہا جاتا ہے کہ نالہ کے کنارہ جو لنگر کی سمت میں ہے وہاں ایک پیڑ تھا آپ نے ایک مرید کو حکم دیا کہ پانی کے چند قطرے چنار کی جڑوں میں ڈال دیں ایسا کرنے سے اس پیڑ کے نیچے سے پانی کا ایک چشمہ پھوٹا یہ چشمہ آج بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ بہہ رہا ہے۔
  2. ایک دفع تیز طوفانی بارش ہوئی اور سیلابی شکل اختیار کرلی حضرت کی درگاہ بالکل نالہ کے ساتھ رہی یہاں اونچی اور لمبی لمبی پہاڑی چوٹیاں ہیں جب سارے گاؤں کا پانی جمع ہوکر ایک سیلاب اُمنڈ تا ہوا درگاہ کی طرف آیا قدرت کی طرف سے ایسا ہوا کہ ایک سرکاری اسکول کی چھت کی ٹین کی چادریں اُڑیں اور درگاہ کے سامنے تہ در تہ ڈھال بن گئیں چھت کی لکڑیاں پانی سے تہرتی ہوئی اور بل کھاتی ہوئیں اُس پار چلی گئی اور پانی نے اپنی سمت تبدیل کرلی۔
  3. راقم الحروف نے خود دیکھا ہے کہ جب گاؤں میں کشیدگی پھیلی ہوئی تھی ملی ٹینسی کا دور دورہ تھا موضع کلائی کی فوج گاؤں کی تلاشی کے لیے آئی اور واپسی پر درگاہ کے ساتھ ایک گھنا جنگل ہے اور خصوصی طور پر درگاہ کے ارد گرد چنار اور منو (مقامی پیڑ) کے بڑے اور پرانے درخت ہیں یہاں سے جنگلی مرغوں کو مار کر لے گئے فوجی سربراہ نے جب مرغے کھائے تو رات کو بطن سے مرغ کی  بانگ (مرغ کی آواز )سنائی دی صبح ہوتے ہی فوجی سربراہ نے اپنے عملے کے ساتھ درگاہ پر حاضری دی اور معافی مانگی اور ایک بڑی مقدار میں  نزرو نیاز چڑھائی۔[3]

آپ کے اقوال زریں[ترمیم]

1)   ایک مسلمان کی عزت و مال ایک دوسرے مسلمان سے محفوظ ہو ۔

2) دنیا میں تمھیں دنیا پانے کے لیے نہیں بلکہ آخرت پانے کے لیے بھیجا گیا ہے۔

3) سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ آدمی کسی کے دل کو راحت پہنچائے ۔

4) اگر کو ئی شہرت کی خاطر عبادت و ریاضت کرتا ہے تو وہ کافر ہے ۔

سخاوت[ترمیم]

    آپ کے مرید و معتقد بطور نزرانہ جو تحفہ و تحائف و رقوم آپ کی خدمت میں پیش کرتے تھے وہ آپ اسی وقت غریبوں میں تقسیم فر مایا کرتے تھے آپ دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیتے تھے۔

اخلاق و عادات[ترمیم]

تمام عمر عشق الٰہی میں ڈوبے رہنے کے ساتھ ساتھ آپ نشہ محبت رسولﷺ سے بھی سرشار تھے 

لنگر[ترمیم]

یوں تو ہر بزرگ کا مزار قومی یکجہتی اور اتحاد کا نمونہ پیش کرتا ہے لیکن بابا سید سلطان شاہ غازی کے مزار پر جو قومی یکجہتی اور اتحاد نظر آتا ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتا عجیب پُر کیف اور روح پرور منظر ہوتا ہے۔ قومی اتحاد کا ایک بڑا ثبوت ان کا لنگر ہے۔ ہزاروں عقیدت مند بابا کے دربار پر آتے ہیں جبین نیاز جھکاتے ہیں فاتحہ کو ہاتھ اُٹھاتے ہیں۔ نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں اور سکون پاتے ہیں فقر و درویشی کے باوجود آپ کی خانقاہ سخاوت اور فیاضی کے لیے مشہور تھی مطبخ میں جتنا بھی کھانہ پکتا تھا وہ تمام غرباء و مساکین میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ آج بھی آپ کے مزار پر ایک وسیع لنگر جاری ہے اور ہر غرباء و مساکین اور مفلوک الحال اس سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ آخر کار تبلیغ حق کی یہ روشن قندیل ایک عرصہ تک اس گاؤں کو نور و ایمان سے منور کرکے دس ربیع الاول 1160 ہجری کوسرائے فانی سے عالم بقا کو تشریف لے گئے[4] اس مست قلندر کی تربت کی نشان دہی کے لیے ہلکی سی کچی چار دیواری کی گئی تھی اور تربت پر ایک کتبہ آویزا ں تھا جن پر ان کی تاریخ وصال لکھی ہوئی تھی ان کے عقیدت مندوں نے چشم پُر نم سے انھیں سفر آخرت پر الوداع کیا آج بھی گاؤں میں ان کے پھیلائے ہوئے نور کی کرنیں اُجالا کر رہی ہیں آپ نے اس علاقہ میں اسلامی تہذیب و تمدن کو حیا ت نو بخش کر ایک منفرد تاریخ رقم کی۔ سلطان شاہ غازی کی ذات مسوّدہ صفات سے گاؤں کے لوگوں کو بہت محبت ہے اس وجہ سے موصوف کی با برکت اور با عظمت زیارت گاہ عقیدت مندوں کے لیے مرکز سعادت و رحمت ہے عقیدت مند مرد ،چھوٹے ،بڑے والہانہ طور پر دن رات اس مرکز سعادت و ہدایت پر جوق در جوق آتے رہتے ہیں۔ باشندگان محلہ خصوصی ایام میں نہایت احترام اور خوش اعتقادی سے آپ کی فاتحہ دلاتے ہیں علاوہ قصبہ کی رعایا نہایت خوش اعتقادی سے پنجشنبہ و دیگر ایام میں لوبان و اگربتی کی خوشبوہات سے مزار کو معطر کرتے ہوئے چادریں چڑھاتے شیرینی و بتاشے وغیرہ نذر کرتے اپنی مرادیں منتیں مانگتے ہیں۔ چونکہ روحانیت سے لگاؤ آپ کو وراثت میں ملا تھا آپ کے وصال کے بعد آپ کے جانشین آپ کے صاحبزادے سید احمد شاہ غازی ہوئے آپ بھی صاحب کشف وکرامات تھے آپ بھی اپنا بیشتروقت عبادت و ریاضت میں گزارتے کہا جاتا ہے کہ آپ نے تقریبّا دس سال تک چلہ کشی کی آپ کے دو اور بھائی بھی تھے جن کے اسماء محمد شاہ اور غلام شاہ۔ آپ کی تر بت بھی اپنے والد کے دامن میں ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (1) عظمت سادات و صوفیاے کرام تحقیقی جائزہ سید نثار بخاری
  2. تاریخ اقوام پونچھ محمد دین فوق
  3. عظمت سادات و صوفیاے کرام نثٓار بخاری
  4. عظمت سادات و صوفیاے کرام تحقیقی جائزہ سید نثار بخاری