شیخ غلام نقشبند گھوسوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شیخ غلام نقشبند گھوسوی
معلومات شخصیت

شیخ غلام نقشبند گھوسوی ثم لکھنوی اہلسنت کے بڑے عالم دین مفسر اور صاحب کتب ہیں۔

نام و نسب[ترمیم]

شیخ غلام نقشبند نام اور والد کا نام عطاء اللہ تھا سلسلہ نسب یوں ہے: غلام نقشبند بن عطاء اللہ بن قاضی حبیب اللہ بن احمد بن ضیاء الدین بن یحی بن شرف الدین بن نصیر الدین بن حسین عثمانی اصفہانی۔ ان کا نسبی تعلق امیر المومنین عثمان بن عفان کے خاندان سے تھا اور اس خاندان کے لوگ پہلے حجاز سے آکر اصفہان میں آباد ہوئے پھر وہاں سے کوئی بزرگ ہندوستان وارد ہوئے [1] شیخ غلام نقشبند کے آبا و اجداد قصبہ گھوسی کے رہنے والے تھے جو اس عہد میں جونپور کے ماتحت تھا، ان کے خاندان کے لوگ اس قصبہ کے شرفاء میں شمار کیے جاتے تھے۔[2] -

پیدایش[ترمیم]

شیخ غلام نقشبند 19ذی الحجہ 1051ھ/ 11مارچ 1642ء کو قصبہ گھوسی میں پیداہوئے ان کا نام بہا الدین نقشبند کے نام نامی کی نسبت سے غلام نقشبند رکھا۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

شروع سے اخیر تک میر محمد شفیع کے دامن فضل و کمال میں ہوئی جو دہلی میں رہتے تھے ممکن ہے کہ شیخ عطاء اللہ نے کم سنی ہی میں انھیں تعلیم کے لیے دہلی روانہ کر دیا ہو، غالب گمان یہ ہے کہ 1063ھ/ 1653ء میں ان کی وفات کے بعد شیخ غلام نقشبند نے دہلی کا سفر کیا اور اس وقت وہ صرف بارہ سال کے تھے۔چنانچہ میرمحمد شفیع کے سایہ عاطفت میں رہ کر محض اٹھارہ سال کی عمر میں جملہ علوم و فنون کی تعلیم حاصل کر لی، اس کے بعد اپنے استاد کے شیخ پر محمد لکھنوی کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے کچھ کتابیں تبرکاً پڑھیں اور اس وقت ان کی عمر اکیس برس کی تھی مولانا عبد الحی کے بیان کے مطابق انھوں نے پیر محمد لکھنوی سے شرح چغمینی، قدوری اور تفسیر بیضاوی کے چندا جزا پڑھے تھے،

علمی مقام[ترمیم]

شیخ غلام نقشبند علوم دینیہ کے ساتھ علوم نقلیہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے ان کے زمانہ میں لغت جاہلی اشعار اور ایاب عرب کا ان سے برح کر کوئی عالم نہ تھا اس کے ساتھ علم حکمت سے بھی بہرہ مند تھے

بیعت و خلافت[ترمیم]

سلوک وعرفاں میں بھی مقام بلند رکھتے تھے پیر محمد لکھنوی سے بیعت اور خلافت حاصل ہوئی[3]

درس و تدریس[ترمیم]

شیخ غلام نقشبند نے تمام عمر درس و تدریس میں گزاری، وہ مختلف علوم و فنون کے جامع تھے مگر فن تفسیر سے ان کو خاص شغف تھا، وہ تفسیر بیضاوی کا درس دیتے تھے ان کے درس کی ایک اہم خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے تلامذہ کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔ ذہین اور با صلاحیت طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے اور تعلیم سے فراغت کے بعد بھی ان سے برابر ربط رکھتے اور ان کی کامیابیوں پر خوش ہوتے تھے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کے بیشتر ہندوستانی فضلا ان کے دامن فیض سے وابستہ ہوئے، جن میں ملا نظام الدین سہالوی، میر عبد الجلیل بلگرامی، سید فرید الدین بلگرامی، سید قادری بلگرامی، شیخ محمد قاسم کا بجنوری، شیخ نور الهدی امیٹھوی اور مفتی شرف الدین لکھنوی کے نام شامل ہیں

اخلاق و عادات[ترمیم]

شیخ غلام نقشبند بڑے خلیق، متواضع اور خدا ترس بزرگ تھے، وہ شریعت کے آئین و اصول کی پابندی پر خاص زور دیتے تھے اور اس بارے میں کسی قدر متشد د بھی تھے۔ وہ حدود شریعت کے محافظ اور ملت بیضا کے نگراں تھے۔ جب کسی شخص کو خلاف شرع حرکت کا مرتکب دیکھتے تو بڑے کبیدہ خاطر ہوتے تھے اور اس شخص سے ترک تعلق کر لیتے تھے لیکن اگر وہ شخص اپنی غلط روش سے باز آتا اور صدق دل سے توبہ کر لیتا تو اس کی جانب سے ان کا دل صاف ہو جاتا تھا اور وہ اس پر پہلے سے زیادہ لطف و مدارات کا معاملہ کرنے لگتے۔

وفات[ترمیم]

لکھنؤ میں اخیر رجب 1126ھ/ 1714ء میں وفات پائی، ایک قول کے مطابق جمادی الاول کا مہینہ تھا اور لکھنو ہی میں دریائے گومتی کے کنارے ٹیلہ شیخ پیر محمد میں تدفین ہوئی اسی ٹیلہ پر شیخ پیرمحمد مدفون ہوئے تھے، جس کے بعد سے یہ ٹیلہ ان ہی کی نسبت سے مشہور ہے۔

اولاد[ترمیم]

ان کے صرف ایک صاحب زا دے شیخ احمد کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے، جو اپنے والد کے بعد مدرس مقرر ہوئے اور صاحب مشخیت پر فائز ہوئے

تصنیفات[ترمیم]

  • تفسیر انوار الفرقان وازها را لقرآن : قرآن مجید کے ربع اول کی عربی زبان میں تفسیر ہے، جس پر مصنف کے حواشی بھی ہیں، اس کے قلمی نسخے کتب خانہ ریاست رام پور خدا بخش اورینیٹل پیلک لا ئیرپری پٹنہ اور مکتبہ رحمانیہ مدراس میں موجود ہیں۔
  • تفسیر سورہ اعراف : یہ تفسیر بیضاوی کے دو قدیم حاشیوں پر تشریحی نوٹ کا مجموعہ ہے، اس کا ایک قلمی نسخہ انڈیا آفس لندن میں موجود ہے۔
  • مختلف سورتوں کی علاحدہ علاحدہ تفسیریں۔
  • بعض مشکل آیات کی تفسیر
  • فرقان الانوار -
  • لامعہ عرشیہ در مسئلہ وحدت الوجود -
  • شرح قصيدہ خزرجيہ در علم عروض
  • شرح قصيدہ مطالع الدقائق در علم هیئت۔[4][5][6]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. عبد الحی، نزہۃ الخواطر ج 2 ، دائرۃ المعارف حیدرآباد، 1376ھ/ 1957ء، ص 212
  2. آزاد بلگرامی، ماثر الکرام، دفتر اول صفحہ 258
  3. آزاد بلگرامی سبحۃ المرجان جلد 1 صفحہ 201
  4. مولوی محمد نبی، فہرست کتب عربیہ کتب خانہ ریاست رام پور، ج 2، مطبع احمدی، 1902، ص 56
  5. سید اطہر شیر، مفتاح الكنوز، ج 3، یونین پریس پٹنہ، 1965، ص 17
  6. ڈاکٹر محمد سالم، ہندوستانی مفسرین، ص 121 ۔