صارف:Ashrafsharif786/تختہ مشق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے دو شناختی نام

سابق اٹارنی جنرل انور منصور جنہوں نے قاضی فائز عیسی کے کیس کی سماعت کے دوران یہ کہا تھا قاضی فائز عیسی کو 2 جج اس وقت ریفرینس کی تیاری کروارہے ہیں ان کے اس دلائل کی وجہ سے انہیں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا اور مزے کی بات بعد میں یہ صحیح ثابت ہوا کہ قاضی فائز عیسی کے حق میں 2 ججز کا ہی فیصلہ آیا اور ان میں ایک جج وہ تھا جس نے قاضی فائز عیسی کے ساتھ جسٹس ثاقب نثار کی الوداعی تقریب میں شرکت نہیں کی تھی-

آج سابق اٹارنی جنرل انور منصور نے ایک انٹرویو میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ  قاضی فائز عیسی کی بیوی کے 2 نام ہیں- سرینہ منسٹراٹ عیسی اور دوسرا نام زرینہ منسٹراٹ کھوسو کریرا--

سرینہ منسٹراٹ عیسی کا نام پاکستان میں رجسٹرڈ ہے اور اسی نام پر شناختی کارڈ بنا ہوا ہے جبکہ زرینہ منسٹراٹ کھوسو کریرا کے نام سے ان کا سپینش پاسپورٹ ہے- اور ان کے پاس سپین کی نیشنیلیٹی ہے- پاکستان کا دنیا کے کچھ ممالک کے ساتھ ڈیول نینشنیلیٹی کے لحاظ سے معاہدہ ہے جس کے مطابق ایک پاکستانی دونوں ممالک کی نیشنیلیٹی رکھ سکتے ہیں لیکن سپین کے ساتھ کوئی پاکستان کا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے-

جن ممالک کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوتا اس کیس میں آپ کو ایک نیشنیلیٹی چھوڑنی پڑتی ہے اگر آپ پاکستان کی نیشنیلیٹی چھوڑتے ہیں تو اس کے لیئے آپ کو پاکستان سے ایک کارڈ ملتا ہے جس کو پاکستان اوریجن کارڈ کہتے ہیں-

سرینہ عیسی المعروف زرینہ منسٹراٹ کھوسو کریرا نے دونوں میں سے کسی ملک کی نیشنیلیٹی نہیں چھوڑی-اور نمبر یہ پبلک سرونٹ کی بیوی ہے- پبلک سرونٹ کے لیے اس کی بیوی اگر فارن نیشنل ہو تو اس کے رول عام پبلک سرونٹ سے علیحدہ ہوتے ہیں

پھر دوسرے نام یعنی زرینہ منسٹراٹ کھوسو کریرا کے نام پر جو سپینش پاسپورٹ بنا ہوا ہے اسی نام پر سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں ایک فارن نینشل اکاؤنٹ کھلوایا- اور اس اکاؤنٹ میں سے پیسے ٹرانسفر کرکے وہاں سے لندن ٹرانسفر کیئے اور لندن میں زرینہ منسٹراٹ کھوسو کریرا کے نام پر 3 پراپرٹیز خریدی جن میں سے ایک پراپرٹی 2004 ، دوسری اور تیسری 2013 میں خریدیں-

جبکہ سرینہ منسٹراٹ عیسی کے نام پر ایک ایم سی بی اکاؤنٹ ہے جو کہ جوائینٹ اکاؤنٹ ہے اور یہ اکاؤنٹ قاضی فائز عیسی اور سرینہ عیسی (پاکستانی نام) دونوں کے نام مشترکہ اکاؤنٹ ہے- یعنی یہاں تک کی جو ساری بخواس لخی اس کا آسان لفظوں میں مطلب سمجھادوں تو یہ بنتا ہے

قاضی فائز عیسی کی بیوی کے 2 نام ہیں ایک سرینہ منسٹراٹ عیسی اور دوسرا زرینہ منسٹراٹ کھوسو کریرا- پاکستان میں ان کا نام سرینہ منسٹراٹ عیسی چل رہا ہے جبکہ باہر کے ملکوں میں ان کا نام زرینہ منسٹراٹ کھوسو کریرا چل رہا ہے- پھر پاکستان کے بینکوں میں ان دونوں ناموں سے بینک اکاؤنٹس موجود ہیں جہاں سے بیرون ملک ٹرانزیکشن ہوتی ہے

اب حکومت نے جب ریفرینس بھیجا اس وقت حکومت سمیت کسی کو نہیں پتہ تھا کہ قاضی فائز عیسی کی بیوی کے 2 نام ہیں اس وقت حکومت کو صرف ایک اکاؤنٹ اور ایک نام جو کہ ایم سی بی والا اکاؤنٹ تھا اسی کا پتہ چلا تھا سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں سرینہ عیسی کا دوسرے نام والا اکاؤنٹ ایف بی آر کی رپورٹ سے سامنے آیا-

اگلا سوال مسئلہ کہاں پیدا ہوا-جس کی وجہ سے سرینہ عیسی اور قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرینس بنا- مسئلہ یہاں پیدا ہوا کہ 2012 وہ آخری سال تھا جب سرینہ عیسی نے انکم ٹیکس فائل ریٹرن کی- اور اس انکم ٹیکس فائل میں سرینہ عیسی کے اثاثوں میں صرف ایک گھر شو کیا گیا تھا اس کے علاوہ کچھ بھی شو نہیں کیا گیا تھا- اس کے علاوہ سرینہ عیسی کے نام اس وقت 3 زرعی زمینیں ، 3 لندن فلیٹس بھی شامل تھے- لیکن وہ اثاثوں میں شو نہیں کیئے گئے تھے-

اب آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 3 فلیٹ تو سرینہ عیسی کے نام ہی نہیں بلکہ زرینہ منسٹراٹ کھوسو کریرا کے نام ہیں تو زرینہ منسٹراٹ کھوسو کریرا کس کا نام ہے؟؟؟ یہاں 2 سوال کھڑے ہوتے ہیں کہ اس نام سے سرینہ عیسی کو پاکستان میں کوئی نہیں جانتا تھا تو کیا لندن فلیٹس غلطی سے سرینہ کی بجائے زرینہ منسٹراٹ کھوسو کریرا کے نام پر خریدے گئے یا اس کے پیچھے کوئی اور موٹیو تھا-؟؟ کیا یہ غلطی سے ہوا یا بدنیتی پر مبنی تھا؟؟

یہیں سے ساری گیم شروع ہوتی ہے- سرینہ عیسی نے 2012 سے لیکر 2018 تک زیرو انکم ٹیکس ریٹرن فائل کیا- زیرو انکم ٹیکس کا مطلب ہے کہ اس کی کمائی زیرو- اگر کمائی زیرو ہے تو 2013 میں لندن فلیٹس کیسے خریدے؟؟

سرینہ عیسی نے 2018 اور 2019 کی ٹیکس ریٹرن فائل کی اور وہ بھی 2020 میں جب ریفرینس کا کیس سپریم کورٹ میں چل رہا تھا یعنی آنٹی جی کی چوری پکڑی گئی تھی تب انہیں یاد آیا کہ انہوں نے انکم ٹیکس ریٹرن بھی فائل کرنی ہے-

اس کے بعد بات آتی ہے کہ آپ نے تھرو پراپر چینل یعنی سٹینڈرڈ بینک اور ایم سی بی بینک کے ذریعے پیسے بھجوادیے یہ پیسے آئے کہاں سے؟؟ اس کے جواب میں سرینہ عیسی نے  موقف اپنایا کہ وہ سکول میں پرائمری کی انگلش کی ٹیچر تھی ان کو وہاں سے جو تنخواہ ملتی تھی اور اس کے علاوہ ان کی زرعی زمین سے آمدنی آتی تھی

اب مزے کی بات زرعی زمین بھی سرینہ عیسی نے اپنے اثاثوں میں شو نہیں کی ہوئی تھی- اور پھر زرعی زمین کی آمدنی ملا کر بھی وہ لندن فلیٹ کے پیسے پورے نہیں کرپارہی تھی جس کے جواب میں ایف بی آر نے رپورٹ میں لکھا کہ سرینہ عیسی اپنی منی ٹریل دینے میں مکمل ناکام رہی ہے-

اور اگر کسی باہر بھجوائے پیسے کی منی ٹریل نہ ہو اور وہ باہر بھیجا گیا ہو چاہے پراپر چینل یا ال لیگل طریقے سے وہ منی لانڈرنگ ہی کہلائے گا-

یہ ساری ڈیٹیل سابق اٹارنی جنرل انور منصور کے انٹرویو سے نکالی- اور اس کو انتہائی آسان الفاظ میں  سمجھادیا- جو کہہ رہے تھے انکم ٹیکس کا لاء 5 سال سے پہلے نہیں لاگو ہوسکتاتو ان کے لیئے بتادوں کہ یہ 5 سال پہلے کا کیس نہیں بنتا بلکہ سرینہ عیسی کی چالاکی کی وجہ سے 1 سال پہلے کا معاملہ بنتا ہے کیونکہ سرینہ عیسی نے اپنی 8 سال بعد ریٹرن 2020 میں جمع کروائی- اور دوسرا منی ٹریل دینے کے حوالے سے کوئی 5 سال کا رول موجود نہیں ہے-

اگلا سوال کہ فارن کرنسی پروٹیکشن کا قانون موجود ہے جس کے تحت زرینہ منسٹراٹ کھوسو کریرا کا سٹینڈرڈ چارٹرڈ اکاؤنٹ کی چھان بین نہیں کرسکتی- تو یہ قانون اس صورت میں لاگو ہوتا ہے جب ایک بندہ ایک ہی نام سے اکاؤنٹ آپریٹ کرتا ہو- یہاں ایک بندہ 2 مختلف ناموں سے اکاؤنٹ آپریٹ کررہا ہے اور اس نے کہیں بھی یہ نہیں بتایا کہ یہ میرا ہی اکاؤنٹ ہے- لہذا یہاں کنسیلمینٹ آف فیکٹ کے تحت کاروائی بھی اس میں شامل ہوجاتی ہے-

وہ ایک موصوف دانشوڑ سابق جج صاحب فرما رہے تھے کہ سرینہ منسٹراٹ عیسی المعروف  زرینہ منسٹراٹ کھوسو کریرا نے اپنی منی ٹریل ججز کو فراہم کردی تھی اور سارے ججز ان کی منی ٹریل سے مطمئن ہوگئے تھے- حالانکہ اس رپورٹ کو تو قاضی فائز عیسی نے ماننے سے ہی انکار کردیا تھا-

یہ ریفرینس قانونی نقائص کی وجہ سے خارج ہوا اور وقتی طور پر قاضی فائز عیسی کو ریلیف ملا-- لیکن اتنے بڑے بلنڈر کا سامنے آنے کے بعد قاضی فائز عیسی کا بچنا ممکن نہیں ہے- پہلے تو کچھ سامنے نہیں تھا اب تو جج صاحب کی بیوی کے 2،2 ناموں والے بینک اکاؤنٹ پکڑے گئے ہیں-