صارف:Saleem Farooqi 1947/تحریک پاکستان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تحریکِ پاکستان

قدم بہ قدم ۔ منزل بہ منزل

سلیم فاروقی

قیامِ پاکستان کے سلسلے مختلف اکابرین کی مختلف رائے ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان کی بنیاد تو اُسی وقت پڑ گئی تھی جب پہلا مسلمان ہندوستان میں داخل ہوا تھا۔ کچھ اس کو محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد سے منسلک کرتے ہیں۔ کچھ اس کو 1583ء میں ملکہ الزبتھ کی جانب سے پہلے تجارتی جہاز ”ٹائیگر“ کی ہندوستان میں تجارتی مواقع تلاش کرنے کے لیے روانگی سے جوڑتے ہیں، اور کئی اکابرین 1614ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بمبئی میں پہلے دفتر کے قیام کو تحریک پِاکستان کا سنگ اول گردانتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک 1707ء میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات اور بہادر شاہ ظفر کے تاج و تخت سنبھالنے کو تحریکِ پاکستان کی جانب پہلا قدم مانتے ہیں۔ ایک غالب اکثریت 1757ء میں بنگال میں پلاسی کے مقام پر سراج الدولہ کی انگریزوں کے خلاف جنگ اور میر جعفر کی غداری کی باعث سراج الدولہ کی شکست کے بعد گرفتاری اور قتل پھر اس کے نتیجے میں ہندوستان میں انگریز راج کے پہلے باقاعدہ آغاز کو تحریکِ پاکستان کا نقطہ آغاز مانتے ہیں۔


چونکہ 1857ء میں میرٹھ کی فوجی چھاونی سے اٹھنے والی فوجی بغاوت کی لہر اور پھر اس کے کچلے جانے کے بعد ہندوستان کے آخری مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری اور رنگون جلاوطنی کے بعد انگریزحکومت کا باقاعدہ آغاز اور پھر اس کے بعد کے پیش آمدہ حالات وہ سنگہائے میل ہیں جو واضح طور پر ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا مطالبہ بن کر سامنے آئے لہٰذا ہم اسی کو اپنا نقطہ آغاز بناتے ہوئے تحریک پاکستان پر ایک طائرانہ نظرڈالیں گے کہ یہ تحریک کب اور کس طرح انگریزوں سے بغاوت سے ہوتی ہوئی آزادی ہند کے مطالبے کے راستے مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کے مطالبے کے نتیجے میں ”تحریکِ پاکستان“ میں تبدیل ہوکر قیامِ پاکستان پر منتج ہوئی۔


1857ء جنگِ آزادی:

میرٹھ کی فوجی چھاونی میں ایک نئی قسم کے کارتوس فراہم کیے گئے جن کو استعمال سے پہلے دانتوں کی مدد سے اس پر چڑھی ایک تہہ کو چھیلنا پڑتا تھا۔ چھاؤنی میں خبر یہ گرم ہوگئی کہ یہ تہہ گائے اور سؤر کی چربی سے بنی ہوئی ہے۔ اس خبر سے چھاؤنی میں موجود ہندو اور مسلمان سپاہیوں میں اتنی بے چینی پھیلی کہ انہوں نے چھاونی میں موجود انگریز افسران کو قتل کرکے عَلمِ بغاوت بلند کردیا۔ اس بغاوت کو آخری مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر کی آشیرباد بھی حاصل ہوگئی، انگریز فوج نے پوری قوت سے اس بدامنی کو کچل دیا اور بہادر شاہ ظفر کو پہلے تو لال قلعے میں محصور کیا اس کے بعد جلاوطن کرکے رنگون بھیج دیا۔


1858ء برطانوی حکومت کا قیام:

1857ء کی بدامنی کو کچلنے کے ساتھ ہی ہندوستان میں باقاعدہ قانون کے تحت انگریزی حکومت کی عملداری کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری تھی، برطانوی حکومت کی نہیں۔


1858ء تحریک علی گڑھ کا آغاز:

سرسید احمد خان ہندوستان میں مسلمانوں کی شکست اور پسماندگی کو تجزیاتی نظر سے دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی بدحالی کی بڑی وجہ انگریزی زبان و علم سے دوری ہے، انہوں نے اس خلیج کو پاٹنے کے لیے تحریک علی گڑھ کا آغاز کیا۔


1861ء انڈین کونسل ایکٹ کا نفاذ:

انگریزوں نے ہندوستان میں باقاعدہ عملداری اور حکومتی معاملات کی خاطر انڈین کونسل ایکٹ نافذ کیا۔اس ایکٹ کے تحت تمام حکومتی کونسلوں میں اہم ذمہ داریاں گورنر جنرل کی نامزدگی سے مکمل ہوتیں، قانون سازی کے مکمل اختیارات گورنر جنرل کے پاس تھے،کونسل کے ارکان کی اہمیت ایک ربر اسٹیمپ سے زیادہ نہ تھی۔


1867ء اردو ہندی تنازعہ اور دو قومی نظریہ:

بنارس میں ہندوؤں نے لسانی تحریک شروع کی جس کے تحت انہوں نے مطالبہ کیا کہ اردو کی جگہ ہندی کو عدالتی و سرکاری زبان قرار دیا جائے، مزید یہ کہ عربی کی جگہ دیوناگری رسم الخط کو رائج کیا جائے۔ اس تحریک نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان وہ خلیج حائل کردی جس کی بنیاد پر سرسید جیسے رہنما جو ہندو مسلم اتحاد کا حامی و داعی تھے وہ بھی ہندو اور مسلم اتحاد کی بجائے دونوں کو علیحدہ علیحدہ قوم کہنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کی اسی سوچ کو دو قومی نظریہ کی بنیاد بھی کہا جاتا ہے۔


1884ء انجمن حیات الاسلام لاہور کا قیام:

مسلمانانِ ہند میں تعلیمی شعور پیدا کرنے کے لیے انجمن حیات الاسلام لاہور کا قیام عمل میں آیا۔


1885ء آ ل انڈیا نیشنل کانگریس کا قیام:

ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی خاطر دادابھائی نوروجی،لارڈ ہیوم اور دیگر سرکردہ شخصیات کے منعقدہ اجلاس میں ایک سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا۔ ڈبلیو چندرا بینر جی کو کانگریس کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ یہاں یہ ذکرکرنا بھی مناسب ہوگا کہ قائدِاعظم محمد علی جناح بھی کانگریس کا حصہ رہے،بعد ازاں وہ کافی عرصے تک وہ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں جماعتوں کے بیک وقت رکن بھی رہے۔


1892ء انڈین کونسل ایکٹ کا نفاذ:

انڈین کونسل ایکٹ 1861ء سے ہندوستان کے باسیوں میں پھیلنے والی بے چینی کی باعث برطانوی حکومت نے ایک اور انڈین کونسل ایکٹ 1892ء نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ اس میں اہلِ ہند کو محض یہ رعایت دی گئی کہ پہلے جو کونسل کلیتاً نامزدگی کی بنیاد پر بنتی تھی اب اس میں 40فیصد ارکان بذریعہ انتخاب شامل ہونے تھے، لیکن امیدواروں کے لیے جو شرائط اور اس سلسلے میں گورنر جنرل کا جو اختیارات دیے گئے تھے اس کی وجہ سے اہل ہند مطمئن نہیں تھے اور خصوصاً مسلمان بالکل مطمئن نہیں تھے کیونکہ اس میں طے کردہ مخلوط طرزِ انتخاب میں مسلمانوں کی نمائیندگی کا امکان بالکل نہیں تھا۔


1905ء تقسیمِ بنگال:

بیسویں صدی کی ابتدء میں بنگال تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ کی آبادی کا صوبہ تھا اور اس کا انتظام چلانا مشکل تھا لہٰذا لارڈ کرزن کے منصوبے کے تحت اس کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ مشرقی بنگال میں چونکہ مسلمانوں کی اکثریت تھی اس لیے وہاں مسلمانوں کو حکومت سازی کا موقع میسر آیا اور مغربی بنگال میں ہندو اکثریت کی باعث ہندوؤں کی حکومت قائم ہوئی۔ بعد ازاں ہندوؤں نے اس تقسیم کو انا کا مسئلہ بنالیا اور کافی ہنگامہ آرائی ہوئی حتیٰ کہ ہندوؤں نے اس کے خلاف سودیشی تحریک چلائی اور برطانوی اشیاء کا بائیکاٹ بھی کیا۔ کافی کشت و خون کے بعد1911ء میں برطانوی بادشاہ جارج پنجم نے اس تقسیم کی تنسیخ کا اعلان کرتے ہوئے دوبارہ بنگال کو متحدہ صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کی باعث مسلمان حکومتِ برطانیہ سے مزید متنفر ہوگئے۔


1906ء شملہ وفد:

تقسیم بنگال پر ہندوؤں کے ردِ عمل کی باعث مسلمانوں میں بے چینی انتہا پر پہنچ گئی اس موقع پر مسلمان زعماء نے باہمی مشورے کے بعد سر آغا خان کی سربراہی میں گورنر جنرل لارڈ منٹوسے ملاقات کی۔ اس ملاقات کو تاریخ میں ”شملہ وفد“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی یہ ملاقات بظاہر کامیاب رہی اور لارڈ منٹو نے مسلمان عمائدین کو بھرپور تعاون کے ساتھ مسلمانوں کے مطالبات پر ہمدردانہ غور کا یقین دلایا۔


1906ء آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام:

شملہ وفد کی کامیابی نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کردیے اور اس وفد کے محض تین ماہ بعد ہی دسمبر1906ء میں بنگال کے نواب سلیم اللہ اور نواب وقار الملک کی سربراہی میں ڈھاکہ میں ایک اجلاس منعقد کیا اور اس میں مسلمانوں کی ایک الگ سیاسی جماعت ”آل انڈیا مسلم لیگ“ کے قیام کا اعلان کیا۔ سر آغا خان سوم اس نئی جماعت کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے۔ آگے چل کر یہی جماعت ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائیندہ جماعت کی حیثیت اختیار کرگئی اور مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔


1909ء منٹو مارلے اصلاحات:

تقسیم بنگال کی وجہ سے انگریزوں اور ہندوؤں میں دشمنی کافی بڑھ گئی تھی، انگریزی عہدیداروں پر حملے معمول بن چکے تھے۔ ایسے ماحول میں لارڈ منٹو سے مسلم وفد کی شملہ وفد کی ملاقات نے مسلمانوں کے لیے سنہری موقع فراہم کیا اور 1909ء میں گورنر جنرل لارڈ منٹو اور وزیرِ ہند مارلے نے مشترکہ طور پر انڈین کونسل ایکٹ 1909ء پیش کیا جس کو تاریخ میں منٹو مارلے اصلاحات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان اصلاحات میں مسلمانوں کے کئی مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے قانون کا درجہ دیا گیا، جس میں کونسل میں مسلمانو ں کی نمائیندگی میں اضافے کے علاوہ مسلمانوں کے جداگانہ طرزِ انتخاب جیسے اہم مطالبے کی منظوری شامل تھی۔


1913ء قائدِ اعظم کی مسلم لیگ میں شمولیت:

قائدِ اعظم نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 1906ء میں کانگریس میں شمولیت سے کیا۔ اس کے بعد وہ 1913ء میں مسلم لیگ میں بھی شامل ہوگئے۔ اور کافی عرصے تک وہ ان دونوں جماعتوں کے بیک وقت رکن رہے۔ اسی حیثیت میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے سلسلے میں معاہدہ لکھنؤ جیسی اہم پیش رفت میں اپنا بھرپور کردار بھی ادا کیا۔ بعد میں کانگریس سے اختلافات کی باعث انہوں نے 1920ء میں کانگریس سے علیحدگی اختیار کرلی اور صرف مسلم لیگ تک محدود ہوگئے۔


1914ء جنگِ عظیم اول کا آغاز:

جون 1914ء کو آسٹریا کے شہزادے کے قتل پر آسٹریا نے سربیا کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ جلد ہی اس جنگ میں جرمنی اور فرانس سمیت دنیا کی تمام قوتیں کود پڑیں، لہٰذا برطانیہ بھی اس جنگ میں شامل ہوگیا۔ اس جنگ نے ایک طرف جہاں دنیا بھر میں تباہی مچانے کے علاوہ سیاسی و جغرافیائی تبدیلیاں پیدا کیں وہیں ہندوستان کی سیاست پر بھی گہرے اثرات چھوڑے۔ تقریباً ساڑھے چار سال بعد جب نومبر 1918ء میں اس جنگ کا خاتمہ ہوا تو ہندوستان پر انگریز حکومت کی گرفت کافی کمزور پڑ چکی تھی جس نے آگے چل کر اہلِ ہند کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا۔


1916ء معاہدہ لکھنؤ:

انگریزی دورِ حکومت میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ اگر ہندو اور مسلمان مل کر جد و جہد کریں تو انگریز حکومت سے خلاصی زیادہ آسان ہوگی۔ ایسے میں جنگِ عظیم اول نے اہلِ ہند میں یہ احساس پیدا کیا کہ ان کو ہندو مسلم اتحاد کی طرف عملی قدم اٹھانا چاہیے۔ ان حالات میں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان 1915ء میں گفتگو کا آغاز ہوا اور بالآخر 1916ء میں لکھنؤ میں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان ایک باقاعدہ معاہدہ طے پایا جس کو تاریخ میں ”معاہدہ لکھنؤ“ یا ”میثاقِ لکھنؤ“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کو مسلمانانِ ہند کے سیاسی سفر میں اہم سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس معاہدے کے تحت کانگریس نے نہ صرف مسلمانوں کے جداگانہ طرزِ انتخاب کو تسلیم کیا بلکہ مجلسِ قانون ساز میں مسلمانوں کی نشستوں کی تعداد 33فیصد کرنا بھی طے پایا۔ اس کے علاوہ ایک اہم کامیابی یہ بھی حاصل ہوئی کہ اگر مجلس میں کوئی ایسا مسودہ قانون پیش ہوتا ہے جس سے کسی ایک فرقے کے متاثر ہونے کا احتمال ہو اور اس متاثرہ فرقے کے 75فیصد اراکین اس مسودہ قانون کی مخالفت کریں تو وہ مسودہ مجلس میں منظوری کے لیے پیش نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کامیاب معاہدے تک پہنچنے میں قائدِ اعظم کا کردر نہایت اہم تھا کیونکہ وہ اس وقت تک ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے۔


1917ء مانٹیگو چیمسفورڈ اصلاحات:

جنگِ عظیم اول کے خاتمے کے ساتھ ہی انگلستان نے 1917ء میں اہم آئینی اصلاحات کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں وزیرِ ہند مانٹیگو اور گورنر جنرل ہند چیمسفورڈ نے مل کر ہندوستان کے لیے بھی ”گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1917ء“مرتب کیا جس کو حکومتِ برطانیہ نے 1919ء میں منظور کیا اور یہ تاریخ میں ”مانٹیگو چیمسفورڈ اصلاحات“ کے نام سے جاناجاتا ہے۔اس بل میں جداگانہ طرزانتخاب کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ اس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھ اور اینگلو کرسچین طبقات کو بھی شامل کیا گیا اس کے علاوہ حکومتِ ہند میں اہلِ ہند کی نمائیندگی کے اضافے کا انتظام کیا گیا ووٹرز کی اہلیت میں تبدیلی کے ذریعے ووٹرز کی تعداد میں 33ہزار سے بڑھا کر تقریباً 55ہزار کردی گئی۔


1919ء رولٹ ایکٹ:

جنگِ عظیم اول کے دوران اہلِ ہند نے آزادی کی خاطر انگریزوں پر دباؤ بڑھانے کی خاطر اپنی جد و جہد تیز کردی تھی۔ اس سے نمٹنے کے لیے ہندوستان میں ”رولٹ ایکٹ“ متعارف کروایا گیا جس کے تحت حکومت کسی بھی ہندوستانی کو صرف شبہ کی بنیاد پر نہ صرف کرسکتی تھی بلکہ طویل عرصے تک قید کرنے کے علاوہ جلاوطن بھی کرسکتی تھی۔


1919ء سانحہ جلیانوالہ باغ:

رولٹ ایکٹ کے خلاف پورے ہندوستان میں نے چینی کی لہر دوڑ گئی اور ہندوؤں اور مسلمانوں نے مشترکہ طور پر اس کے خلاف مظاہروں کا آغاز کیا۔ اس کے خلاف قائدِ اعظم نے احتجاجاً مجلسِ قانون ساز سے استعفیٰ بھی دے دیا، اسی موقع پر حکومت نے ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو گرفتار کرلیا۔ اس گرفتاری کے خلاف امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک مشترکہ جلسے کا اعلان کیا۔ اس جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کے لیے آئے۔ جلیانوالہ باغ کی جغرافیائی حیثیت کچھ ایسی تھی کہ یہ تین طرف سے بند تھا اور ایک ہی طرف سے پتلا سا راستہ اندر داخلے کا تھا۔ جب یہ میدان شرکاء سے بھر گیااور جلسہ اپنے عروج پر تھا کہ اسی وقت جنرل ڈائر نے اپنی فوج سے اس واحد راستے کو بند کرکے جلسہ پر گولی باری شروع کردی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس گولی باری کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک انگریز فوج کے پاس گولیاں ختم نہ ہوگئیں۔ اس واقعہ میں 300سے زائد افراد جان سے گئے اور 1200سے زائد افراد زخمی ہوئے۔


1919ء تحریک خلافت کا آغاز:

جنگِ عظیم اول کے زمانے میں ترک خلافتِ عثمانیہ مسلمانوں کا روحانی مرکز تھی اور ترکی اس جنگ میں انگریزوں کے خلاف اتحاد میں شامل ہو گیا۔ ایسے میں مسلمانانِ ہند کو یہ فکر ہوئی کہ انگریز ترکی میں موجود مقاماتِ مقدسہ کو نقصان نہ پہنچائیں۔ لہٰذا انہوں نے خلافت بچاو تحریک کا آغاز کیا انگریزوں سے تین مطالبات کیے،

اول یہ کہ خلافتِ عثمانیہ کو برقرار رکھا جائے،

دوسرا یہ کہ ترکی میں موجود مقاماتِ مقدسہ کو نقصان نہ پہنچایا جائے

اور تیسرا یہ کہ ترک سلطنت کو تقسیم نہ کیا جائے۔

ہندو جو پہلے ہی رولٹ ایکٹ اور سانحہ جلیانوالہ باغ جیسے واقعات کی وجہ سے انگریزوں کے خلاف تحریک چلا رہے تھے وہ بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے۔ اس سلسلے میں مسلمان قائدین کا ایک وفد 1920ء میں انگلستان بھی گیا اور وزیرِاعظم جارج لائیڈ سے ملاقات کی اور ان کے سامنے اپنے مطالبات رکھے لیکن اس نے مسلمان وفد کو ٹکا سا جواب دے دیا اور یہ وفد ناکام لوٹا۔


1920ء معاہدہ سیورے:

ابھی خلافت وفد انگلستان میں ہی تھا کہ انگریزوں نے ترکی کو معاہدہ سیورے کی شرمناک شرائط میں جکڑ لیا جس کے تحت تمام بیرونی مقبوضات ترکی سے چھین لینے اور ترکی پر فضائی فوج کے قیام پر پابندی کے علاوہ دیگر شرائط بھی منوالی گئیں۔


1920ء تحریکِ ترکِ موالات:

خلافت وفد کی ناکامی کے بعد خلافت کمیٹی نے ہندوستان واپس آنے کے بعد ہندو زعماء کے اشتراک سے انگریزوں کے خلاف تحریک ترک موالات کا اعلان کیا اور گاندھی جی کو اس تحریک کا رہنما مقرر کیا گیا۔ اس تحریک کے تحت حکومت سے علیحدگی، تمام سرکاری القاب و اعزازات کی واپسی، سرکاری ملازمتوں سے علیحدگی، تعلیمی اداروں کی سرکاری امداد کی وصولی کی بندش، مقدمات کی سرکاری عدالتوں کی بجائے ثالثی کونسلوں میں پیشی اور انگریزی مال کے بائیکاٹ جیسے اہم اقدامات اٹھائے گئے۔


1920ء تحریکِ ہجرت:

تحریکِ ترک موالات کے دوران مولانا عبدالباری، مولانا ابوالکلام آزاد اور علی برادران جیسے جید مسلم علماء نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو ہندوستان سے ہجرت کرجانے کا مشورہ دیا۔ علماء کی اس پکار پر مسلمانوں نے بڑی تعداد میں لبیک کہتے ہوئے افغانستان کی طرف ہجرت کا سلسلہ شروع کردیا۔ لیکن افغان حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے نہ صرف یہ تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی بلکہ مسلمانوں کو بھی بھاری جانی و مالی نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑا۔


1922ء واقعہ چورا چوری:

جس وقت تحریکِ ترک موالات، تحریکِ ہجرت اور تحریکِ خلافت اپنے عروج پر تھی اسی زمانے میں فروری 1922ء میں صوبہ اترپردیش کے ایک گاؤں ”چورا چوری“ میں ایک مشتعل ہجوم نے ایک تھانے پر ہلہ بول کر اس کو نذرِ آتش کردیا۔ اس واقعے میں 20 سے زائد پولیس اہلکار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اس واقعے کے بعد گاندھی جی نے یہ کہہ کر تحریک ترکِ موالات کے اچانک خاتمے کا اعلان کردیا کہ اب یہ تحریک اب عدم تشدد کے نظریے سے ہٹ چکی ہے۔ گاندھی جی کے اس اچانک اعلان سے ہندو مسلم اتحاد میں ایک بڑی دراڑ پڑ گئی۔


1927ء سائمن کمیشن کے قیام کا اعلان:

ہندوستان کے آئینی معاملات میں اصلاح کی خاطر برطانوی حکومت نے سر جان سائمن کی سربراہی میں ایک تین رکنی وفد ہنوستان بھیجنے کا اعلان کیا لیکن ہندوستان کے تمام اہم سیاسی رہنماؤں نے اس کمیشن کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ اس کمیشن کے تمام ارکان انگریز ہیں اور اس میں ہندوستان کے عوام کی کوئی نمائیندگی نہیں ہے۔اس معاملے پر مسلم لیگ بھی دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ قائدِ اعظم کی سربراہی میں ایک گروپ اس کمیشن کے بائیکاٹ کے حق میں تھا اور سر محمد شفیع کا گروپ اس کمیشن سے تعاون کے حق میں تھا۔ مخالفت کی اس فضاء میں یہ کمیشن 1928ء میں ہندوستان آیا تو اس کو ہرطرف سے رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔


1928ء نہرو رپورٹ:

سائمن کمیشن کے مقابلے میں ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں نے ایک کُل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا اور اس کے تحت موتی لعل نہرو کی سربراہی میں ایک 9 رکنی کمیٹی تشکیل دی تاکہ وہ سائمن کمیشن کے مقابلے میں اپنی آئینی سفارشات پیش کرے۔ اس کمیٹی نے اپنی جو سفارشات پیش کیں اس کو مسلمانوں نے یکسر مسترد کردیا کیونکہ یہ سفارشات معاہدہ لکھنؤ کی روح کے سراسر منافی تھیں۔ ان سفارشات میں تجویز کیا گیا کہ جداگانہ کی بجائے مخلوط طرزِ انتخاب اپنایا جائے، ہندوستان میں وفاقی کی بجائے وحدانی طرزِ حکومت قائم کیا جائے، مکمل آزادی کی جگہ نوآبادیاتی طرزِ آزادی کو ترجیح دی گئی اور اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔


1929ء قائدِ اعظم کے چودہ نکات:

نہرو رپورٹ سے مایوسی کے بعد مسلم لیگ نے دہلی میں اپنا ایک اجلاس منعقد کیا اور اس اجلاس میں قائدِ اعظم نے مسلمانوں کی طرف سے آئینی اصلاحات پیش کیں۔ یہ سفارشات تاریخ میں ”قائدِ اعظم کے چودہ نکات“کے نام سے معروف ہے۔ اس کے تحت ہندوستان میں وفاقی طرزِ حکومت، تمام صوبوں کی مساوی خود مختاری، جداگانہ طرزِ انتخاب، سندھ کی بمبئی سے علیحدگی، مرکزی مجلسِ قانون ساز میں مسلمانوں کے لیے 33 فیصد نشستوں، سرکاری اور خود مختار اداروں میں ملازمت کے لیے مسلمانوں کے مخصوص کوٹے جیسی اہم تجاویز شامل تھیں۔


1930ء کانگریس کا اعلانِ آزادی:

سائمن کمیشن کی آمد کے خلاف تحریک نے ہندوستان میں جذبہ آزادی کو مزید جلاء بخشی۔ ایسے دور میں گاندھی جی ایک بار پھر متحرک ہوگئے اور انہوں نے 1929ء میں انگریزوں کو مکمل آزادی کے حتمی اعلان کے لئے 1929ء کے اختتام کا حتمی وقت دے دی۔ انگریز حکمرانوں نے اس اعلان کو درخورِ اعتناء نہ سمجھا۔ نتیجتاً کانگریس نے 31ِ دسمبر1929ء کو اپنے طور پر آزادی کا اعلان کردیا اور 26ِ جنوری 1930ء کو پورے ہندوستان میں یومِ آزادی کا اعلان کردیا۔ اس کے ساتھ ہی گاندھی جی ایک بار بھر ستیہ گرہ تحریک کا آغاز کیا۔


1930ء علامہ اقبال کا خطبہ الہٰ آباد:

مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہٰ آباد میں شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اپنے مشہور خطبے میں پہلی بار مسلمانانِ ہند کے لیے ایک الگ باقاعدہ جغرافیائی ریاست کا نظریہ پیش کیا۔ یہی نظریہ آگے چل کر 1940ء کی قراردادِ لاہور میں جغرافیائی حدود کے تعین کے ساتھ پاکستان کے مطالبے کی بنیاد پڑا۔


1930ء گول میز کانفرنس:

سائمن کمیشن کی رپورٹ کے بعد 1929ء میں برطانیہ کے نومنتخب وزیرِ اعظم رمزے میکڈونلڈ نے ہندوستان کے آئینی مسائل کے حل کی تلاش میں لندن میں ایک گول میز کانفرنس کی تجویز پیش کی اور اس میں ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کو شریک کرنے کا بھی اعلان کیا۔ قائدِ اعظم اور دیگر مسلم رہنماؤں نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا لیکن کانگریس نے اس میں شرکت کے لیے پیشگی شرائط پیش کردیں جو منظور نہ کی گئیں۔ اس بناء پر کانگریس نے اس کانفرنس کے پہلے دور کا بائیکاٹ کردیا۔ اس اجلاس میں مسلمانوں کی نمائیندگی قائدِ اعظم اور سر آغا خان کے علاوہ مولانا محمد علی جوہر نے بھی کی۔ دورانِ اجلاس مولانا محمد علی جوہر نے انتہائی جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں مکمل آزادی لینے آئے ہیں، اگر آپ ہمارا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کرسکتے ہیں تو میں غلام ہندوستان جانے کی بجائے یہیں موت کو ترجیح دوں گا، اور آپ کو آزادی یا میرے لیے قبر کی جگہ میں سے کوئی ایک چیزدینی پڑے گی۔ اس تقریر کے بعد اُن کا انگلستان میں ہی انتقال ہوگیا۔آپ کے رفقاء نے آپ کی خواہش کے احترام میں آپ کا جسدِ خاکی واپس غلام ہندوستان لے جانے کی بجائے ان کی میت بیت المقدس لے جاکر وہاں تدفین کو ترجیح دی۔اس کانفرنس کا پہلا دور ناکامی پر ختم ہوا۔ اس کے بعد اس کے دو مزید ادوار 1931ء اور 1932ء میں منعقد ہوئے لیکن یہ دونوں ادوار بھی کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکے یوں یہ پوری کانفرنس ہی عملاً ناکامی کا شکار ہوگئی۔


1935ء گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ:

گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد حکومتِ برطانیہ نے اپنے طور پر ایک قانون نافذ کیا۔ اس کے ذریعے اس نے اپنے طور پر ہندوستان میں ایک نظامِ حکومت متعارف کروایا جس کی رو سے وفاق اور صوبوں کے لیے الگ الگ قوانین پیش کیے گئے۔ اس قانون کے وفاقی حصے کو مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے مسترد کردیا جبکہ صوبائی حصے کو منظور کرتے ہوئے اس کے تحت حصہ لینے پر دونوں نے آمادگی ظاہر کی۔


1937ء کانگریسی وزارتوں کا قیام:

1935ء کے قانون کے تحت 1937ء میں پہلی بار ہندوستان میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوئے جس ہندو آبادی کی اکثریت کی باعث کانگریس نے بھرپور کامیابی حاصل کی اور صوبوں میں اپنی حکومتیں قائم کیں۔ ان حکومتوں میں ہندوؤں کا متعصبانہ رویہ کھل کر سامنے آگیا اور انہوں نے نے پارلیمان کے اجلاس کی ابتدا ء اور اسکولوں میں دن کا آغاز بندے ماترم سے شروع کرنے کے علاوہ گائے کے ذبیحے پر پابندی، نماز کے اوقات میں مساجد کے سامنے باجہ بجانے کے ساتھ مسلمانوں کو جبراً کانگریس میں شامل کرنے کی ابتداء کردی۔ کانگریسی وزارتوں کے اس رویہ کی وجہ سے مسلمانوں میں سخت بے چینی پھیل گئی اور جگہ جگہ ہنگامہ آرائی بھی شروع ہوگئی۔ یہ صورتِ حال تقریباً دو سال جاری رہی اور 1939ء میں دوسری جنگِ عظیم کی پالیسیوں سے اختلاف کی باعث کانگریس نے وزارتوں سے استعفےٰ دے دیا یوں مسلمانوں کا یہ مشکل دور بھی اختتام پذیر ہوا جس کی خوشی میں مسلمانوں نے قائدِ اعظم کی ہدایت پر 22ِ دسمبر1939ء کو یومِ نجات منایا۔


1939ء دوسری جنگِ عظیم کا آغاز:

دسمبر 1939ء کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا اور یوں دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوگیا۔ اس جنگ میں جاپان جرمنی ہی حمایت میں کود پڑا جبکہ برطانیہ دوسری طرف کھڑا تھا۔ ایک وقت آیا جب جاپان نے یہاں تک پیش قدمی کی کہ ہندوستان کے پڑوس میں رنگون تک پہنچ گیا۔ ایسے میں اہلِ ہند نے برطانوی حکومت پر آزادی کے لیے دباؤ بھی بڑھانا شروع کردیا۔ اسی سلسلے میں کانگریس نے وزارتوں سے بھی مستعفی ہونے کا فیصلہ کرڈالا۔ بالآخر یہ جنگ 1945ء میں جاپان کے خلاف امریکہ کی جانب سے ایٹم بم کے استعمال کے بعد جاپان کے ہتھیار پھینک دینے کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔ لیکن اس کی وجہ سے ہندوستان پر برطانوی گرفت انتہائی کمزور ہوگئی۔


1940ء قراردادِ پاکستان:

کانگریسی وزارتوں سے تلخ تجربہ حاصل کرلینے کے بعد مسلمانوں میں علیحدہ مملکت کی خواہش زور پکڑ چکی تھی ایسے ماحول میں آل انڈیا مسلم لیگ کاسالانہ اجلاس لاہورمیں 1940ء میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ایک قرارداد منظور ہوئی جس میں مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کے جغرافیائی خدو خال پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت قائم کی جائے۔


1942ء کرپس مشن:

جنگِ عظیم دوم کی باعث ہندوستان میں موجود سیاسی بے چینی کی باعث برطانوی وزیرِ اعظم چرچل نے سر اسٹیفورڈ کرپس کوہندوستان میں آئینی اصلاحات تجویز کرنے کے لیے ہندوستان بھیجا۔ انہوں نے واپسی پر جو تجاویز پیش کیں اس کے مطابق جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد ہندوستان میں ایک منتخب کمیٹی بنانے کی تجویز دی جو یہاں کا آئین بناسکے، اس مجوزہ آئین کے تحت صوبوں کو اختیار دیا جائے کہ وہ چاہیں تو ہندوستان کے ساتھ رہیں یا اپنی الگ مملکت بنا لیں۔ کرپس کی ان تجاویز کو کانگریس نے بھی مسترد کیا اور مسلم لیگ نے اس بناء پر مسترد کردیا کہ اس میں مسلمانوں کی الگ مملکت کی کوئی ضمانت نہیں تھی۔


1942ء ہندوستان چھوڑ دو تحریک:

کرپس مشن کو مسترد کرنے کے بعد کانگریس نے فوری طور پر انگریزوں کے خلاف ”ہندوستان چھوڑ دو“ تحریک شروع کردی جس میں اُن سے مطالبہ کیا گیا کہ انگریز فوری طور پر ہندوستان کا اقتدار کانگریس کے حوالے کرکے ہندوستان سے نکل جائیں۔


1943ء تقسیم کرو اور ہندوستان چھوڑ دو تحریک:

کانگریس کی ”ہندوستان چھوڑ دو تحریک“ کے جواب میں مسلم لیگ نے1943ء میں ”تقسیم کرو اور چھوڑ دو“ کا نعرہ اپنایا کہ انگریز ہندوستان کو چھوڑ دیں لیکن چھوڑنے سے پہلے اس کو دو حصوں میں تقسیم کردیں، یعنی مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کو یقینی بنایا جائے۔


1946ء کیبنٹ مشن:

حکومتِ برطانیہ نے اپنے تین وزراء پر مشتمل ایک مشن ہندوستان اس غرض سے بھیجا کہ وہ ہندوستان میں انتقالِ اقتدار کا کوئی فارمولہ وضع کرکے اقدامات تجویز کرسکے۔ اس مشن نے ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا لیکن اس میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی لہٰذا شملہ کے مقام پر تمام اہم رہنماؤں پر مشتمل ایک کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔


1946ء شملہ کانفرنس:

انفرادی ملاقاتوں کے بے سود رہنے کے بعد کیبنٹ مشن نے شملہ میں تمام سیاسی رہنماؤں کی ایک مشترکہ کانفرنس شملہ میں منعقد کی تاکہ انتقالِ اقتدار کے کسی فارمولے پر پہنچا جاسکے لیکن کانگریس اپنے صرف آزادی اور مسلم لیگ تقسیمِ ہند کے مطالبے سے دستبردار ہونے کو کسی طور تیار نہ تھی، لہٰذا یہ کانفرنس بھی بے سود رہی۔


1946ء کیبنٹ مشن پلان:

انفرادی ملاقاتوں اور شملہ کانفرنس کی ناکامی کے بعد اس کیبنٹ مشن نے اپنے طور پر ایک منصوبہ تشکیل دیا جس کے مطابق ہندوستان کو ایک یونین میں تبدیل کرنا، برطانوی ہند اور ریاستی نمائیندوں پر مشتمل مقننہ اور انتظامیہ کی تشکیل، ہندوستان کے تمام صوبوں کو تین گروپوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی گئی جن میں سے ایک گروپ تقریباً موجودہ ہندوستان کے علاقوں پر دوسرا گروپ تقریباً موجودہ پاکستان کے علاقوں پر اور تیسرا بنگال اور آسام پر مبنی تھا جس کو ہم تقریباً موجودہ بنگلہ دیش کہہ سکتے ہیں، دفاع،خارجہ اور مواصلات کے سوا باقی تمام امور صوبوں کے حوالے کرنے کی تجویز،صوبوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ دس سال بعد چاہیں تو متحدہ ہندوستان کے ساتھ رہیں یا علیحدگی اختیار کرلیں۔اس کے علاوہ بھی اس میں کئی اہم تجاویز کے علاوہ ایک عبوری حکومت کی تجویز بھی شامل تھی جس میں شمولیت کے لیے یہ شرط رکھی گئی کہ صرف اُسی سیاسی جماعت کو اس حکومت میں شامل کیا جائے گا جو ان تجاویز کو مکمل طور پر تسلیم کرلے گی۔


1946ء لارڈویول کا رویہ:

کانگریس نے کیبنٹ مشن کے اس منصوبے کو مکمل طور پر مسترد کردیا لیکن مسلم لیگ نے اس میں موجود علیحدہ مملکت کی توقع کے مدنظر اس کو قبول کرلیا۔ اب اس منصوبے کے تحت وائسرائے لارڈ ویول کی ذمہ داری تھی کہ وہ مسلم لیگ کو حکومت بنانے کی دعوت دیتا لیکن اس نے بدعہدی کرتے ہوئے مسلم لیگ کو یہ دعوت نہیں دی۔ اس بدعہدی کی باعث مسلم لیگ نے اس معاہدے کی اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کردیا۔ جونہی مسلم لیگ نے اپنی حمایت واپس لی کانگریس نے موقع غنیمت جانتے ہوئے منصوبے کی حمایت کا اعلان کردیا اور لارڈ ویول نے کانگریس کو حکومت سازی کی دعوت دے دی۔ لارڈ ویول کی اس حرکت کی وجہ سے پورے ہندوستان میں اشتعال پھیل گیا اور جگہ جگہ ہندو مسلم فسادات بھڑک اٹھے۔بعد میں اکتوبر1946ء میں نہرو، قائدِ اعظم لارڈویول کے طویل مذاکرات اور نواب بھوپال کی مصالحانہ کوششوں کے بعد مسلم لیگ عبوری حکومت میں شامل ہونے پر راضی ہوگئی۔


1947ء وزیراعظم ایٹلی کا اعلانِ آزادی:

بالآخر برطانوی وزیرِ اعظم ایٹلی نے 20ِ فروری1947ء نے اعلان کیا کہ برطانیہ جون 1948ء سے قبل ہندوستان میں انتقالِ اقتدار کرکے یہاں سے واپس چلا جائے گا۔


1947ء آزادی کی تاریخ کا اعلان:

2ِ جون 1947ء کو بالآخر وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن، قائدِ اعظم، پنڈت نہرو اور سردار بلدیو سنگھ اور ان سب کے معاونین کا ایک مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں لارڈ ماونٹ بیٹن نے یہ باقاعدہ اعلان کیا کہ شہنشاہ برطانیہ نے ہندوستان کی عوام کی خواہش کے احترام میں ہندوستان کو تقسیم کرنے اور مکمل آزادی دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ 3ِجون 1947ء کو ہندوؤں مسلمانوں اور سکھوں نے اس منصوبے کو اصولی طور پر منظور کرلینے کا اعلان کردیا۔


1947ء یومِ آزادی:

بالآخر 14ِ اگست 1947ء کو وہ دن آیا کہ مسلمانوں کی نوے سالہ جدوجہد رنگ لائی اور تاریخ میں پہلی بار ایک نئی مملکت سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی اور اس کے اگلے ہی روز یعنی 15ِ اگست 1947ء کو انگریزوں نے بقیہ ہندوستان کو بھی مکمل آزادی دیتے ہوئے یہاں سے اپنا بوریا بسترا لپیٹا اور واپس برطانیہ چلے گئے۔