مندرجات کا رخ کریں

طالب جتوئی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تعارف

[ترمیم]

بابا طالب جتوئی کا تعلق ساہیوال کے نواحی گاوَں چک نمبر    110/9L (آٹھواں میل)سے تھا۔آ پ کا اصل نام نور احمد  اور قلمی نام طالب جتوئی تھا،آپ کی پیدائش دو مارچ 1945ء کو ہوئی،والد کا نام صمد جتوئی تھا آپ پنجابی کے مشہورعوامی شاعر تھے حصول تعلیم کے بعدآپ محکمہ پٹوار میں رہے بعد ازاں شٹام بھی فروشی کی،وہ ان شاعروں میں شامل تھے جنھوں نے شعوری طور پر پنجابی زبان کو اپنی شاعری کے لیے منتخب کیا۔ بابا طالب کو پنجابی زبان سے بے حد محبت تھی اور وہ اکثر کہا کرتے تھے:

"پنجابی زبان کا مجھ پر قرض ہے اور مجھے اس قرض کو پنجابی کی خدمت کر کے چکانا ہے۔"

وفات

[ترمیم]

بابا طالب کی عمر 77 سال تھی اور 11 دسمبر 2019ء کو رحلت فرما گئے ،[1] ان کے جنازے میں  بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور موسلا دھار بارش کے دوران ان کے آبائی گاؤں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

تصانیف

[ترمیم]

آپ کے پنجابی شعری مجموعے یہ ہیں

  • جگراتے دا تھل
  • بولدا کوئی نہیں
  • چانن دی ہڈ بیتی[2]
  • میلہ اکھراں دا (یہ کتاب ان کی وفات کے بعدشائع ہو ئی)

ان کی پہلی کتاب 2001 میں شائع ہوئی، جس کے بعد وہ پنجابی ادبی حلقوں میں متعارف ہوئے۔

زندگی کا سفر

[ترمیم]

بابا طالب جتوئی کا اصل نام نور احمد صمد تھا، مگر پچھلے 30 سالوں سے وہ اپنے اصل نام سے نہیں پہچانے جاتے تھے۔ ان کا تعلق بلوچ قوم کے جتوئی   قبیلے سے تھا اور وہ 2 مارچ 1942 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد نور الصمد زمیندار تھے۔ بابا طالب نے اپنی میٹرک کی تعلیم تحصیل ساہیوال سے مکمل کی اور اس کے بعد پانچ سالہ پٹواری کورس کیا۔اپنے ابتدائی دور میں روزگار کے لیے انھوں نے پٹواری، اشٹام فروش اور وکالت کے معاون کے طور پر کام کیا۔ بعد میں انھوں نے پٹواری کی نوکری چھوڑ کر زمینداری کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیا اور اپنی زمین خود ہل چلا کر روزی کماتے رہے۔

شاعری کا جنون

[ترمیم]

بابا جی کو بچپن ہی سے شاعری سننے کا بے حد شوق تھا۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا:

"میں نے کبھی پتوکی، چیچہ وطنی، میاں چنوں، اوکاڑہ، پاکپتن، وہاڑی، دیپالپور، ملتان اور ساہیوال کے مشاعرے مس نہیں کیے!"

وہ اکثر ساہیوال پاکپتن چوک سے گاؤں تک پیدل سفر کرتے، کیونکہ مشاعرے رات دیر تک چلتے اور گاؤں کے لیے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہ ہوتی۔ ایک بار انھوں نے کہا:

"میں نے مشاعروں سے واپسی پر سات سے آٹھ سانپ مارے ہیں!"

بابا طالب جتوئی کو پنجابی شاعر بشیر احمد بشیر (پاکپتن) نے شاعری کی تربیت دی اور انھیں "طالب جتوئی" کا نام دیا۔

ادبی خدمات اور خراج تحسین

[ترمیم]

بابا طالب جتوئی کو پنجابی زبان کے فروغ پر مختلف پنجابی تنظیموں نے کئی ایوارڈز سے نوازا۔

بہاالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے ادبی میگزین "لہریں" نے ان پر ایک تحقیقی مضمون شائع کیا، جبکہ ان کی ایک نظم بی اے، پنجابی کے نصاب میں بھی شامل کی گئی۔

مرزا معین (ایچ او ڈی، پنجابی ڈیپارٹمنٹ، جی پی جی سی) نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا:

"بہت سے شاعروں نے پنجابی میں شاعری کی، مگر بابا طالب جتوئی کچھ خاص کر رہے تھے۔ ان کی شاعری پنجابی ثقافت اور ورثے کو زمین کی جڑوں سے جوڑتی تھی۔"

فدا بوکھائی (نوجوان پنجابی شاعر) نے کہا:

"بابا جی کی شاعری کا رومانس روایتی نہیں تھا۔ ان کا رومانس اپنی ثقافت اور لوک داستانوں سے تھا۔"

بابا طالب جتوئی کا ماننا تھا کہ:

"سچ ہمیشہ غالب آتا ہے اور کوئی بھی طاقت اسے دبا نہیں سکتی!"

بابا طالب جتوئی کی خدمات پنجابی ادب کے لیے ایک نایاب اثاثہ ہیں اور ان کا نام پنجابی شاعری میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "Dawn News"
  2. پنجابی مہکاں انٹرنیشنل ساہیوال پاکستان

ڈان نیوز ای پیپر

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔