علامہ غلام عباس نجفی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

علامہ غلام عباس نجفی 3 جنوری 1947 کو تھیم خاندان کے زمین دار میاں عنایت علی کے گھر پیداہوئے۔آپ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ آپ کی نازو نعم سے پرورش کی گئی۔آپ نے 1966 میں میٹرک پاس کیا۔1970 میں گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن کیا۔1972 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے عربی کیا اور اس سے قبل فاضل عربی کا امتحان پاس کرچکے تھے۔مولانا عبد الرشید فاضل دیوبند آپ کے عربی ادب کے استاد تھے۔اپ کی دینی و دنیاوی تعلیم کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رھا۔دینی تعلیم کے لیے مولانا سید حسن زیدی مرحوم آپ کے پہلے استاد تھے اس کے بعد آپ نے مولانا سید محمد عارف صاحب قبلہ پرنسپل جامعہ حسینیہ اور علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم سے تعلیم مکمل کی۔نجف اشرف میں آیت اللہ خوئی کے درس خارج میں تقریباً چھ ماہ شرکت کی کیوں کہ اقامہ ہی چھ ماہ کا تھا جسے عراقی حکومت نے مزید توسیع نہ دی اور اس کے بعد قم المقدس، ایران میں آیت اللہ شہاب الدین مرعشی نجفی کے درس خارج میں ایک سال شریک ہوئے ۔ اسی دوران آپ کے والد صاحب قبلہ میاں عنایت علی مرحوم نے واپس بلا لیا اور دوبارہ نہ جاسکے۔خطابت میں آپ کے استاد قائد ملت جعفریہ سید محمد دہلوی ،خطیب اعظم تھے۔اپ نے تا دم آخر اساتذہ قم و نجف کی تحقیقات و تالیفات سے استفادہ کا سلسلہ جاری رکھا اور ایک بہترین ذاتی لائبریری تشکیل دی۔جو جدید و قدیم تحقیقات کا بہترین مجموعہ ہے۔جس میں موجود کتب کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے۔اپ کا قم و نجف میں استفادہ کا سلسلہ آخر تک جاری رھا اور آیت اللہ مرعشی نجفی، آیت اللہ سید عبد اللہ شیرازی سے استفادہ بھی جاری رھا۔آپ پنجابی اردو کے علاوہ۔عربی۔فارسی۔انگریزی کافی روانی سے بولتے تھے۔

خاندانی پس منظر[ترمیم]

علامہ غلام عباس نجفی کا تعلق پاکستان کے معروف قبیلے تھہیم قبیلے سے ہے ، جو اپنی نسبت بنو تمیم سے بھی جوڑتا ہے ۔۔ سر ڈینزل ابٹسن نے اس قوم کو جٹ کے زمرے میں رکھا ہے تاہم خود اس خاندان کے ایک فرد سابق رکن سینیٹ اور ریٹائرڈ جج جسٹس عبد الرزاق کی تحقیق کے مطابق تھہیم ایک عرب قبیلہ بنی تمیم کی ایک شاخ ہے جو محمد بن قاسم کے ہمراہ برصغیر میں آئے اور انھوں نے اس علاقے میں حکومت قائم کی۔ سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے بہت سے علاقوں میں یہ نسل کافی اثرورسوخ کی حامل ہے اور صاحب ثروت ہے۔[1] بنو تمیم کے لوگ ابہت سے عرب ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں ، قطر کے آل ثانی اسی بنی تمیم سے ہیں ، محمد بن عبد الوہاب بانی وہابی تحریک کا تعلق بھی بنی تمیم سے تھا ۔ یہ خاندان سعودیہ، یمن ، عرب امارات ، فلسطین اور دیگر عرب ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ قبیلہ عرب قبائل میں سے ایک بڑا قبیلہ ہے۔ دور جاہلیت میں اس قبیلہ کے افراد فصحائے عرب میں شمار ہوتے تھے۔

بنو تمیم کی سندھ آمد[ترمیم]

بنوتمیم کی قلبی روایات کے مطابق ان کے بزرگ محمد بن قاسم اور اس کے بعد آنے والے عرب سرداروں میں سے ہیں ۔ محمد بن قاسم کا لشکر جو بصرہ میں تیار ہوا اس وقت بنی تمیم کا مرکز تھا ۔ بنی تمیم کے بہت سے افراد اس لشکر میں اور پھر بعد کے لشکروں میں شامل ہو کر ہندوستان آئے ۔ ان افراد کی نسلیں سندھ اور بالائی علاقوں میں آباد ہوئیں ۔ عراقی برادری جو 712ء میں عراق سے ہجرت کرکے سندھ آئے ۔ اس شاخ کا تعلق بنو تمیم کی شاخ بنو سعد سے ہے ۔ یہاں سے یہ لوگ اترپردیش تک پھیل گئے۔آج بھی یہ ہندوستان میں عراق برادری کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔

سند ھ میں تمیم سے تھہیم[ترمیم]

تھیہم خاندان کے افراد کا کہنا ہے کہ تمیم علاقائی استعمال کی وجہ سے بگڑ کر تھہیم ہو گیا ہے اس حوالے سے گزٹ آف ملتان کے مصنف کی تحریر قابل مطالعہ ہے۔

گزٹ آف ملتان کے مصنف ای ڈی میکلیگن اپنی کتا ب میں تحریر کرتے ہیں:

آئین اکبری سے لگتا ہے کہ : تھہیم اکبر کے زمانے سے ہی ضلع ملتان کا ایک عام قبیلہ رہے ہیں،موجودہ تھیہموں کا بہت بڑا حصہ اٹھارہویں صدی میں سیال اکھاڑ پچھاڑ کے وقت چنیوٹ میں آیا۔تھہیم عرب نسل سے ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا جد امجد سامبھل شاہ سا ت سوسال قبل ملتان آیا تھا ، اس نے مقامی سردار کو مار کر یہاں چالیس سال حکومت کی۔ اب یہ قبیلہ مرکزی طور پر کبیر والا تحصیل کے جنوب مغرب کی طرف چناب کے کنارے ملتا ہے ،جہاں وہ جرائم کی وجہ سے بدنام ہے۔وہ ضلع کے دیگر علاقوں میں بھی پائے جاتے ہیں بالخصوص لودھراں ، کہروڑ کے درمیانی خطے میں آباد ہیں۔ضلع میں مرکزی تھہیم خاندان ممدال کے پیر بخش کا ہے۔اسی خاندان سے شاہجہان کا وزیر اعظم سعد اللہ خان تھہیم تھا ، اسی طرح ہمایوں عہد میں شیخ جلال ایک فاضل شخص تھا۔ [2]ای ڈی میکلیگن کے مطابق اس قبیلے کے اس دعوے میں صداقت ہو سکتی ہے کہ یہ بنی تمیم سے ہیں۔

علامہ غلام عباس کے آباو اجداد[ترمیم]

اپ کے آباء واجداد پتراکی موضع میں آباد ھوئے۔جہاں سے آبا و اجداد میں سے بہت نامور شخصیات نے دنیا پر اپنی علمی برتری کی وجہ سے حکومت کی ہے۔نواب سعداللہ خان تھہیم وزیر اعظم ہند اورنگزیب عالمگیر کے استاد تھے۔نواب صاحب نے بھی صفوی بادشاہوں کی جانب سے شاہ جہاں پرکیے جانے والے سوالات کے جوابات دیے ۔ فتاویٰ قاضی خان نامی فقہ حنفی کی کتاب آپ کی زیر نگرانی لکھی گئی اور آپ کے بیٹے نواب لطف اللہ خان دہلی کے گورنر رہے۔دونوں باپ بیٹا لال قلعہ دہلی کے شاہی قبرستان میں دفن ہیں۔1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے جبر کے خلاف لڑتے ہوئے اسی خاندان کے ایک بزرگ نواب عظمت اللہ خان تھہیم نے پتراکی سے ترک سکونت کرکے جھنگ میں زیر زمین زندگی اختیار کی۔ان بزرگوں کی قبور جھنگ میں ہیں۔اس خاندان کے دو بزرگوں میاں حسن خان اور میاں حسین خان نے مذہب اہل بیت علیہم السلام اختیار کیا اور ان کی تیسری نسل میں سے مکتب اہلبیت علیہم السلام کے مبلغ غلام عباس نجفی کی ولادت ہوئی۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

آ پ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے 1966 میں میٹرک پاس کیا۔1970 میں گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن کیا۔1972 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے عربی کیا اور اس سے قبل فاضل عربی کا امتحان پاس کرچکے تھے۔مولانا عبد الرشید فاضل دیوبند آپ کے عربی ادب کے استاد تھے۔اپ کی دینی و دنیاوی تعلیم کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہا۔دینی تعلیم کے لیے مولانا سید حسن زیدی مرحوم آپ کے پہلے استاد تھے اس کے بعد آپ نے مولانا سید محمد عارف صاحب قبلہ پرنسپل جامعہ حسینیہ اور علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم سے تعلیم مکمل کی۔نجف اشرف میں آیت اللہ خوئی کے درس خارج میں تقریباً چھ ماہ شرکت کی کیوں کہ اقامہ ہی چھ ماہ کا تھا جسے عراقی حکومت نے مزید توسیع نہ دی اور اس کے بعد قم المقدس، ایران میں آیت اللہ شھاب الدین مرعشی نجفی کے درس خارج میں ایک سال شریک ھوئے ۔ اسی دوران آپ کے والد صاحب قبلہ میاں عنایت علی مرحوم نے واپس بلا لیا اور دوبارہ نہ جاسکے۔خطابت میں آپ کے استاد قائد ملت جعفریہ سید محمد دہلوی ،خطیب اعظم تھے۔اپ نے تا دم آخر اساتذہ قم و نجف کی تحقیقات و تالیفات سے استفادہ کا سلسلہ جاری رکھا اور ایک بہترین ذاتی لائبریری تشکیل دی۔جو جدید و قدیم تحقیقات کا بہترین مجموعہ ہے۔جس میں موجود کتب کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے۔اپ کا قم و نجف میں استفادہ کا سلسلہ آخر تک جاری رھا اور آیت اللہ مرعشی نجفی، آیت اللہ سید عبد اللہ شیرازی سے استفادہ بھی جاری رھا۔آپ پنجابی اردو کے علاوہ۔عربی۔فارسی۔انگریزی کافی روانی سے بولتے تھے۔

خدمات[ترمیم]

اتحاد بین المسلمین[ترمیم]

اپ ملک و ملت کے پرخلوص خیرخواہ اور اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔تحریک ختم نبوت کے دوران اہل اسلام کے مشترکہ جلسوں سے آپ کے خطبات اب تک اہل علاقہ یاد کرتے ہیں۔ان جلسوں میں سٹیج سیکرٹری حق نواز جھنگوی ہوتے تھے۔اپ اتحاد امت کو ہی ملک و ملت کے استحکام کی ضمانت قرار دیتے تھے۔جھنگ میں شیعہ سنی اتحاد کو عملی صورت میں برقرار رکھنا اور اس اتحاد سے ناصبیت و تکفیریت کو ہر محاذ پر شکست دی۔

اتحاد بین المومنین[ترمیم]

آپ نے اتحاد بین المومنین کے لیے بھی عملی طور پر اقدام کیے۔ ملت جعفریہ پاکستان پر مشکل وقت آیا اور قوم دو گروہوںشیخی و خالصی پر باہم دست وگریباں ہوئی تو اس وقت علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم اور علامہ شبیہ الحسنین محمدی مرحوم کی مشاورت سے اتحاد کے لیے لائحہ عمل مرتب کیا گیا۔ اس بے مثال اجتماع کی میزبانی کا شرف آپ کے حصے میں آیا۔ جھنگ میں ہر دو فریقین کے علما کرام کو ایک منبر پر بٹھا کر ملت کو اتحاد کی نوید سنائی گئی اور علما کرام کے مابین تحریری معاہدہ لکھا گیا جو معاہدہ جھنگ کہلاتا ہے اور ہر دور میں ملت کے اتحاد کے لیے قابل عمل نمونہ ہے۔

مجالس و منبر[ترمیم]

آپ ایک بہترین اور بے لوث خطیب، عالی قدر مدرس اور با بصیرت رہنما تھے۔آپ نے امریکا، انگلینڈ، عرب امارات ،قطر ، اورمسقط سمیت دنیا بھر کے دینی مراکز میں آپ کے تبلیغی خطاب اہل ایمان کے لیے سرمایہ ہیں۔اس سلسلہ خطابت میں آپ کو جو نذر نیاز ملتی واپسی پر جھنگ کے یتامیٰ اورمساکین میں تقسیم کر دیتے۔ آپ نے ساری زندگی کوئی ذاتی جائداد نہیں بنائی اور نہ ہی کوئی بینک بیلنس چھوڑا۔سب کچھ مساجد، مدارس اور غرباء کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کیا ۔ آپ نے ایک طویل عرصہ زیدی ہاؤس، شاہ جمال، لاہور میں عشرہ مجالس سے خطاب کیا۔

مساجد کی تعمیر[ترمیم]

اپ نے مساجد تعمیر کروائیں اور مومنین میں تعمیر مساجد کی تحریک پیدا کی جس کے نتیجے میں آج جھنگ صدر میں اھل تشیع کی اذانوں کی آواز شہر کی فضا پر چھا جاتی ہے۔آپ کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے اسلاف امام باگارہوں کے ساتھ مساجد بھی تعمیر کرتے تو آج عددی برتری کے نتائج مختلف ہوتے۔

دفاع مذہب اہل بیت[ترمیم]

جب جھنگ میں مذہب اہل بیت کے خلاف باقاعدہ تکفیری پروپیگنڈہ کا آغاز کیا گیا اور ہر طرح کے وسائل اور لوازمات کو ملت جعفریہ کے خلاف استعمال کیا گیا۔کبھی فتویٰ کفر جاری کیا جاتا کبھی پمفلٹ، کبھی اشتہارات، کبھی جلسے، کبھی عدالتوں میں محاذ لگائے جاتے تھے۔کبھی مناظرہ کے چیلنج دیے جانے لگے تو مکتب و ملت کی حفاظت کے لیے آپ نے دشمن کے خلاف تنہا قیام کیا اور اس علمی لڑائی کے بیس سالہ دور میں دشمن کو ھر محاذ پر شکست دی۔فتوی کے جواب میں فتویٰ پمفلٹ کے جواب میں پمفلٹ اشتہارات کے جواب میں اشتہارات عدالتوں میں ناقابل تردید حوالہ جات پیش کرکے اور مناظروں کے چیلنج قبول کرکے تکفیریت کے مکروفریب اور جھوٹ کو بے اثر کر کے رکھ دیااور تکفیری قیادت جب ضلعی یا صوبائی امن کمیٹی کے اجلاس میں آپ کے سامنے بیٹھتی تو انھیں بات کرنے کی جرات نہ ہوتی۔۔۔جب جنرل ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ تشکیل دی تو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جھنگ نے آپ کو مجلس شوریٰ کی رکنیت کی پیشکش کی جس سے آپ نے انکار کر دیا ۔۔۔

قومی خدمات[ترمیم]

قومی معاملات میں آپ صف اول میں خدمات سر انجام دیتے نظر آتے ہیں۔اسلام آباد کنونشن ہو یا دیگر قومی معاملات میں آپ علامہ مفتی جعفر حسین اعلیٰ مقامہ کے بااعتماد ساتھی رہے۔قائد ملت علامہ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد جب قوم دو قیادتوں میں تقسیم ھو گئی تو آپ نے ملت کو متحد کرنے کی کوشش کی۔قائد شہید سید عارف حسین الحسینی نے سفید کاغذ پر دستخط کرکے دے دیے اور کہا آپ جو فیصلہ لکھ دیں مجھے منظور ہے۔مگر علامہ سید حامد علی موسوی قبلہ نے شرط رکھی کہ حسینی صاحب ہماری تحریک میں ساتھ دیں۔بد قسمتی سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا جس کا آپ کو افسوس رہا۔۔۔آپ ہر حال میں مکتب و ملت کے اتحاد و سربلندی کے لیے کوشاں رہے۔

انجمن حسینہ جھنگ کی بحالی جھنگ کے بڑے بڑے زمینداروں نے ملت کی فلاح وبہبود کے لیے ایک یتیم خانہ، اسکول کی بنیاد ڈالی۔ جس میں جھنگ کے سیال، شاہ جیونہ اور رجوعہ سادات کے سادات شامل تھے۔انھوں نے اس کے لیے پچیس مربع زمین وقف کی۔ شہر کی مرکزی جگہ پر چار ایکٹر سے زائد زمین پر یتیم خانہ، جامعہ حسینیہ مدرسہ اور اسکول قائم کیا۔ یہ اسکول بھٹو دور میں عمارت سمیت قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ مدرسہ اور یتم خانی بدستور انجمن حسینہ جھنگ کے زیر اہتمام چلتے رہے۔ اس مدرسے نے کئی معروف علما پیدا کیے۔ جب بزرگ زعماء ملت یہ دنیا چھوڑ گئے تو ان کی اولاد نے بھی کوئی خاص دلچسپی نہ لی۔ زمین آدھی انجمن کے نام رہ گیں۔ اس کو ملک بھر میں مرکزی مقام حاصل تھا۔ قائد ملت علامہ سید محمد دہلوی اس کے سرپرست مقرر ہوئے۔سالانہ جلسہ منعقد ہوتا تھا۔ جس میں ملک بھر سے علما، زعماء اور دانشور شریک ہوتے تھے۔حکومت نے جب اس کے مالی معاملات میں خرد برد دیکھی تو اس پر قبضہ کر کے ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ علامہ نجفی صاحب نے عدالتی و انتظامی کارروائی و جد جہد کے ذریعے اس وقف کو بحال کروایا۔

تدریس[ترمیم]

آپ دو سال سے زائد جامعہ حسینیہ جھنگ کے پرنسپل رہے۔

قلمی خدمات[ترمیم]

  1. حدیث غدیر در شان جناب امیر علیہ السلام
  2. والدین اور اولاد کے حقوق
  3. جواب فتویٰ
  4. اور بہت سا تحریری سرمایہ

رحلت[ترمیم]

21 جون 1996 بوقت نماز شب بروز جمعہ عالم جاودانی کی طرف کوچ فرما گئے۔آپ کے جنازہ میں ہر مسلک کے لوگوں نے شرکت کی۔آپ جھنگ میں ہی مدفون ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "تھہیم"۔ تھہیم ڈاٹ کام 
  2. ای ڈی کیکلیگن (۲۰۲۱)۔ تاریخ ملتان۔ لاہور: الفیصل ناشران۔ صفحہ: ۱۲۳