علی احمد بروہی
| ||
تاریخ پیدائش: | 11 نومبر 1921 | |
جائے پیدائش: | شکار پور | |
تاریخ وفات: | 30 نومبر 2003 | |
جائے وفات: | کرچی |
سندھ کے نامور دانشور اور مزاح نگار اور پاکستان کے مشہور قانون دان اے کے بروہی کے بھائی۔ علی احمد بروہی گھوٹکی ضلع کے قصبے کھنبڑا میں پیدا ہوئے- ابتدائی تعلیمشکارپور کے شہر گڑھی یاسین سے حاصل کرنے کے بعد سندھ مدرسۃ السلام کراچی سے میٹرک کیا - اور انیس سو اکتالیس میں رائل بحریہ میں ملازمت اختیار کی- انیس سو چھیالیس میں برصغیر کی تاریح کی مشہور فوجی بغاوت جو رائل نیوی بغاوت کے طور پر مشہور ہوئی اس میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا-
اس پاداش میں ان کا دوسرے باغیوں کے ساتھ کورٹ مارشل ہوا اور انھیں چار سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی- انھوں نے ایک سال قید ہندوستان کی مختلف جیلوں میں گزارا- اس اثنا میں ملک آزاد ہو گیا اور انھیں رہائی نصیب ہوئی- جیل سے رہا ہونے کے بعد انھوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا اورنامور سیاست دان پیر علی محمد راشدی کی ادارت میں شایع ہونے والے روزنامہ ”قربانی” میں ملازمت شروع کی-
اس اخبار کے مالک جی ایم سید تھے- صحافت کے دوران بعض ”قابل اعتراض” مضمون لکھنے پر حکومتِ وقت ناراض ہو گئی او!ر ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے - لیکن بروہی روپوش ہو گئے اور خیرپور ریاست میں جا کر پناہ لی- اس وقت خیرپور الگ ریاست تھی- چند ہی ماہ میں اپنی ذہانت اور علمی صلاحیتوں کی وجہ سے خیرپور ریاست کے وزیر اعظم قزلباش کے اطلاعات کے مشیر ہو گئے-
انیس سو پچپن میں جب مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ملا کر ون یونٹ قائم کیا گیا تو خیرپور ریاست سے ان کی خدمات مغربی پاکستان حکومت کے حوالے کردی گئیں- بروہی نے محکمہ اطلاعات میں مختلف عہدوں پر کام کیا اور آخر میں سیکریٹری اطلاعات سندھ کے طور پر ریٹائر ہوئے- اپنی باغی طبیعت کی وجہ سے ان کا سزا کے طور پر مختلف مقامات پر تبادلہ ہوتا رہا- سال انیس سو باہتر میں بعض اختلافات کی وجہ سے بروہی کو ذوالفقارعلی بھٹو نے نوکری سے نکال دیا- لیکن ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد جنرل ضیاالحق نے انھیں دوبارہ طلب کیا اور وہ سرکاری ملازمت پر بحال کر دیے گئے-
انھوں نے 2002ء میں متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کی- وہ سندھی بولنے والی پہلی نامور شخصیت تھے جنھوں نے الطاف حسین کی قیادت میں چلنے والی جماعت میں شمولیت احتیار کی۔ سرکاری ملازم اور رائل نیوی کی بغاوت کے علاوہ علی احمد بروہی سندھ میں طنز و مزاح نگار، کالم نویس اور صحافی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں- انھوں نے تیرہ کتابیں لکھیں- جن میں ”جام جاموٹ جامڑا” -”ککھ پن” - ”سڈن متھے سڈڑا” زیادہ مشہور ہیں - انھوں نے چوکنڈی کے قبرستان اور مقبرہ پر انگریزی میں بھی ایک کتاب لکھی ہے- بروہی ایک ایسے دانشور تھے جن کو سندھ کے لوگوں کی سماجی نفسیات، رہن سہن پر عبور حاصل تھا-