فیروز رشید

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

فیروز رشید (1935) کا شمار ناندیڑ کے معروف شعرا میں ہوتا ہے۔

حالاتِ زندگی[ترمیم]

فیروز رشید کی پیدائش یکم جون 1953ء کو ریاستِ مہاراشٹرا کے شہر ناندیڑ میں ہوئی، آپ کا تعلق قبیلۂ یوسف زئی سے ہے، محض گیارہ سال کی عمر میں آپ والد صاحب کی شفقت سے محروم ہو گئے.. وہ ایک وضعدار شخصیت کے مالک اور محکمۂ عدالت سے وابستہ تھے۔ والد صاحب کے انتقال کے باعث آپ کو کم عمری میں ہی محنت و مزدوری کا راستہ اختیار کرنا پڑا تاکہ آپ اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں۔ خاندان کی کفالت کی ذمہ داری کاندھوں پر آجانے کے باوجود آپ نے تعلیم جاری رکھی.. مدرسے کے اوقات کے علاوہ جو وقت مل جاتا آپ اس میں مزدوری کر لیتے اور اس طرح اپنی تعلیم اور گھر کی کفالت کا خرچ پورا کرتے۔اسی دوران آپ کے دادا کا بھی انتقال ہوا.. اور تعلیم جاری رکھنا آپ کے لیے ممکن نہیں رہا.. اس لیے تعلیم کو ترک کیا اور نوکری کی تلاش میں نکل پڑے.. خوش قسمتی سے آپ کو نوکری مل گئی اور آپ شعبۂ درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔

ادبی سفر[ترمیم]

فیروز رشید کو بچپن سے ہی شعر و شاعری سے شغف رہا ہے۔جماعت نہم میں آپ نے اپنی پہلی غزل کہی مگر پھر گھریلو حالات اور ذمہ داریوں کے بوجھ تلے کچھ عرصہ تک شاعری اور آپ کا ساتھ ٹوٹ گیا۔ کچھ عرصے کی دوری بھی آپ کے دل سے شاعری کے ذوق کو نہیں نکال سکی اور آپ نے سنہ 1970ء میں باقائدہ نظمیں و غزل کہنا شروع کیں۔ ابتدائی دور میں آپ کے کلام میں رومانیت ضرور جھلکتی ہے مگر سنہ 1986ء کے بعد سے آپ نے اصلاحی پہلو کو اپنے کلام میں جگہ دی۔

ابتدا میں آپ حضرت اقبال رحمت تُرابی صاحب سے اصلاح لیتے رہے مگر بعد میں اصلاح کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں کی۔ شعر و شاعری کے علاوہ آپ ایک بہترین نثر نگار و ڈرامہنویس بھی ہیں.. آپ کے ڈراموں کا ایک مجموعہ بنام "امیـــــد" شائع بھی ہو چکا ہے۔اس کے علاوہ آپ کے دو مجموعۂ کلام "آدھی رات کے آنسو (نظم)" اور "آئینے کی آنکھ (غزل)" بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ آپ نے اپنی شاعری، ڈراما نویسی اور عمدہ نظامت کے باعث ہندوستان و بیرون ممالک میں خوب شہرت پائی ہے۔

فیروز رشید، دنیا کی نظر میں[ترمیم]

"مسکراتی آنکھیں، گلابی چہرہ، خیر مقدمی لب و گفتار، فراخ دل، فراخ ذہن، نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو، تخلجق کار بھی، اداکار بھی، نفیس رہن سہن اور وضعدار، امنگ و حوصلہ مند، اردو کے معلم، لیلئ غزل کے جاں نثار، اپنے سے چھوٹوں کے لیے مشفق، بڑوں کے لیے عزت شناس،متبسم و مترنم، آواز کے دھنی، یاروں کے یار، اچھے شاعر، اچھے ڈراما نگار، اچھے ناظمِ مشاعرہ۔۔۔ یہ ہے فیروز رشید کا مختصر خاکہ۔۔"

ڈاکٹر سید شجاعت علی

(سابق پرنسپل ایچ جے تھیم کالج، جلگائوں)

"اپنی نظموں اور غزلوں کے اشعار کے آبشار تلے نہا کر بھی جس شاعر کے نئے نئے تخیلات اور احساسات کی پیاس نہیں بجھتی فیروز رشید اسی سلسلے کے ایک منفرد شاعر ہیں، ان کی فکر، دلی تڑپ اور ذہنی سوچ ان کے ہر شعر میں جھلکتی ہے۔"

احتشام دیشمکھ

(سابق جج، جلگاؤں)

’’فیروز رشید کے ہاں بھی ایک تمنا ہے، تمنا ایک اچھے معاشرے کی، تمنا حالات سے موزوں انداز میں نمٹنے کی، تمنا ملت کی سرخروئی کی، یہ ایک اچھے اور درد مند شاعر اور انسان کی تمنا ہے اور فیروز رشید کے کلام میں یہ تمنا جابجا ملے گی۔‘‘

رحمت یوسف زئی

(سابق صدر شعبۂ اردو، سینٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد)

فیروز رشید، خود کی نظر میں[ترمیم]

"حُسنِ تحریر کا ماہر نہیں سمجھا یارو

میں نے خود کو کبھی شاعر نہیں سمجھا یارو"

فیروز رشید

نمونۂ کلام[ترمیم]

مدرس


               

لوگ استاد جس کو کہتے ہیں

اس کا رتبہ عظیم ہوتا ہے

مرتبہ اس کا جو نہیں سمجھے

وہ سدا زندگی میں روتا ہے

علم کی ایک انجمن استاد

پھول شاگرد اور چمن استاد

کتنا اونچا مقام ہے اس کا

ساری دنیا میں نام ہے اس کا

ذہن و دل کو سنوارتے رہنا

رات دن بس یہ کام ہے اس کا

فکر اس کی جہاں مہکتی ہے

راہ تاریک بھی چمکتی ہے

فکر اس کی سرور محفل کا

فکر اس کی سکون ساحل کا

فکر اس کی چراغ ہے دل کا

فکر اس کی ہے نور منزل کا

اس کا سایا خدا کی رحمت ہے

تربیت اس کی ایک نعمت ہے

اس کا جو احترام کرتے ہیں

دونوں عالم میں ان کی عزت ہے

اس کی خدمت سے نور ملتا ہے

زندگی کا شعور ملتا ہے

زندگی کا پیام ہے استاد

قابل احترام ہے استاد

قطعات[ترمیم]

ٹھوکریں ہر طرف سے ملتی ہیں

پھر بھی لب پر کسی کے آہ نہیں

یہ  بدلتی  ہے  ذہـــن  لوگوں  کے

شاعــــری  صرف  واہ  واہ  نہیں

میرے سِوا کسی کا جگر کیوں نہیں جلا

میں جل چکا اِدھر وہ اُدھر کیوں نہیں جلا

منصف اگر ہے تُو تو مجھے صرف یہ بتا

تیری گلی کا ایک بھی گھر کیوں نہیں جلا