قاضی محمد فضل الدین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قاضی محمد فضل الدین راقم گجراتی سیال شریف کے روحانی پیشوا خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلیفہ خاص تھے۔


قاضی محمد فضل الدین راقم گجراتی
ذاتی
پیدائش
محلہ پنڈتاں گجرات
وفات(1326ھ بمطابق 1908ء)
محلہ پنڈتاں گجرات
مذہباسلام
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقاممحلہ پنڈتاں گجرات
پیشروشمس العارفین
جانشینمحمد حسن قرشی


ولادت[ترمیم]

قاضی محمد فضل الدین کی ولادت محلہ پنڈتاں ضلع گجرات میں ہوئی۔ آپ کا تعلق کشمیری الاصل گھرانے سے تھا۔

تعلیم[ترمیم]

قاضی محمد فضل الدین نے ابتدائی تعلیم گجرات شہر کے علما سے حاصل کی۔ اس کے بعد اعلی تعلیم کے لیے دہلی تشریف لے گئے اور صدر الصدور مفتی صدر الدین آزردہ دہلوی سے دینی علوم کی تکمیل کر کے سند فراغت حاصل کی۔ آپ کا شمار مفتی صاحب کے ممتاز تلامذہ میں ہوتا تھا۔

ملازمت[ترمیم]

محمد فضل الدین نے حصول تعلیم کے بعد ریاست جموں و کشمیر اور تحصیل کھاریاں میں قاضی کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ یہاں تک کہ قاضی آپ کے نام کا مستقل حصہ بن گیا۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

قاضی فضل الدین کی بیعت خواجہ شمس العارفین سیالوی سے تھی۔ حضرت خواجہ غلام فخر الدین سیالوی نے ایک مجلس میں ارشاد فرمایا : قاضی محمد فضل الدین گجراتی کے فرزند ارجمند حکیم محمد حسن قرشی مرحوم سیال شریف حاضر ہوئے تھے۔ سیال شریف سے اپنے والد ماجد کی ارادت اور خلافت کا ذکر کیا تھا۔ نیز دربار شریف کے درویشوں اور طلبہ کا طبی معائنہ کیا تھا۔

شیخ سے محبت[ترمیم]

قاضی فضل الدین کو اپنے شیخ طریقت سے بے پناہ ارادت اور محبت تھی۔ ہر سال سیال شریف حاضر ہوتے تھے۔ خواجہ سیالوی آپ پر بہت لطف و کرم فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے اپنے شیخ طریقت کی شان اقدس میں ایک طویل منقبت لکھی جو اجوبة السائلين کے صفحہ 47 تا 50 پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ منقبت 72 اشعار پر مشتمل ہے۔ چند اشعار درج ذیل ہیں

منقبت

عشق دانی چیت اے مرد کیا انہ كان فناء في الفناء
آفتاب عشق ناید در حجاب شعلہ سوزاں نمی پوشد نقاب
یک نفس چوں عشق جان طور شد ذره ذره اش سراپا نور شد
آفتاب از عشق آتش بار شد ماہتاب از عشق او سیار شد
صد گل و لالہ ز جوش خود د مید سبزه از باطن زمیں آمد پدید
عشق مولا بنده را مولا کند اسفلے را اعلی و اولی کند
زانکہ اورا نسبتے باحق بود از نگاہش سنگ و آہن شق بود

معاصرين[ترمیم]

قاضی محمد فضل الدین نے خواجہ شمس العارفین سیالوی کے دست حق پرست پر بیعت کی ہوئی تھی۔ اس دور کے جلیل القدر علما و مشائخ سے آپ کے گہرے مراسم تھے۔ پیر جماعت علی شاہ بھی ان کے دوستوں میں سے تھے۔ وہ جب بھی گجرات تشریف لاتے آپ سے ضرور ملاقات ہوتی۔ راز و نیاز کی باتیں چھٹرتیں۔ معاصرین میں سے قاضی محمد فضل الدین چشتی کے قطب العارفین قاضی سلطان محمود قادری اعوان شریف سے گہرے تعلقات تھے۔ شیخ محمد عبد اللہ گجراتی ، خواجہ محمد امین چکوڑوی، مولانا محمد امام الدین گجراتی، مولانا محمد سلام اللہ شائق، مولانا محمد ابراہیم گجراتی، پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور محبوب سلطانی جلالپوری سے بھی اچھے مراسم تھے۔

شاعری[ترمیم]

اللہ تعالی نے فضل الدین گجراتی کو سوز و گداز سے لبرز طبیعت عطا فرمائی تھی۔ زبان و بیان پر پوری قدرت رکھتے تھے۔ راقم تخلص تھا۔ کتاب اجوبة السائلین کے آخر میں آپ کی ایک طویل فارسی مثنوی درج ہے جو سولہ صفحات پر مشتمل ہے۔ مثنوی میں حمد باری تعالی، نعت رسول مقبول، فضائل اہل بیت، مدح صحابہ کرام اور منقبت خواجہ محمد شمس الدین سیالوی کے مضامین پر مشتمل ہے۔ مثنوی کی زبان بڑی ساده، سلیس ، شگفتہ اور رواں ہے۔

قومی و ملی خدمات[ترمیم]

فضل الدین راقم گجراتی ملی اور قومی امور میں گہری دلچسپی لیتے تھے۔ چنانچہ 1894ء میں جب گجرات میں انجمن خیر خواہ اقوام کشمیریاں قائم ہوئی تو آپ اس کے رکن بنے اور حتی الامکان اس انجمن کی امداد کرتے رہے۔ اس انجمن کے صدر حاجی پیر بخش تھے جو بڑے مخیر اور نیک دل مسلمان تھے۔ ان کی بنائی ہوئی مسجد اس وقت بھی گجرات میں مسجد پیر بخش کے نام سے موجود ہے۔ قاضی محمد فضل الدین راقم گجراتی نے 1857ء کی جنگ آزادی میں بھی حصہ لیا تھا۔

سیرت[ترمیم]

فضل الدین گجراتی کے اقوال و افعال سنت نبوی کے مطابق تھے۔ آپ بہت بڑے عالم ، صوفی مصنف، مناظر اور نغزگو شاعر تھے۔ خصوصا فارسی زبان کے قادر الکلام سخن گو تھے۔ اپنے شیخ طریقت کے قدم بقدم چلنے والے تھے۔ اوراد و وظائف کے پابند تھے۔ علما کا بے حد احترام فرماتے تھے۔

وصال[ترمیم]

محمد فضل الدین گجراتی کا وصال 1326ھ بمطابق 1908ء کو ہوا۔ آپ کا مزار گجرات میں مرجع خلائق ہے۔

اولاد[ترمیم]

محمد فضل الدین راقم گجراتی کا ایک بیٹا تھا۔

  1. حکیم محمد حسن قرشی (سجادہ نشین)

تصانیف[ترمیم]

فضل الدین گجراتی کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں مشہور ہیں۔

  1. اجوبة السائلين
  2. انوار النعمانیہ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 560 تا 568