محمد عبد الجلیل قریشی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شیخ محمد عبد الجلیل قریشی سیال شریف کے روحانی پیشوا خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلیفہ خاص تھے۔

حافظ محمد عبد الجلیل قریشی
ذاتی
پیدائش(1245ھ بمطابق1829ء)
موضع شیخ جلیل سرگودھا
وفات(25 جمادی الثانی 1293ھ بمطابق 18 جولائی 1876ء)
مذہباسلام
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقامسیال شریف سرگودھا
دورانیسیویں صدی
پیشروشمس العارفین

ولادت[ترمیم]

محمد عبد الجلیل قریشی کی ولادت 1245ھ بمطابق 1829ء میں موضع شیخ جلیل ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ آپ کے آبا و اجداد بڑے نیک نہاد با ارشاد تھے۔

سیال شریف حاضری[ترمیم]

عین شباب میں شیخ محمد عبد الجلیل قریشی بڑے سینہ زور اور لاپرواہ تھے۔ کبھی قصبہ ساہیوال آتے تو ہندووں کا قیمتی سامان اٹھا کر لے جاتے۔ نماز تک پڑھنے سے عاری تھے (جس کی قضا بعد میں بطریق احسن ادا کی)۔ اپنے گاؤں کے کسب دار میاں چنهہ کے ساتھ جس سے وہ اکثر مذاق کیا کرتے تھے ایک دفعہ حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے اور عین جوانی میں ایسے تائب ہوئے کہ خواجہ سیالوی کے معتبرین خاص میں ہو گئے۔ اپنے گاؤں کے رئیس زادو تھے مگر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آستانہ عالیہ کے ہی ہو کر رہے گئے۔ قرآن شریف وغیرہ میں استاد کل بن گئے۔ لنگر خانہ اور نعمت خانہ کے کار مختار رہے۔ بڑے بڑے خلفاء ان کی وساطت سے خواجہ سیالوی کے حضور میں اپنی معروضات پیش کرتے تھے۔

تعليم[ترمیم]

محمد عبد الجلیل قریشی نے قرآن مجید علوم متداولہ اور علوم تصوف کی تعلیم اپنے مرشد کامل خواجہ شمس العارفین سیالوی سے حاصل کی۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

خواجہ شمس العارفین سیالوی نے تونسہ شریف کی حاضری کے موقع پر محمد عبد الجلیل قریشی کو حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کی خدمت میں پیش کرکے عرض کیا کہ یہ شخص ہوا خواہ میرے گرد و نواح سے ایک خاندانی آدمی ہے۔ براہ مہربانی بہ کرم فراوانی اس کو خود بیعت فرمائیں اور اس کے حال پر کرم فرمائے۔ خواجہ تونسوی نے شیخ صاحب کو آپ کے حوالے کیا اور ارشاد فرمایا کہ چونکہ تیری میری بیعت ایک ہی ہے اس لیے آپ اس کو وظیفہ بتائیں اور اس کے حال پر شفقت بے پایاں فرمائیں۔ خواجہ شمس الدین سیالوی نے تعمیل ارشاد کی۔ خواجہ شمس العارفین سیالوی نے علوم باطنی اور نعمت مخفی سے آپ کو مالا مال کیا اور منزل کمال پر پہنچ کر خرقہ خلافت عطا فرمایا۔

درس قرآن مجید[ترمیم]

حافظ محمد عبد الجلیل کافی عرصہ تک خواجہ شمس العارفین کے قائم کردہ مدرسہ میں قرآن شریف کا درس پڑھایا اور فرقان کا فیض دنیا میں ہر خاص و عام کو پہنچایا۔ حافظ صاحب کلام اللہ پر اس قدر عبور اور درس و حفظ پر ایسا ملکہ رکھتے تھے کہ بیک وقت کئی کئی طالبين حفظ قرآن ان کے گرد مختلف مقامات سے كلام الہی سناتے رہتے تھے اور وہ ہمہ تن گوش بن کر ہر ایک کو اس کی غلطی پر تنبیہ فرما دیا کرتے تھے۔ اس علاقے میں حفاظ کی کثرت انہی کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ اور ان تھک محنتوں کا ثمرہ ہے۔ سارا علاقہ ان کے تلامذہ سے بھرا ہوا ہے اور حفظ قرآن کا ذوق و شوق انہی کی سعی پہیم کا ثمر شیریں ہے۔

تلانده[ترمیم]

حافظ عبد الجلیل قریشی کے تلامذہ کی ایک کثیر تعداد ہے لیکن یہاں آپ کے خاص الخاص تلامذہ کا ذکر کرتے ہیں جو آپ کے مرشد کامل کے صاحبزادے تھے۔

  1. صاحبزادہ خواجہ محمد الدین سیالوی
  2. صاحبزادہ محمد فضل الدین سیالوی
  3. صاحبزادہ محمد شعاع الدین سیالوی

محبت مرشد کامل[ترمیم]

شیخ محمد عبد الجلیل قریشی اپنے شیخ کے عاشق صادق اور انتہائی نیازمند تھے۔ آپ خواجہ شمس العارفین کے بڑے جانثار اور با اعتبار خدمت گزار تھے۔ لنگر شریف کے ہر کاروبار میں مختار با اختیار تھے۔ خواجہ شمس الدین کے ہر کام اور سب انتظام میں مدار المہام تھے۔ کل امور اور جمیع معاملات ان کی زبان پر منحصر تھے۔ گویا لنگر کے آپ اکیلے مالک متصور تھے۔

مرشد کی نظر میں[ترمیم]

خواجہ شمس العارفین سیالوی کو شیخ صاحب بہت محبوب تھے۔ ایک بار یہ مسئلہ چھڑ گیا جس آدمی کا معصوم بچہ فوت ہو چکا ہو قیامت کے دن وہ بچہ والدین کی شفاعت کرے گا۔ خواجہ سیالوی نے فرمایا : ہم نے بھی اپنا ایک معصوم بھیجا ہوا ہے۔ لوگوں نے دریافت کیا، کون ہے؟ فرمایا شیخ عبد الجلیل ہیں۔ خواجہ مولانا محمد معظم الدین معظم آبادی کہتے تھے کہ حضرت خواجہ سیالوی کا روحانی ارتباط شیخ عبد الجلیل قریشی کے ساتھ اس قدر تھا جس شخص کو شیخ صاحب مخفور نظر عاطفت سے منظور کرتے تھے خواجہ سیالوی بھی اس پر عنایت اور مرحمت مبذول فرماتے تھے۔ حالانکہ اب بھی وہ دستور بدستور جاری ہے چنانچہ جب تک میں شیخ صاحب کی قبر انور پر جا کر فاتحہ نہ پڑھوں اور اپنے مدعا کی استدعا نہ کروں تو خواجہ سیالوی کی بارگاہ میں سے مجھے اجازت عطا نہیں ہوتی۔ شیخ عبد الجلیل قریشی کے فوت جانے کے بعد خواجہ سیالوی کا معمول تھا کہ نماز عصر کے بعد شیخ صاحب کے مزار پر تشریف لے جاتے تھے۔

اخلاق[ترمیم]

شیخ عبد الجلیل قریشی زہد و ریاضت میں بے نظیر تھے۔ خلوت پسند تھے۔ غرباء اور عاجزیوں کے لیے بشفقت کثیر دستگیر تھے۔ صاحب کشف و کرامات اور باکمالات تھے۔ علیم الاشفاق اور برگزیده آفاق تھے۔ تمام عمر تجزید اور تفرید میں گزاری۔ آپ نے اپنی جان خواجہ سیالوی کے آستانہ پاک پر نذر کی۔

وفات[ترمیم]

شیخ حافظ محمد عبد الجلیل قریشی نے 25 جمادی الثانی 1293ھ بمطابق 18 جولائی 1876ء کو وفات پائی۔ آپ کی نماز جنازہ مرشد کامل خواجہ شمس الدین سیالوی نے پڑھائی۔ آپ کی تدفین مغربی گورستان (دادا باغ) میں کی گئی۔

مرشد کامل کا اظہار تاسف[ترمیم]

شیخ محمد عبد الجلیل قریشی کی وفات پر خواجہ شمس الدین سیالوی کو سخت ملال ہوا۔ آپ نے فرمایا : افسوس شیخ صاحب کی عمر نے وفا نہ کی۔ اگر یہ شخص زندہ رہتا تو میرے پیچھے میرے پسماندگان کی خدمت کرتا اور لوگوں کو فیض پہنچاتا۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 166 تا 171