مندرجات کا رخ کریں

مسائل نماز

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نماز اسلام کے پانچ ارکان میں سے دوسرا رکن ہے اور اسلام کے اندر سب سے اہم عبادت ہے سب سے پہلے یہ حکم فرض ہوا قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا حساب ہو گا ، اگر وہ پوری اور صحیح نکل آئی تو وہ کامیاب ہو گیا اور اگر وہ خراب نکلی تو وہ ناکام اور نامراد رہا [1] اس لیے اس کا پابندی سے اور صحیح طریقے سے ادا کرنا بہت ضروری ہے زیر نظر اس کے اہم مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے

اوقات نماز

[ترمیم]

فجر کا مستحب وقت

[ترمیم]

رافع بن خدیج ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ”فجر خوب اجالا کر کے پڑھو ، کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے"۔ [2] منہ اندھیرے نماز پڑھنے کی حدیث بھی ہے لیکن ترجیح اسفار والی کو دی جاتی ہے تاکہ زیادہ لوگ جماعت میں شریک ہو سکیں

ظہر کا مستحب وقت

[ترمیم]

ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ظہر ٹھنڈی کر کے پڑھو ، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے۔ [3] مقصد یہ ہے کہ لوگ دیواروں اور درختوں کے سائے میں چل کر مسجد آسکیں۔ واللہ اعلم

عصر کا مستحب وقت

[ترمیم]

اس سلسلے میں مختلف فیہ روایات ہیں جو متن کے اعتبار سے مضطرب ہیں۔ جلدی و ایک مثل کی بھی ہیں اور تاخیر و دو مثل کی بھی ہیں۔ دو مثل کی روایات ملاحظہ فرمائیں

  1. عبد اللہ بن رافع نے ابو ہریرہؓ سے نماز کا وقت پوچھا، کہا ابو ہریرہ ؓ نے میں بتاؤں تجھ کو نماز پڑھ ظہر کی جب سایہ تیرا تیرے برابر ہو جائے اور عصر کی جب سایہ تجھ سے دگنا ہو ۔ [4]
  2. ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ تو ظہر کی نماز تم سے جلدی پڑھتے تھے اور تم لوگ عصر کی نماز کو آنحضرتﷺ سے جلدی پڑھتے ہو۔ [5]
  3. حضرت رافع بن خدیج ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ لوگوں کو حکم دیتے تھے کہ وہ عصر کی نماز کو مؤخر کرکے پڑھیں۔ [6]
  4. اعمشؒ ؒ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے ساتھی اور شاگرد ظہر کی نماز جلدی پڑھتے تھے اور عصر کی نماز تاخیر سے پڑھتے تھے۔ [7]
  5. سوار بن شبیب ؒ کہتے ہیں حضرت ابو ہریرہ ؓ عصر کو اتنا مؤخر کرکے پڑھتے تھے کہ میں یہ خیال کرتا تھا شاید سورج زرد ہو گیا ہے۔ [8]
  6. یزید بن عبد الرحمن بن علی بن شیبان اپنے باپ سے وہ ان کے دادا علی بن شیبان رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے تو (دیکھا کہ) آپ عصر کو مؤخر کرتے تھے جب تک کہ سورج سفید اور صاف ہوتا۔ "فكان يُؤخِّر العصرَ ما دامت الشمسُ بيضاءَ نقيَّةً" الراوی: علي بن شيبان | المحدث : أبو داود | المصدر : سنن أبي داود، الصفحة أو الرقم : 408 | خلاصة حكم المحدث : سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
  7. حضڑت ابرہیم نخعیؒ کہتے ہیں تم سے پہلے لوگ ظہر کی نماز تمھاری بہ نسبت جلدی پڑھتے اور عصر کی نماز تم سے زیادہ مؤخر کرتے تھے۔ [9]

امام ابو حنیفہ ؒ کا عبادات کے تعلق سے ایک خاص منہج ہے کہ وہ جب دلائل میں تعارض دیکھتے ہیں یا عام و خاص یا مطلق و مقید پاتے ہیں تو احتیاط اور یقینی پر عمل کرتے ہیں۔ جیسے ایام قربانی کے سلسلے میں ایک حدیث چار دن کا تقاضا کرتی ہے، لیکن اس کے متعارض روایت تین دن چاہتی ہے تو آپ نے یقینی یعنی تین دن پر عمل کیا۔ اس باب میں بھی حدیثِ جبرئیل یہ تقاضا کرتی ہے کہ ظہر مثل اول پر ختم ہو جائے اور عصر مثل اول سے شروع ہو ۔ لیکن دوسری روایتیں اس کے بعض حصے سے متعارض ہیں جو اس پر بعینہ عمل کرنے سے روکتی ہیں۔ اس لیے امام ابو حنیفہ ؒ نے یقینی پر عمل کرتے ہوئے دو مثل پر عصر کے وقت شروع ہونے کا حکم لگایا جس میں وقت یقینی طور پر رہتا ہے

مغرب کا مستحب وقت

[ترمیم]
  1. جابر بن عبد اللہ ؓ سے اوقات نماز کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا .. ۔ ابھی سورج صاف اور روشن ہوتا تو نماز عصر پڑھاتے ۔ نماز مغرب وقت آتے ہی پڑھاتے اور نماز عشاء کو کبھی جلدی پڑھاتے اور کبھی دیر سے۔ [10]
  2. ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "جبرائیل علیہ السلام نے بیت اللہ کے پاس میری دو بار امامت کرائی۔ (پہلی بار) مجھے ۔۔۔ مغرب کی نماز پڑھائی جس وقت کہ روزہ دار روزہ کھولتا ہے ۔۔۔ جب دوسرا دن ہوا تو مجھے ۔۔۔ مغرب کی نماز پڑھائی جبکہ روزہ دار روزہ کھولتا ہے [11]

مغرب کی اذان کے بعد دو نفل پڑھنے کا بھی حدیثوں سے جواز موجود ہے لیکن یہ اس وقت ہے جب امام کو کسی وجہ سے تاخیر ہو اس کو مستقل سنت بنا لینا درست نہیں افضل اور مستحب مغرب کو جلدی پڑھنا ہے

عشاء کا مستحب وقت

[ترمیم]

ابوبرزہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ۔۔۔ عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے ، پھر کہا آدھی رات تک مؤخر کرنے میں بھی اور فرمایا آپ ﷺ عشاء سے پہلے سونے کو اور عشاء کے بعد بات چیت کو برا جانتے تھے [12] جن روایات میں اول وقت مذکور ہے اس سے مراد مستحب کا اول وقت ہے ناکہ مطلق اول وقت

جرابوں پر مسح کرنا

[ترمیم]

قرآن پیروں کے دھونے کا حکم دیتا ہے وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِؕ۔ اور ٹخنوں تک پاؤں دھو [13] اور سو سے زیادہ احادیث موزوں پر مسح کرنے کی اجازت دیتی ہیں جرابوں پر مسح کی احادیث ضعیف ہیں۔

  1. مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور دونوں جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو عبد الرحمٰن بن مہدی نہیں بیان کرتے تھے کیونکہ مغیرہ ؓ سے معروف و مشہور روایت یہی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دونوں موزوں پر مسح کیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ابوموسیٰ اشعری ؓ سے بھی مروی ہے اور ابوموسیٰ ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے جرابوں پر مسح کیا ، مگر اس کی سند نہ متصل ہے اور نہ قوی۔ [14]
  2. عن النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أنه مسح على الجَوربَينِ۔ الراوي : أبو موسى الأشعري | المحدث : أبو داود | المصدر : سنن أبي داود | الصفحة أو الرقم : 159 | خلاصة حكم المحدث : ليس بالمتصل ولا بالقوي
  3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنی جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔ "أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ توضأ ومسح على الجوربينِ والنعلينِ" الراوي : المغيرة بن شعبة | المحدث : ابن القيم | المصدر : تهذيب السنن | الصفحة أو الرقم : 1/272 | خلاصة حكم المحدث : ضعيف
  4. "توضَّأَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ومسحَ على الجوربَينِ والنَّعلَينِ" الراوي : المغيرة بن شعبة | المحدث : المباركفوري | المصدر : تحفة الأحوذي| الصفحة أو الرقم : 1/239 | خلاصة حكم المحدث : ضعيف
  5. "أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلم توضأ ومسح على الجورَبينِ والنعلينِ" الراوي : المغيرة بن شعبة | المحدث : العظيم آبادي | المصدر : عون المعبود| الصفحة أو الرقم : 1/136 | خلاصة حكم المحدث : الحديث مع كونه غير متصل ليس بقوي من جهة ضعف راويه وهو أبو سنان عيسى بن سنان
  6. - "أنَّ عُمَرَ مسَح على جَوْرَبَيْهِ ونَعْلَيْهِ." الراوي : عبدالله بن عمر | المحدث : البخاري | المصدر : الضعفاء الكبير | الصفحة أو الرقم : 1/204 | خلاصة حكم المحدث : لا يصح
  7. "أنَّ رَسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ تَوَضَّأَ ومَسَحَ على الجَوْرَبَينِ" الراوي : المغير بن شعبة | المحدث : يحيى بن معين | المصدر : مختصر سنن أبي داود | الصفحة أو الرقم : 1/ 63 | خلاصة حكم المحدث : ضعيف
  8. "أنَّ رَسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ تَوَضَّأَ ومَسَحَ على الجَوْرَبَينِ" الراوي : المغير بن شعبة | المحدث : الإمام أحمد | المصدر : مختصر سنن أبي داود | الصفحة أو الرقم : 1/ 63 | خلاصة حكم المحدث : ضعيف
  9. "أن النبيَّ صلى الله عليه وسلم توضأَ ومسحَ على الجوربين والنعلين" الراوي : المغيرة بن شعبة | المحدث : النسائي | المصدر : الدراية تخريج أحاديث الهداية | الصفحة أو الرقم : 1/81 | خلاصة حكم المحدث : لا أعلم أحدا تابع أبا قيس والصحيح عن المغيرة المسح على الخفين | توضيح حكم المحدث : لا يصح
  10. "أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم توضَّأ ومسَح على الجوربَينِ والنَّعلَينِ" | الراوي : المغيرة بن شعبة | المحدث : علي بن المديني | المصدر : المقرر على أبواب المحرر | الصفحة أو الرقم : (1/ 89) | خلاصة حكم المحدث : أنكره

بعض تابعین نے لکھا ہے کہ انھوں نے بعض صحابہ کو جرابوں پر مسح کرتے دیکھا لیکن ایک تو اس دور میں پتلی جرابوں کا رواج نہیں تھا دوسرا فقہا نے اس کی صراحت کی ہے کہ ایسی موٹی جرابیں جس میں پانی مٹی ہوا کا گذر نا ہوتا ہو وہ موزوں کے حکم میں ہیں صرف ان کے اجازت ہے عام پتلی سوتی یا نائیلون کی جرابوں پر مسح کرنے کی بالکل اجازت نہیں ہے نہ اس سے وضو ہوتا ہے اور نہ ایسے وضو سے نماز ہوتی ہے جن لوگوں نے پتلی جرابوں پر مسح کی اجازت دی ہے انھوں نے قیاس وگمان سے کام لیا ہے کہ غالبا صحابہ نے جو جرابیں پہن رکھی تھیں وہ پتلی تھیں۔ نماز جیسے اہم فریضے میں ایک فرض حکم کے اندر ایسے قیاس وگمان پر عمل نہیں کیا جا سکتا جس سے نماز کے ضائع ہو جانے کا ڈر ہو۔ اس کے علاوہ پتلی جرابوں میں پسینہ اور مٹی کے جمع ہونے سے جو سخت بدبو پیدا ہو جاتی ہے وہ بھی طہارت اور پاکیزگی کی اصول اور روح کے سخت خلاف ہے

ننگے سر نماز پڑھنا

[ترمیم]
  1. یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ۔۔۔ ترجمہ: اے آدم کی اولاد زینت اختیار کرو جب مسجد میں جاؤ [15] زینت میں ایسا لباس داخل ہے جو پاک، صاف ستھرا ہو اور ناقص نہ ہو اور ایسا معمولی نا یو جو پہن کر انسان کسی سرکاری افسر کے پاس نا جا سکتا ہو۔ ننگے سر ناقص لباس بھی ہے اور اس کا رواج صرف دور انگریز سے پڑا ہے اس سے پہلے مسلمان ہمیشہ پگڑی، عمامہ یا ٹوپی سر پر رکھتے تھے۔ عرب میں ٹوپی اور رومال رکھا جاتا ہے
  2. جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور آپ ایک کالی پگڑی باندھے ہوئے تھے [16] یہی وہ زینت یے جسے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
  3. حریث ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو منبر پر دیکھا ، آپ کالی پگڑی باندھے ہوئے تھے جس کا کنارہ آپ نے اپنے کندھوں پر لٹکا رکھا تھا [17] ایسے معمولی کپڑے جنہیں پہن کر انسان کسی مہمان یا دفتر یا شرفا کی مجلس میں نا جا سکتا ہو یا ننگے سر اور ننگی کہنیاں یا ٹراوزر شرٹ جس میں جسمانی ابھار ظاہر ہوں اس حکم کے خلاف ہیں اگرچہ نماز ہو جاتی ہے.
  4. ابن ابی اوس ؒ کہتے ہیں کہ میرے دادا اوس ؓ کبھی نماز پڑھتے ہوئے مجھے اشارہ کرتے تو میں انھیں ان کے جوتے دے دیتا (وہ پہن لیتے اور نماز پڑھتے) اور (پھر نماز کے بعد) کہتے : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے جوتے پہن کر نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ [18] اس سے معلوم یوتا ہے کہ ہر حدیث سنت نہیں ہوتی بعض احادیث خاص حالتوں میں جواز کے لیے بھی ہوتی ہیں۔ جیسے جوتے صاف یوں اور پولیس والا یا فوجی دوران ڈیوٹی نماز پڑھنا چاہے. اسی طرح ننگے سر نماز پڑھنے کا جواز ہے جب پاس کپڑا یا ٹوپی نہ ہو، عام سنت نہیں۔ جو ننگے سر کی کسی روایت سے مستقل ایسے نماز پڑھتے ہیں انھیں چاہیے کہ جوتے والی روایت سے مستقل جوتے پہن کر بھی نماز پڑھیں جبکہ وہاں وہ ایسا نہیں کرتے۔

صف بندی کرنا اور خلا نا چھوڑنا

[ترمیم]
صف بندی میں تین چیزیں ضروری ہیں۔ 
  1. تسویہ: یعنی صف برابر ہو، اس میں خم نہ ہو، مقتدی آگے پیچھے نہ ہوں، سب کی گردنیں، شانے، ٹخنے محاذی یعنی ایک خط پرواقع ہوں۔ سیدنا نعمان ؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے ۔ ” تم اپنی صفیں سیدھی رکھو وگرنہ اللہ تعالیٰ تم میں مخالفت پیدا کر دے گا ۔ “ [19]
  2. اتمام: یعنی جب تک اگلی صف مکمل نہ ہو جائے، اُس وقت تک دوسری صف شروع نہ کی جائے۔حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا پہلے اگلی پھر اس کے بعد والی صفوں کو مکمل کیا کرو اور کوئی کمی ہو تو وہ آخری صف میں ہونی چاہیے۔ [20]
  3. تراص: یعنی نمازی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوں،اس طرح کہ ایک کا کندھا دوسرے کے کندھے کے ساتھ ملا ہو،ان میں فاصلہ نہ ہو۔ جابر بن سمرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم لوگ اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس کرتے ہیں ؟ “ ، ہم نے عرض کیا : فرشتے اپنے رب کے پاس کس طرح صف بندی کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” پہلے اگلی صف پوری کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔ [21]

مل کر اس طرح کھڑا ہونا کے اعضا ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جائیں اور قطعا کوئی خلا درمیان میں باقی نا رہے ممکن نہیں بلکہ ایسا کرنے سے نماز کا خشوع خضوع بھی ختم ہوجاتا یے اور ساری توجہ ساتھ والے نمازیوں کی طرف رہتی یے اس لیے نا تو درمیان میں خلا ہو اور نا سارے اعضا جوڑ کے کھڑا ہو بلکہ نرمی سے کپڑے ایک دوسرے سے مس ہو جائیں تو صف بندی اور خلا کا تقاضا پورا ہوجاتا ہے۔ اور صف سیدھا کرنے کے لیے آج کل چٹائیاں اور ایسے قالین بچھائے جاتے ہیں جس سے پاوں کو پاوں سے جوڑنے کی ضرورت نہیں برابر رکھ کر کھڑا ہوجائے تو صف سیدھی ہو جاتی ہے۔ پاوں کا درمیانی فاصلہ جسم کی مناسبت سے ہونا چاہیے واللہ اعلم

نماز کی نیت کرنا

[ترمیم]
  1. إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى۔۔ ترجمہ: عمر بن الخطاب ؓ سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔ [22] نماز اسلام کی اہم ترین عبادت ہے اور اس کا اسلامی کردار کی تشکیل میں بہت اہم کردار ہے اس لیے اس کا اللہ کے دھیان سے اور اس کی رضا کے جذبے یعنی اخلاص سے ہونا بہت ضروری ہے رسمیت اور ریا سے پاک ہونا بھی بہت ضروری ہے اس لیے اس کو پڑھنے میں بھی حصول رضائے الہی کی نیت کرنی چاہیے نہ یہ دکھلاوے کے لیے ہو نا رسمیت کے تحت ہو البتہ اس چیز میں اختلاف ہے کہ اس کو زبان سے دہرانا ضروری ہے یا کہ دل میں اس کا خیال کر لے زبان سے دہرانا اپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے لیے ثابت نہیں ہے لیکن اگر کوئی دل کے اعتقاد کو پکا کرنے کے لیے زبان سے دہرا بھی لیتا ہے تو اس میں کوئی اتنی بڑی قباحت یا کراہت نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ ظاہر کرتے ہیں اور نہ زبان سے دوہرانے کو اتنا لازمی سمجھنا چاہیے کہ تکبیر اولی بھی گذر جاتی ہے اور بعض لوگ نیت کو دہراتے رہتے ہیں۔
  2. عمر ؓ نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس رات ایک میرے رب کی طرف سے آنے والا آیا ۔ نبی کریم ﷺ اس وقت وادی عقیق میں تھے اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھئیے اور کہئیے کہ عمرہ اور حج (کی نیت کرتا ہوں) [23] اگرچہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت پہلے سے حج اور عمرے کی تھی لیکن پھر بھی فرشتے نے اپ ﷺ کی زبان سے اس کو کہلوایا عبادات اپس میں ہم جنس ہیں ایک کا قیاس دوسری پر کیا جا سکتا ہے اس لیے اگر کوئی اس نیت سے نماز میں داخل ہونے سے پہلے نیت کے الفاظ دہرا لے تاکہ جن چیزوں کو چھوڑ کر ایا ہے ان کا دھیان بھی نکل جائے اور نماز کے لیے ہمہ تن متوجہ ہو جائے تو اس میں کوئی اتنی بڑی کراہت یا قباحت نہیں ہے اسلام کے مقاصد اور روح کے عین مطابق ہے لیکن اس کو لازم واجب اور ضروری نہ سمجھے بلکہ مراقبے کی نیت سے کرے کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں اور کون سی نماز پڑھنے جا رہا ہوں اور اس کی کتنی رکعت ہے اس سے نماز میں دھیان خشوع و خضوع پیدا ہوگا اور بھولنے سے حفاظت رہے گی۔

تکبیر تحریمہ میں ہاتھ کہاں تک اٹھائے

[ترمیم]
  1. راوی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کو دیکھا آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنے کانوں کی لو تک لے گئے۔ [24]
  2. وائل بن حجر ؓ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز ضرور دیکھوں گا (کہ آپ کیسے نماز پڑھتے ہیں تو میں نے دیکھا) آپ ﷺ نے اللہ اکبر کہا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ میں نے آپ کے دونوں انگوٹھوں کو آپ کی دونوں کانوں کے قریب دیکھا [25]
  3. پھر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہہ کر دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ انھیں اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل کیا [26]

اگرچہ بعض روایات میں کندھوں تک ہاتھ اٹھانا بھی اتا ہے لیکن دونوں میں تطبیق اس طرح سے ہے کہ ہاتھ کا اوپر والا سرا کانوں کے برابر ہو جائے اور نیچے والا کندھوں کے برابر علاوہ ازیں کانوں والی حدیث پر عمل کرنے سے کندھوں والی حدیث پر عمل ہو جاتا ہے جبکہ کندھوں والی حدیث پر عمل کرنے سے کانوں والی حدیث سے محروم ہو جاتا ہے

قیام میں ہاتھ کہاں باندھے

[ترمیم]

قیام میں ہاتھ پکڑنا

[ترمیم]
  1. وائل بن حجر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز میں کھڑے ہوتے تو اپنے داہنے ہاتھ سے اپنا بایاں ہاتھ پکڑتے۔ [27]
  2. پھر اپ ﷺ نے بایاں ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑا [28]
  3. پھر اپ ﷺ نے دائیں ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو پکڑا [29]
  4. ہلب طائی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری امامت کرتے تو بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔[30]

ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا

[ترمیم]
  1. عن علِيٍّ رَضيَ اللهُ عنه قال: السُّنَّةُ وَضعُ الكَفِّ على الكَفِّ في الصَّلاةِ تَحتَ السُّرَّةِ. علی ؓ سے روایت ہے کہ سنت یہ ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ پر رکھے ناف سے نیچے ۔ الراوی | علي بن أبي طالب | المحدث : أبو داود | المصدر : سنن أبي داود | الصفحة أو الرقم : 756 | خلاصة حكم المحدث : سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
  2. عن علِيٍّ رَضِيَ اللهُ عنه قالَ: السُّنَّةُ وَضْعُ الكَفِّ على الكَفِّ في الصَّلاةِ تحتَ السُّرَّةِ. الراوي : أبو جحيفة | المحدث : عبد الحق الإشبيلي | المصدر : الأحكام الوسطى | الصفحة أو الرقم : 1/ 369 | خلاصة حكم المحدث : سكت عنه [وقد قال في المقدمة: وإن لم تكن فيه علة كان سكوتي عنه دليلا على صحته]
  3. رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ وضعَ يمينَه على شمالِه في الصَّلاةِ زادَ لفظَ تحتَ السُّرَّةِ۔ الراوي : وائل بن حجر | المحدث : المباركفوري | المصدر : تحفة الأحوذي | الصفحة أو الرقم : 1/539 | خلاصة حكم المحدث : وإن كان إسناده جيد

ناف سے اوپر ہاتھ باندھنا

[ترمیم]
  1. رأيتُ عليًّا يُمسِكُ شمالَهُ بيمينِهِ على الرُّسغِ فوقَ السُّرَّةِ. میں نے علی ؓ کو دیکھا کہ وہ دائیں ہاتھ سے پائیں ہاتھ کو کلائی سے پکڑے ہوئے ناف کے اوپر رکھتے ہوئے۔ الراوي : جرير الضبي | المحدث : الألباني | المصدر : أصل صفة الصلاة | الصفحة أو الرقم : 1/217 | خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن
  2. رأيتُ عليًّا يُمسِكُ شمالَهُ بيمينِهِ على الرُّسغِ فوقَ السُّرَّةِ ۔ الراوي : جرير الضبي | المحدث: المباركفوري | المصدر: تحفة الأحوذي | الصفحة أو الرقم : 1/539 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
  3. رأيتُ عليًّا يمسِكُ شمالَهُ بيمينِهِ على الرُّسغِ فوقَ السُّرَّةِ۔ الراوي : جرير الضبي | المحدث : المباركفوري | المصدر : تحفة الأحوذي | الصفحة أو الرقم: 1/540 | خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح أو حسن
  4. رأيتُ عليًّا رضي اللهُ عنهُ يَمسكُ شمالَهُ بيمينِه على الرَّسْغِ فوقَ السُّرَّةِ۔ الراوي : جرير الضبي | المحدث : الألباني | المصدر : إرواء الغليل | الصفحة أو الرقم : 2/70 | خلاصة حكم المحدث : إسناده محتمل للتحسين

سینے پر ہاتھ رکھنا

[ترمیم]
  1. كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلم يضعُ اليمنَى على يدهِ اليسرَى ثمَّ يشدُّ بينهما على صدرهِ وهو في الصلاةِ۔ ترجمہ: نبی پاک ﷺ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر اسے سینہ پر باندھ لیتے الراوی: طاووس بن كيسان اليماني | المحدث: الألباني | المصدر : أصل صفة الصلاة، الصفحة أو الرقم : 1/217 | خلاصة حكم المحدث : مرسل
  2. كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يَضَعُ يَدَه اليُمنى على يَدِه اليُسرى، ثمَّ يشُدُّ بينهما على صَدْرِه وهو في الصَّلاةِ۔ الراوي : طاووس بن كيسان اليماني | المحدث : أبو داود | المصدر : سنن أبي داود | الصفحة أو الرقم :759 | خلاصة حكم المحدث : سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح] مرسل
  3. كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلم يضعُ يدَه اليمنى على يدِه اليسرَى ثمَّ يشدُّ بينهما على صدرِه وهو في الصَّلاةِ۔ الراوي : طاووس بن كيسان اليماني | المحدث : العظيم آبادي | المصدر : عون المعبود | الصفحة أو الرقم : 2/267 | خلاصة حكم المحدث : مرسل
  4. كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يضَعُ يدَهُ اليُمنى علَى يدِهِ اليُسرى، ثمَّ يشدُّ بينَهُما على صدرِهِ وَهوَ في الصَّلاةِ۔ الراوي : طاووس بن كيسان اليماني | المحدث : الألباني | المصدر: صحيح أبي داود | الصفحة أو الرقم: 759 | خلاصة حكم المحدث : صحيح مرسل مرسل روایت وہ ہوتی ہے جو تابعی براہ راست نبی ﷺ سے روایت کرے۔ احکام میں یہ ضعیف کا درجہ رکھتی ہے
  5. سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے۔ [31] ذراع کے معنی بازو کے ہیں۔ اس میں سینے کے الفاظ نہیں، یاتھ کو بازو پر رکھنے کا یہ چھوٹی انگلی اور انگوٹھے سے کلائی کو پکڑے اور باقی ہاتھ بازو پر۔ بازو پر بازو مراد لیا جائے تو یہ بغیر سینے پر رکھنے کے بھی ممکن ہے۔

خلاصہ

[ترمیم]

ناف سے نیچے اور اوپر کی روایات صحیح ہیں لیکن سینے والی روایت غیر صریح اور مرسل ہے۔ اسی لیے امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں: صحابہ کرام ، تابعین اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ انھیں ناف کے اوپر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکھے ، ان کے نزدیک ان سب کی گنجائش ہے۔ ۔[32] اگر ان روایات کو جمع کیا جائے تو دو چیزیں مشترک ملتی ہیں ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے پکڑنا ناف سے نیچے یا اوپر رکھنا۔ سینے کی ساری روایات مرسل ہے جو ضعیف کا درجہ رکھتی ہے اور ایک ہاتھ کو دوسرے بازو پر رکھنے کی شکل ناف سے نیچے یا اوپر بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے سینے کا قیاس ضروری نہیں

امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا

[ترمیم]

قرات اور قرآن

[ترمیم]

وَاِذَا قُرِئَ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَهٗ وَاَنۡصِتُوۡا لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ‏ ۞ ترجمہ: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو۔ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ [33] تفسیر: .. اس کی اور زیادہ تاکید ہو جاتی ہے جبکہ فرض نماز میں امام با آواز بلند قرأت پڑھتا ہو۔جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ امام اقتداء کیے جانے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ جب وہ تکبیر کہے، تم تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے، تم خاموش رہو [34] ۔.. زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس انصاری نوجوان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کی عادت تھی کہ جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کچھ پڑھتے، یہ بھی اسے پڑھتا۔ پس یہ آیت اتری۔ مسند احمد اور سنن میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز سے فارغ ہو کر پلٹے جس میں آپ نے باآواز بلند قرأت پڑھی تھی۔ پھر پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ پڑھا تھا؟ ایک شخص نے کہا: ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بھی کہہ رہا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن کی چھینا جھپٹی ہو رہی ہے [35] راوی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان نمازوں میں جن میں آپ اونچی آواز سے قرأت پڑھا کرتے تھے، قرأت سے رک گئے جبکہ انھوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن کہتے ہیں اور ابوحاتم رازی اس کی تصحیح کرتے ہیں۔ [36]

امام کے پیچھے خاموش رہنے کے دلائل

[ترمیم]
  1. ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا "امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو جب وہ قرات کرے تم خاموش ہو جاو جب وہ ولاالضالیں کہے تم آمین کہو۔" [37]
  2. یہی مرفوع روایت ابوموسی اشعری ؓ سے بھی مروی ہے۔ [38]
  3. صحابی رسول ﷺ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ (مفتی مدینہ اور جامع قرآن) سے امام کے پیچھے قرات کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا امام کے پیچھے کسی چیز میں قرات نہیں۔ لا قرآت مع الامام فی شے۔ [39]
  4. بخاری کی روایت "فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی" کی صحابی جابر بن عبد اللہ سے تشریح۔ "یہ تب ہے جب امام کے پیچھے نہ ہو۔ الا ان یکون وراءالامام"۔ [40]
  5. یہ روایت پوری اس طرح سے ہے۔ عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ مزید نہ پڑھے “ ۔ </ref> سنن نسائی، حدیث نمبر: 912 --- حکم البانی: صحيح </ref> یہ منفرد کے لیے ہے
  6. ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تشریح۔ "جب تم امام کے پیچھے یو تو اسے دل میں پڑھو۔ اقرا بھا فی نفسک" [41]
  7. دل میں پڑھنے کی تشریح کے لیے دیکھیں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت "فاذا قراء فانصتوا" [42]
  8. دوسری تشریح کے لیے دیکھیں "وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ"۔ ذکر کر اپنے رب کا دل میں عاجزی اور خوف سے اور آہستہ آواز سے بھی۔ [43]
  9. جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس کے لیے امام ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے “ [44]

کچھ نا پڑھو سوائے فاتحہ کے

[ترمیم]
  1. عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ نماز فجر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے ، آپ نے قرآت شروع کی تو وہ آپ پر دشوار ہو گئی ، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا : ” شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو ؟ “ ، ہم نے کہا : ہاں ، اللہ کے رسول ! ہم جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو ، کیونکہ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی. [45]
  2. عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فجر پڑھی ، آپ پر قرأت دشوار ہو گئی ، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا : ” مجھے لگ رہا ہے کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو ؟ “ ہم نے عرض کیا : جی ہاں ، اللہ کی قسم ہم قرأت کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا : ” تم ایسا نہ کیا کرو سوائے سورۃ فاتحہ کے اس لیے کہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ہے “ [46]
  3. عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کچھ نمازیں پڑھائیں جن میں قرآت بلند آواز سے کی جاتی ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”جب میں بآواز بلند قرآت کروں تو تم میں سے کوئی بھی سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھے“ [47]

امام کے لیے بسم اللہ اور آمین کہنا

[ترمیم]

آمین جہرا کہنا بغرض تعلیم تھا

[ترمیم]
  1. حضرت وائل سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے غیر المغضوب علیم ولا الضالین پڑھ کر آمین کہی اور آواز کو بلند کیا میرا گمان یہ ہے کہ حضورﷺ نے ہم کو تعلم دینے کی غرض سے بلند آواز سے آمین کہی۔ [48] اور جب امت کو تعلیم ہو گئی تو حضورﷺنے سرا کہنا شروع کر دیا۔
  2. علقمہ بن وائل ؓ اپنے والد وائل ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کے پیچھے نماز پڑھی ہے، جب رسول اﷲﷺ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پر پہنچے، تو آپ نے آہستہ سے آمین کہی، [49]
  3. ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہ پانچ چیزیں (امام کو) آہستہ آواز سے کہنی چاہئیں، سبحانک اللھم وبحمدک، اعوذ باﷲ، بسمﷲالرحمن الرحیم، آمین اور اللھم ربنا ولک الحمد [50]
  4. ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا امام چار چیزیں آہستہ آواز سے کہے اعوذباللہ، بسم اﷲالرحمٰن الرحیم، آمین اور اللہم ربنا لک الحمد ، [51]

بسم اللہ آہستہ کہنا

[ترمیم]
  1. ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ "الحمد للہ رب العالمين" سے قراءت شروع کرتے تھے [52]
  2. انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرو عمر ؓ "الحمد للہ رب العالمين" سے قراءت شروع کرتے تھے [53]
  3. ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ « الحمد للہ رب العالمين » سے قراءت شروع فرماتے تھے [54]

رفع الیدین

[ترمیم]

صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اتھانا

[ترمیم]
  1. علقمہ کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے کہا : ”کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی طرح نماز نہ پڑھاؤں ؟ تو انھوں نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے" [55]
  2. علقمہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے کہا: "کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھاؤں ؟ علقمہ کہتے ہیں : پھر ابن مسعود ؓ نے نماز پڑھائی ، تو رفع یدین صرف ایک بار (نماز شروع کرتے وقت) کیا" [56]
  3. عبد اللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ "کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھاؤں ؟ چنانچہ انھوں نے ہمیں نماز پڑھائی ، تو انھوں نے صرف ایک بار رفع یدین کیا". [57]
  4. عبد اللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ "کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ بتاؤں ؟ چنانچہ وہ کھڑے ہوئے اور پہلی بار اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا ، پھر انھوں نے دوبارہ ایسا نہیں کیا" [58]

متابعت احادیث عدم رفع الیدین

[ترمیم]
  1. قالَ عبدُ اللَّهِ بنُ مسعودٍ : ألا أصلِّي بِكم صلاةَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فصلَّى ، فلَم يرفع يديهِ إلَّا في أوَّلِ مرَّةٍ ۔ الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الترمذي| الصفحة أو الرقم : 257 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
  2. قالَ عبدُ اللَّهِ بنُ مسعودٍ : ألا أصلِّي بِكُم صَلاةَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فصلَّى فلَم يرفَع يديهِ إلَّا في أوَّلِ مرَّةٍ۔ الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : الترمذي | المصدر : سنن الترمذي | الصفحة أو الرقم : 257 | خلاصة حكم المحدث : حسن
  3. ألَا أُصلِّي بكم صلاةَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم؟ فصلَّى, فلم يرفَعْ يدَيْهِ إلَّا في أوَّلِ مرَّةٍ. الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : أحمد شاكر | المصدر : تخريج سنن الترمذي | الصفحة أو الرقم : 2/40 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
  4. ألا أخبرُكم بصَلاةِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ قالَ : فقامَ فرفعَ يديْهِ أوَّلَ مرَّةٍ ، ثمَّ لم يعُدْ ۔ الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح النسائي | الصفحة أو الرقم : 1025 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
  5. ألا أصلِّي بِكم صلاةَ رسولِ اللَّهِ فصلَّى فلم يرفع يدَيهِ إلَّا مرَّةً واحدةً۔ الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح النسائي | الصفحة أو الرقم : 1057 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
  6. قالَ عبداللَّه بنُ مَسعودٍ : ألا أصلِّي بِكُم صَلاةَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قالَ: فصلَّى فلَم يرفَعْ يديهِ إلَّا مرَّةً ۔ الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح أبي داود | الصفحة أو الرقم : 748 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
  7. قال : ألا أصلِّي لكم صلاةَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ؟ قال عَلقَمةُ : فصلَّى ، فلم يرفعْ يديهِ إلَّا أوَّلَ مرَّةٍ ۔ الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : الألباني | المصدر : أصل صفة الصلاة| الصفحة أو الرقم : 2/610 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
  8. أنَّ عليًّا رضيَ اللهُ عنهُ كان يرفعُ يديهِ في أولِ تكبيرةٍ من الصلاةِ ثم لا يعودُ يرفعُ ۔ الراوي : كليب بن شهاب الجرمي | المحدث : الزيلعي | المصدر : نصب الراية | الصفحة أو الرقم : 1/406 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
  9. قال عبدِ اللهِ بنِ مسعودٍ ألا أصلي بكم صلاةَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فصلى فلم يرفع يديهِ إلا في أولِ مرةٍ ۔ الراوي : علقمة بن قيس | المحدث : الزيلعي | المصدر : نصب الراية | الصفحة أو الرقم : 1/394 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
  10. قال ابنُ مسعودٍ : ألا أُصلِّي لكم صلاةَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قال : فصلَّى فلم يرفع يديهِ إلا مرةً ۔ الراوي : علقمة بن قيس | المحدث : أحمد شاكر | المصدر : تخريج المسند لشاكر | الصفحة أو الرقم : 5/251 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
  11. قال ابنُ مَسعودٍ: ألَا أُصلِّي لكم صلاةَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ؟ قال: فصلَّى، فلم يرفَعْ يدَيه إلَّا مرَّةً. ۔ الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : شعيب الأرناؤوط | المصدر : تخريج المسند لشعيب | الصفحة أو الرقم : 3681 | خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات
  12. ألَا أُصلِّي بكم صلاةَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ. قال: فصَلَّى فلم يَرفَعْ يَدَيْه إلَّا مرةً. ۔ الراوي : - | المحدث : شعيب الأرناؤوط | المصدر : تخريج زاد المعاد | الصفحة أو الرقم : 1/211 | خلاصة حكم المحدث : رجال إسناده ثقات
  13. أنَّه كان يرفَعُ يدَيْه في أوَّلِ تَكبيرةٍ، ثُم لا يَعودُ. ۔ الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : شعيب الأرناؤوط | المصدر : تخريج مشكل الآثار | الصفحة أو الرقم : 5826 | خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات
  14. أنَّ عليًّا رضيَ اللَّهُ عنهُ كانَ يرفعُ يديهِ في أوَّلِ تَكْبيرةٍ مِنَ الصَّلاةِ، ثمَّ لا يَرفعُ بعدُ ۔ الراوي : كليب | المحدث : العيني | المصدر : نخب الافكار | الصفحة أو الرقم : 4/174 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
  15. أنه صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ كان يرفعُ يَديهِ في أوَّلِ تَكْبيرةٍ، ثمَّ لا يَعودُ ۔ الراوي : عبدالله | المحدث : العيني | المصدر : نخب الافكار ۔ الصفحة أو الرقم : 4/163 | خلاصة حكم المحدث : [له] إسنادان صحيحان
  16. أنَّ عليًّا رضيَ اللَّهُ عنهُ كانَ يرفعُ يدَيهِ إذا افتتحَ الصَّلاةَ ثمَّ لا يَعودُ ۔ الراوي : كليب | المحدث : العيني | المصدر : نخب الافكار ۔ الصفحة أو الرقم : 4/171 | خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد
  17. رأيتُ عمرَ بنَ الخطَّابِ رضيَ اللَّهُ عنهُ يرفعُ يديهِ في أوَّلِ تَكْبيرةٍ، ثمَّ لا يعودُ، قالَ: ورأيتُ إبراهيمَ، والشَّعبيَّ يفعلانِ ذلِكَ ۔ الراوي : الأسود | المحدث : العيني | المصدر : نخب الافكار ۔ الصفحة أو الرقم : 4/190 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
  18. أنَّ عليًّا كانَ يرفعُ يديهِ في أوَّلِ تكبيرةٍ منَ الصَّلاةِ ثمَّ لا يرفعُ بعدُ ۔ الراوي : كليب بن شهاب الجرمي | المحدث : العيني | المصدر : عمدة القاري ۔ الصفحة أو الرقم : 5/400 | خلاصة حكم المحدث : صحيح على شرط مسلم
  19. رأيت عمرَ بنَ الخطابِ رضيَ اللهُ عنهُ يرفعُ يدَيه في أولِ تكبيرةٍ ثم لا يعودُ ۔ الراوي : الأسود بن يزيد | المحدث : الطحاوي | المصدر : شرح معاني الآثار | الصفحة أو الرقم : 1/227 | خلاصة حكم المحدث : [فيه] الحسن بن عياش مداره عليه وهو ثقة حجة
  20. أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كان يَرفَعُ يديْهِ إذا افتَتَحَ الصَّلاةَ ثم لا يَعودُ. الراوي : عبدالله بن عمر | المحدث : علاء الدين مغلطاي | المصدر : شرح ابن ماجه لمغلطاي | الصفحة أو الرقم : 3/450 | خلاصة حكم المحدث : لا بأس بسنده
  21. أنَّ عليًّا كان يرفعُ يدَيْهِ في أوَّلِ تكبيرةٍ مِن الصَّلاةِ ، ثمَّ لا يعودُ ۔ الراوي : كليب بن شهاب الجرمي | المحدث : ابن حجر العسقلاني | المصدر : الدراية تخريج أحاديث الهداية | الصفحة أو الرقم : 1/152 | خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات
  22. ألا أُخبرُكم بصلاةِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قال فقام فرفع يدَيه أولَ مرةٍ ثم لم يعُدْ ۔ الراوي: عبدالله بن مسعود | المحدث : محمد بن عبد الهادي السندي | المصدر : حاشية السندي على النسائي | الصفحة أو الرقم : 2/525 | خلاصة حكم المحدث : تكلم ناس في ثبوت هذا الحديث والقوي أنه ثابت من رواية عبدالله بن مسعود
  23. أَلَا أُصَلِّي بِكم صَلاةَ رَسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ؟ قالَ: فصلَّى فلم يَرفَعْ يَدَيه إلَّا مَرَّةً. الراوي: عبد الله | المحدث : عبد الحق الإشبيلي | المصدر : الأحكام الوسطى | الصفحة أو الرقم : 1/ 367 | خلاصة حكم المحدث : سكت عنه [وقد قال في المقدمة: وإن لم تكن فيه علة كان سكوتي عنه دليلا على صحته]
  24. رأيتُ عُمَرَ بنَ الخطابِ رضِيَ اللهُ عنه رَفَعَ يديْهِ في أوَّلِ تكبيرِه ثم لا يعودُ ۔ الراوي : الأسود بن يزيد | المحدث : الكمال بن الهمام | المصدر : شرح فتح القدير | الصفحة أو الرقم : 1/319 | خلاصة حكم المحدث : سنده صحيح
  25. رأيتُ عمرَ بنَ الخطابِ رفعَ يديْهِ في أولِ تكبيرةٍ ، ثمَّ لا يعودُ ۔ الراوي : الأسود بن يزيد | المحدث : ملا علي قاري | المصدر : الأسرار المرفوعة | الصفحة أو الرقم : 471 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
  26. رأيتُ عمرَ بنَ الخطَّابِ رفع يدَيْه في أوَّلِ تكبيرةٍ , ثمَّ لا يعودُ ۔ الراوي : الأسود بن يزيد | المحدث : ملا علي قاري | المصدر : شرح مسند أبي حنيفة | الصفحة أو الرقم : 38 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
  27. عنِ ابنِ مسعود رضي اللهُ عنه أنه رأى النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يَرفَعُ يدَيه عندَ الافتِتاحِ ثم لا يعودُ ۔ الراوي: عبد اللہ بن مسعود | المحدث : السفاريني الحنبلي | المصدر : كشف اللثام | الصفحة أو الرقم : 2/339 | خلاصة حكم المحدث : صححه بعض أهل الحديث
  28. لأصلِّينَّ بِكُم صلاةَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قالَ : فصلَّى فلم يرفَعْ يديهِ إلَّا مرَّةً واحدةً ۔ الراوي: عبدالله بن مسعود | المحدث : ابن التركماني | المصدر : الجوهر النقي | الصفحة أو الرقم : 2/78 | خلاصة حكم المحدث : رجال هذا الحديث على شرط مسلم

سجدوں سے پہلے اور بعد میں ہاتھ اٹھانا

[ترمیم]
  1. سیّدنا مالک بن حویرث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا جب آپ رکوع کرنے کا ارادہ کرتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے اور جب سجدوں سے اپنا سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے حتی کہ انھیں اپنے کانوں کے اوپر والے حصے کے برابر کرتے ۔ [59]
  2. حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے نبی ﷺ کو دیکھا آپ اپنی نماز میں جب رکوع کرتے یا رکوع سے سر اٹھاتے یا سجدے میں جاتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے حتی کہ انھیں کانوں کے کناروں کے برابر کرتے ۔ [60]
  3. انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں رفع الیدین کرتے تھے" [61]

رکوع سے پہلے اور بعد میں ہاتھ اٹھانا

[ترمیم]
  1. حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ جب اللہ اکبر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے یہاں تک کہ انھیں اپنے کانوں کے برابر لے جاتے اور جب رکوع کرتے تو ( پھر ) اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے یہاں تک کہ انھیں اپنے کانوں کے برابر لے جاتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو «سمع الله لمن حمدہ کہتے اور ایسا ہی کرتے [62] [63] [64] [65] [66]
  2. حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ انھوں نے نبی ﷺ کو دیکھا ، آپ نے نماز میں جاتے وقت اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے ، تکبیر کہی ( ہمام نے بیان کیا : کانوں کے برابر بلند کیے ) پھر اپنا کپڑا اوڑھ لیا ( دونوں ہاتھ کپڑے کے اندر لے گئے ) ، پھر اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا ، پھر جب رکوع کرنا چاہا تو اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے ، پھر انھیں بلند کیا ، پھر تکبیر کہی اور رکوع کیا ، پھر جب «سمع الله لمن حمده» کہا تو اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے ، پھر جب سجدہ کیا تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ کیا ۔ [67] [68] [69] [70] [71]
  3. حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح کرتے اور فرماتے : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے ۔ ( ابوزبیر رحمہ اللہ کے شاگرد ) حضرت ابراہیم بن طہمان رحمہ اللہ نے ( حدیث بیان کرتے وقت ) کانوں تک ہاتھ اٹھائے ۔ [72]

سجدہ جاتے وقت پہلے زمین پر کیا رکھے

[ترمیم]

پہلے ہاتھ پھر گھٹنے کی روایات

[ترمیم]
  1. حفِظنا عن عمرَ في صلاتهِ أنه خرَّ بعدَ ركوعهِ على ركبتيهِ ، كما يخِرُّ البعيرُ ، ووضع ركبتيهِ قبلَ يديهِ۔ ہم نے عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی نماز کو محفوظ کیا کہ وہ رکوع کے بعد گھٹنوں کے بل گرے، جس طرح اونٹ گرتا ہے اور انھوں نے اپنے گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پہلے رکھا۔ الراوي : علقمة والأسود | المحدث : الألباني | المصدر : أصل صفة الصلاة الصفحة أو الرقم : 2/717 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
  2. حفِظنا مِن عمرَ رضيَ اللَّهُ عنهُ في صلاتِهِ أنَّهُ خرَّ بَعدَ رُكوعِهِ على رُكْبتيهِ كما يخرُّ البَعيرُ ووَضعَ رُكْبتيهِ قبلَ يَديهِ الراوي : علقمة والأسود | المحدث : العيني | المصدر : نخب الافكار الصفحة أو الرقم : 4/414 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
  3. أنَّه كانَ إذا سجَدَ وضَعَ رُكبتَيْه قبْلَ يدَيْه. جب سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے۔ الراوي : وائل بن حجر | المحدث : ابن باز | المصدر : فتاوى نور على الدرب لابن باز الصفحة أو الرقم : 8/114 | خلاصة حكم المحدث : ثابت
  4. رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ إذا سَجَدَ وَضَعَ رُكبَتَيْه قَبْلَ يَدَيْه، وإذا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْه قَبْلَ رُكبَتَيْه .میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنے اپنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے اور جب اٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے۔ الراوي : وائل بن حجر | المحدث : أبو داود | المصدر : سنن أبي داود الصفحة أو الرقم : 838 | خلاصة حكم المحدث : سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح
  5. رأَيْتُ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا سجَد وضَع رُكبتَيْه قبْلَ يدَيْهِ وإذا نهَض رفَع يدَيْه قبْلَ رُكبَتَيْه الراوي : وائل بن حجر | المحدث : ابن حبان | المصدر : صحيح ابن حبان الصفحة أو الرقم : 1912 | خلاصة حكم المحدث : أخرجه في صحيحه
  6. رَأيتُ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا سجَد وضَع رُكبَتَيه قبلَ يدَيه وإذا نهَض رفَع يدَيه قبلَ رُكبَتَيه الراوي : وائل بن حجر | المحدث : ابن الملقن | المصدر : تحفة المحتاج الصفحة أو الرقم : 1/311 | خلاصة حكم المحدث : صحيح أو حسن
  7. رأيْتُ النَّبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ إذا سجَدَ وضَعَ رُكْبتيْه قبْلَ يدَيْه، وإذا نهَضَ رفَعَ يدَيْه قبْلَ رُكْبتيْهِ. الراوي : وائل بن حجر | المحدث : البهوتي | المصدر : كشاف القناع الصفحة أو الرقم : 1/350 | خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد
  8. رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ إذا سجَد وضَع رُكبتَيْه قبلَ يدَيْه، وإذا نهَض رفَع يدَيْه قبلَ رُكبتَيْه. الراوي : وائل بن حجر | المحدث : شعيب الأرناؤوط | المصدر : تخريج سنن أبي داود الصفحة أو الرقم : 838 | خلاصة حكم المحدث : حسن
  9. رأيتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إذا سجَدَ وضعَ رُكبتيهِ قبلَ يديهِ وإذا نَهضَ رفعَ يديهِ قبلَ رُكبتيهِ الراوي : وائل بن حجر | المحدث : ابن القيم | المصدر : زاد المعاد الصفحة أو الرقم : 1/215 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
  10. رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وآلِه وسلَّم إذا سجد وضع ركبتيه قبل يَدَيْهِ وإذا نهض رفع يَدَيْهِ قبل ركبتيه الراوي : وائل بن حجر | المحدث : الشوكاني | المصدر : نيل الأوطار الصفحة أو الرقم : 2/281 | خلاصة حكم المحدث : له متابعة مرسلة
  11. لأنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ إذا سجدَ وضع ركبتيه قبل يديه.کیونکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تھے تو اپنے گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے تھے۔ الراوي : | المحدث : ابن باز | المصدر : فتاوى نور على الدرب لابن باز الصفحة أو الرقم : 8/286 | خلاصة حكم المحدث : حسن
  12. أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ كان إذا سجدَ وضعَ ركبتَيهِ قبلَ يدَيهِ ۔ الراوي : وائل بن حجر | المحدث : ابن باز | المصدر : مجموع فتاوى ابن باز الصفحة أو الرقم : 33/11 | خلاصة حكم المحدث : ثابت
  13. [أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ] كان إذا سجد وضع ركبتَيه قبلَ يدَيه۔ الراوي : وائل بن حجر | المحدث : ابن باز | المصدر : مجموع فتاوى ابن باز الصفحة أو الرقم : 61/11 | خلاصة حكم المحدث : ثابت
  14. أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ كانَ يضعُ رُكْبتيهِ قبلَ يديهِ إذا سجدَ. [وقالَ بعضُ رواةِ الحديثِ]: رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إذا سجدَ وضعَ رُكْبتَيهِ قبلَ يدَيهِ الراوي : وائل بن حجر | المحدث : ابن خزيمة | المصدر : صحيح ابن خزيمة الصفحة أو الرقم : 1/ 653 | خلاصة حكم المحدث : أخرجه في صحيحه

پہلے ہاتھ زمین پر رکھنے کی روایات

[ترمیم]
  1. إذا سَجدَ أحدُكم فلا يَبركُ كما يَبركُ البعيرُ ، وليضع يَديه قبل رُكبَتيه۔ اگر تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح رکوع نہ کرے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے۔ الراوي : أبو هريرة | المحدث : البخاري | المصدر : المحرر في الحديث الصفحة أو الرقم : 116 | خلاصة حكم المحدث : لا يتابع عليه. ولا أدري أسمع من أبي الزناد أم لا | أحاديث مشابهة | الصحيح البديل توضيح حكم المحدث : إشارة إلى ضعف إسناده
  2. إذا سجدَ أحدُكم فلا يبرُكْ كما يبرُكُ البعيرُ وليضعْ يدَيهِ قبلَ رُكبتَيهِ الراوي : أبو هريرة | المحدث : الزركشي الحنبلي | المصدر : شرح الزركشي على الخرقي الصفحة أو الرقم : 1/565 | خلاصة حكم المحدث : قد ضعف
  3. إذا سجدَ أحدُكُم فلا يبرُكْ كَما يبرُكُ البعيرُ، وليَضَعْ يديهِ قبلَ رُكْبتيهِ الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن رجب | المصدر : فتح الباري لابن رجب الصفحة أو الرقم : 5/90 | خلاصة حكم المحدث : لا يثبت
  4. وليضع يديه قبل ركبتيه راوي : أبو هريرة | المحدث : ابن باز | المصدر : مجموع فتاوى ابن باز الصفحة أو الرقم : 34/11 | خلاصة حكم المحدث : [انقلب على بعض الرواة, وصوابه] : وليضع ركبتيه قبل يديه
  5. وليضع يديه قبل ركبتيه الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن باز | المصدر : مجموع فتاوى ابن باز الصفحة أو الرقم : 152/11 | خلاصة حكم المحدث : [غلط من بعض الرواة, وصوابه]: وليضع ركبتيه قبل يديه
  6. وليضع يديه قبل ركبتيه الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن باز | المصدر : مجموع فتاوى ابن باز الصفحة أو الرقم : 159/11 | خلاصة حكم المحدث : [انقلب على بعض الرواة, وصوابه] : وليضع ركبتيه قبل يديه
  7. وليضع يديه قبل ركبتيه الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن باز | المصدر : مجموع فتاوى ابن باز الصفحة أو الرقم : 121/12 | خلاصة حكم المحدث : [انقلب على بعض الرواة, وصوابه] : (وليضع ركبتيه قبل يديه)
  8. وليضعْ يدَيه قبلَ ركبتَيه الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن عثيمين | المصدر : مجموع فتاوى ابن عثيمين الصفحة أو الرقم : 180/13 | خلاصة حكم المحدث : [فيه] وهم من الراوي، وانقلاب عليه
  9. وليضعْ يدَيه قبلَ ركبتَيه الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن عثيمين | المصدر : مجموع فتاوى ابن عثيمين الصفحة أو الرقم : 183/13 | خلاصة حكم المحدث : منقلبة على الراوي
  10. فلا يَبرُكْ أحَدُكم كما يَبرُكُ البعيرُ، وليضَعْ يَدَيه قَبلَ رُكبَتَيه الراوي : أبو هريرة | المحدث : يوسف المقدسي | المصدر : المقرر على أبواب المحرر الصفحة أو الرقم : (1/ 220) | خلاصة حكم المحدث : فيه: محمد بن عبد الله بن حسن قال البخاري: لا يتابع عليه
  11. لا يبرُكْ أحدُكم كما يبركُ البعيرُ وليضعْ يديْه قبل ركبتَيْه. الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن باز | المصدر : فتاوى نور على الدرب لابن باز الصفحة أو الرقم : 8/85 | خلاصة حكم المحدث : في عجزه انقلاب
  12. لا يبركْ أحدُكم كما يبركُ البعيرُ وليضعْ يديْه قبل ركبتَيْه. الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن باز | المصدر : فتاوى نور على الدرب لابن باز الصفحة أو الرقم : 8/114 | خلاصة حكم المحدث : الظاهر أن فيه انقلابا
  13. لا يبركْ أحدُكم كما يبركُ البعيرُ وليضعْ يديْه قبل ركبتيه. الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن باز | المصدر : فتاوى نور على الدرب لابن باز الصفحة أو الرقم : 8/281 | خلاصة حكم المحدث : [زيادة (وليضع يديه قبل ركبتيه) إما إدراج من بعض الرواة إما حصل فيها انقلاب
  14. وليضعْ يديه قبل ركبتيه [في حديثِ لايبركْ أحدُكم كما يبركُ البعيرُ]. الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن باز | المصدر : فتاوى نور على الدرب لابن باز الصفحة أو الرقم : 8/284 | خلاصة حكم المحدث : فيه انقلاب
  15. إذا سَجَدَ أحدُكُم فلا يَبرُكْ كَما يَبرُكُ البَعيرُ، وليَضَعْ يَديهِ قبْلَ رُكْبتيهِ. الراوي : أبو هريرة | المحدث : البخاري | المصدر : حاشية الإلمام لابن عبد الهادي الصفحة أو الرقم : 112 | خلاصة حكم المحدث : تكلم فيه، وقال: لا، يتابع محمد بن عبد الله بن حسن عليه
  16. إذا سَجدَ أحدُكم فلا يَبركُ كما يَبركُ البعيرُ ، وليضع يَديه قبل رُكبَتيه الراوي : أبو هريرة | المحدث : البخاري | المصدر : المحرر في الحديث الصفحة أو الرقم : 116 | خلاصة حكم المحدث : لا يتابع عليه. ولا أدري أسمع من أبي الزناد أم لا
  17. إذا سجد أحدُكم فلا يبرُكُ كما يبركُ البعيرُ وليضعْ يدَيه قبلَ ركبتَيه الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن القيم | المصدر : زاد المعاد الصفحة أو الرقم : 1/216 | خلاصة حكم المحدث : فيه وهم
  18. إذا سَجَدَ أحَدُكم فلا (يَبرُكْ كما يَبرُكُ) البَعيرُ، ولْيَضَعْ يَدَيه قَبْلَ رُكْبتَيه. الراوي : أبو هريرة | المحدث : جمال الدين المرداوي | المصدر : كفاية المستنقع لأدلة المقنع الصفحة أو الرقم : 229 | خلاصة حكم المحدث : حديث وائل بن حجر أثبت من هذا
  19. إذا سَجَدَ أحَدُكم فلا (يَبرُكْ كما يَبرُكُ) البَعيرُ، ولْيَضَعْ يَدَيه قَبْلَ رُكْبتَيه. الراوي : أبو هريرة | المحدث : جمال الدين المرداوي | المصدر : كفاية المستنقع لأدلة المقنع الصفحة أو الرقم : 229 | خلاصة حكم المحدث : من رواية مُحمَّد بن عَبْد اللهِ بن حسن وثقه النسائي، وقال البخاري: لا يتابع عليه، ولا أدري سمع من أبي الزناد أم لا
  20. إذا سجدَ أحدُكم فلا يبرُكْ كما يبرُكُ البعيرُ وليضعْ يدَيهِ قبلَ رُكبتَيهِ الراوي : أبو هريرة | المحدث : الزركشي الحنبلي | المصدر : شرح الزركشي على الخرقي الصفحة أو الرقم : 1/565 | خلاصة حكم المحدث : قد ضعف
  21. إذا سجدَ أحدُكُم فلا يبرُكْ كَما يبرُكُ البعيرُ، وليَضَعْ يديهِ قبلَ رُكْبتيهِ الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن رجب | المصدر : فتح الباري لابن رجب الصفحة أو الرقم : 5/90 | خلاصة حكم المحدث : لا يثبت
  22. إذا سجد أحدُكم فلا يبرُك كما يبرُكُ البعيرُ وليضعْ يديهِ قبلَ رُكبتيهِ الراوي : أبو هريرة | المحدث : الفيروزآبادي | المصدر : سفر السعادة الصفحة أو الرقم : 37 | خلاصة حكم المحدث : وهم من بعض الرواة
  23. إذا سجَد أحَدُكم، فلا يبرُكْ كما يبرُكُ البعيرُ، وَلْيضَعْ يدَيهِ قبل رُكْبتَيهِ. الراوي : أبو هريرة | المحدث : الصنعاني | المصدر : التنوير شرح الجامع الصغير الصفحة أو الرقم : 2/89 | خلاصة حكم المحدث : معلول بيحيى بن سليم بن كهيل قال النسائي متروك وابن حبان منكر جدًّا
  24. إذا سَجَد أحَدُكم فلا يَبرُكْ كما يَبرُكُ البعيرُ، ولْيَضَعْ يَدَيه قَبْلَ رُكْبَتَيه. الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن باز | المصدر : التعليقات البازية على زاد المعاد الصفحة أو الرقم : 109 | خلاصة حكم المحدث : منقلب، والصواب: وليضع ركبتيه قبل يديه
  25. إذا سجد أحدُكم فلا يبركُ كما يبركُ البعيرُ وليضعْ يديه قبل ركبتيهِ الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن باز | المصدر : فتاوى نور على الدرب لابن باز الصفحة أو الرقم : 8/283 | خلاصة حكم المحدث : زيادة ليضع يديه قبل ركبتيه فيها نظر
  26. إذا سجد أحدُكم فلا يبرُكْ كما يبركُ البعيرُ وليضعْ يدَيه قبلَ ركبتَيه الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن عثيمين | المصدر : مجموع فتاوى ابن عثيمين الصفحة أو الرقم : 179/13 | خلاصة حكم المحدث : فيه انقلاب على الراوي

جن روایات میں اتا ہے کہ اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ پہلے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے پھر گھٹنے تو یہ دونوں چیزیں باہم متعارض ہیں کیونکہ اونٹ پہلے اگلی دونوں ٹانگیں جھکاتا ہے جس سے اس کی پیٹھ اونچی ہوجاتی ہے لیکن وہ روایات جن میں یہ اتا ہے کہ اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ پہلے گھٹنوں کو نیچے رکھے اور پھر دونوں ہاتھوں کو تو یہ معنی کے اعتبار سے بہتر ہے کیونکہ اس میں اونٹ کی مخالفت ہے۔ واللہ اعلم

فجر سے طلوع اور عصر سے غروب تک نماز کی ممانعت

[ترمیم]
  1. حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فجر کی نماز کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَشْرُقَ الشَّمْسُ ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ) [73]
  2. ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ نے دو طرح کی خرید و فروخت اور دو طرح کے لباس اور دو وقتوں کی نمازوں سے منع فرمایا ۔ آپ ﷺ نے نماز فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور نماز عصر کے بعد غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا [74]
  3. ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیم ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ فجر کی نماز کے بعد کوئی نماز سورج کے بلند ہونے تک نہ پڑھی جائے ، اسی طرح عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے ۔ [75]

فجر کی جماعت کے دوران سنت پڑھنا

[ترمیم]

فجر کے علاوہ دوسری کوئی بھی فرض نماز شروع ہو چکی ہو تو سنت شروع کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ حضرت محمد ﷺ کا ارشاد ہے :" جب جماعت شروع ہوجائے تو سوائے اس نماز کے کوئی اور نماز نہ پڑھی جائے ۔ «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة» [76] ہاں اگر پہلے سے سنتیں شروع کردی ہوں، پھر فرض نماز شروع ہوجائے تو دو رکعت مکمل کرکے سلام پھیردے اور اگر چار رکعت والی سنت پڑھ رہا ہو اور تیسری رکعت شروع کردی تو جلدی سے چار مکمل کرکے جماعت میں شامل ہوجائے۔ ورنہ دو رکعت پر سلام پھیردے یہ اس کے لیے نفل ہو جائینگی اور سنت کو فرض کے بعد پڑھے۔ نماز نا توڑے۔ کیونکہ قرآن میں ہے وَ لَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ ۔ اور اپنے عمل باطل نہ کرو [77]

  1. البتہ فجر کی سنتوں کی خصوصی تاکید آئی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : "فجر کی سنت دوگانہ کو نہ چھوڑو ، اگرچہ گھوڑے تمھیں روند ڈالیں"۔ عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تتركوا ركعتي الفجر وإن طردتكم الخيل۔ " [78]
  2. ایک روایت میں ہے کہ "فجر کی دو رکعت دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے ان سب سے بہتر ہے"۔عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها۔ [79]
  3. عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کسی سنت نماز کی فجر کی دو رکعتوں سے زیادہ پابندی نہیں کرتے تھے [80]
  4. اور بخاری شریف کی روایات میں پہلے گذر چکا ہے کہ فجر کی نماز کے بعد طلوع تک کوئی نماز نہیں پڑھی جا سکتی [81]
  5. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نیند کی وجہ سے فجر کی سنتیں نہ پڑھ سکے تو آپ نے سورج طلوع ہونے کے بعد ان کی قضا دی ۔ [82]
  6. اسی لیے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ انھوں نے فجر کی اقامت ہونے کے بعد بھی سنتِ فجر کو ادا فرمایا ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے جماعتِ فجر شروع ہونے کے بعد یہ دو رکعتیں ادا کی ہیں عن هشام بن حسان، عن الحسن قال: «إذا دخلت المسجد والإمام في الصلاة، ولم تكن ركعت ركعتي الفجر، فصلهما ثم ادخل مع الإمام»، [83]
  7. عن معمر قال: وكان الحسن يفعله ، [84]
  8. عن الثوري، عن الأعمش، عن أبي الضحى، وعاصم، عن الشعبي: «أن مسروقاً كان يصليهما والإمام قائم يصلي في المسجد»۔ [85]
  9. حضرت عبد اللہ بن مسعود  ؓ سے بھی جماعت شروع ہونے کے بعد سنتِ فجر ادا کرنا ثابت ہے۔ عن أبي إسحاق، عن عبد الله بن أبي موسى قال: «جاءنا ابن مسعود والإمام يصلي الفجر، فصلى ركعتين إلى سارية، ولم يكن صلى ركعتي الفجر»۔ [86]
  10. عن معمر، عن أبي إسحاق، عن عبد الله بن أبي موسى، عن ابن مسعود مثله، [87]
  11. حضرت عبد اللہ بن عباس  ؓ اور حضرت ابودرداء  ؓ سے بھی اسی طرح ثابت ہے۔ عن أبي عبد الله، قال: حدثنا أبو الدرداء، قال: " إني لأجيء إلى القوم وهم في الصلاة صلاة الفجر، فأصلي ركعتين، ثم أضطم إلى الصفوف۔ " [88]
  12. عن ابن جريج، عن عطاء ؒ قال: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة، فإن خرج الإمام وأنت راكع، فاركع إليها ركعةً أخرى خفيفةً، ثم سلم»۔ فقط واللہ اعلم [89]

حضرات صحابہ کرام  ؓ کے ارشادات اور ان کا عمل دراصل سنتِ رسول کی تشریح و توضیح کا درجہ رکھتے ہیں, کیوں کہ صحابہ  ؓ کے بارے میں یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ وہ سنتِ رسول کی خلاف ورزی کریں، اسی پس منظر میں ائمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہ ؒ اور امام مالک ؒ کے نزدیک فجر کی جماعت کھڑی ہونے کے بعد بھی یہ فجر کی دو سنتیں ادا کی جائیں گی ۔ اگر فجر کی سنتوں کی ادائیگی کے بعد امام کے ساتھ فرض نماز کا قعدہ اخیرہ مل سکتا ہے تو بھی سنت نہ چھوڑے۔ اگر اس کی بھی امید نہ ہو تو پھر سنت اس وقت نہ پڑھے بلکہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فرض چھوڑ کے سنت نہیں پڑھنی چاہیے لیکن یہاں تقابل فرضوں اور سنتوں کا نہیں جماعت کی فضیلت اور دو رکعت سنت موکدہ کی فضیلت کا ہے اگر دونوں کے ملنے کا یقین ہو تو دونوں کو جوڑ لے لیکن اگر جماعت نکلنے کا ڈر ہو تو پھر پہلے جماعت میں شامل ہو جائے اور سنتوں کو طلوع کے بعد پڑھے۔ واضح رہے کہ جماعت کی فضیلت ایک رکن ملنے پر بھی حاصل ہو جاتے ہیں یعنی تشہد /قعدہ آخیرہ میں بھی اگر شریک ہو گیا تو جماعت کی فضیلت حاصل کر لے گا۔ واللہ اعلم

سفر میں نماز جمع کرنا

[ترمیم]

قرآنِ کریم کی آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ شریفہ سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ نمازوں کو ان کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنا ضروری ہے البتہ حج کے موقع پر مزدلفہ میں عشاء کے وقت میں مغرب وعشاء اور عرفہ میں ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر کی نماز جمع کرنا آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے، اس کے علاوہ کسی موقع پر نماز کو وقت داخل ہونے سے پہلے ادا کرنا یا بغیر عذر کے وقت گزرنے کے بعد ادا کرنا ثابت نہیں ہے

  1. قرآن کریم میں ہے اِنَّ الصَّلوٰةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا ﴾ [90] بے شک نماز فرض کی گئی ہے ایمان والوں پر وقتِ مقررہ کے ساتھ
  2. سالم نے اپنے باپ ؓ سے سنا کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺ کو جلدی چلنا ہوتا سفر میں تو آپ ﷺ مغرب میں دیر کر کے عشاء کے ساتھ پڑھتے ۔ [91]
  3. سیدنا انس ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت تھی کہ جب آفتاب ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر میں دیر کرتے عصر کے وقت تک پھر اتر کر دونوں ملا کر پڑھتے اور اگر کوچ سے پہلے آفتاب ڈھل جاتا تو (صرف) ظہر پڑھ کر سوار ہوتے ۔ [92]
  4. سیدنا انس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی عادت تھی کہ جب سفر میں دو نمازوں کے اکھٹا کرنے کا ارادہ کرتے تو ظہر میں اتنی دیر کرتے کہ عصر کا وقت آ جاتا پھر دونوں ملا لیتے [93]
  5. ‏‏‏‏ سیدنا انس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کو جب سفر میں جلدی ہوتی تو ظہر میں اتنی دیر کرتے کہ عصر کا اول وقت آ جاتا پھر دونوں کو جمع کرتے اور مغرب میں دیر کرتے جب شفق ڈوبنے کا وقت ہوتا تو اس کو عشاء کے ساتھ جمع کرتے ۔ [94]
  6. نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر ؓ کو صفیہ کی موت کی خبر دی گئی اس وقت مکہ میں تھے تو آپ چلے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور ستارے نظر آنے لگے ، تو عرض کیا کہ نبی اکرم ﷺ کو سفر میں جب کسی کام کی عجلت ہوتی تو آپ یہ دونوں نمازیں ایک ساتھ ادا کرتے ، پھر وہ شفق غائب ہونے تک چلتے رہے پھر ٹھہر کر دونوں کو ایک ساتھ ادا کیا ۔ [95]
  7. اور عبد اللہ بن علاء نے نافع سے یہ حدیث روایت کی ہے: یہاں تک کہ جب شفق غائب ہونے کا وقت ہوا تو وہ اترے اور مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی [96]
  8. نافع کہتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عمر ؓ کے ساتھ ایک سفر میں نکلا ، وہ اپنی زمین (کھیتی) کا ارادہ کر رہے تھے ، اتنے میں ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا : آپ کی بیوی صفیہ بنت ابو عبید سخت بیمار ہیں تو آپ جا کر ان سے مل لیجئے ، چنانچہ وہ بڑی تیز رفتاری سے چلے اور ان کے ساتھ ایک قریشی تھا وہ بھی ساتھ جا رہا تھا ، آفتاب غروب ہوا تو انھوں نے نماز نہیں پڑھی اور مجھے معلوم تھا کہ وہ نماز کی بڑی محافظت کرتے ہیں ، تو جب انھوں نے تاخیر کی تو میں نے کہا : اللہ آپ پر رحم کرے ! نماز پڑھ لیجئیے ، تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور چلتے رہے یہاں تک کہ جب شفق ڈوبنے لگی تو اترے اور مغرب پڑھی ، پھر عشاء کی تکبیر کہی ، اس وقت شفق غائب ہو گئی تھی ، انھوں نے ہمیں (عشاء کی) نماز پڑھائی ، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے : جب رسول اللہ ﷺ کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے تھے [97]
  9. جب ظہر کا وقت ہوا تو مؤذن نے ان (عبد اللہ بن عمر) سے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! نماز پڑھ لیجئیے ، لیکن انھوں نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی یہاں تک کہ جب دونوں نمازوں (ظہر و عصر) کا درمیانی وقت ہو گیا ، تو سواری سے اترے اور بولے : تکبیر کہو اور جب میں سلام پھیر لوں تو (پھر) تکبیر کہو ، چنانچہ انھوں نے نماز پڑھی ، پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سورج ڈوب گیا تو ان سے مؤذن نے کہا : نماز پڑھ لیجئیے ، انھوں نے کہا : جیسے ظہر اور عصر میں کیا گیا ویسے ہی کرو ، پھر چل پڑے یہاں تک کہ جب ستارے گھنے ہو گئے، تو سواری سے اترے ، پھر مؤذن سے کہا : تکبیر کہو اور جب میں سلام پھیر لوں تو پھر تکبیر کہو ، تو انھوں نے نماز پڑھی ، پھر پلٹے اور ہماری طرف متوجہ ہوئے اور بولے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ” جب تم میں سے کسی کو ایسا معاملہ پیش آ جائے جس کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ اسی طرح (جمع کر کے) نماز پڑھے [98]
  10. مغرب کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ جب شفق غائب (ہونے کے قریب) ہو جاتی تو اسے اور عشاء کو ملا کر پڑھتے [99]
  11. انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر کرتے تو عصر تک ظہر کو مؤخر کر دیتے ، پھر سواری سے نیچے اترتے اور جمع بین الصلاتین کرتے یعنی دونوں صلاتوں کو ایک ساتھ پڑھتے اور اگر سفر کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو (صرف) ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے ۔ [100]
  12. انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کر دیتے پھر قیام فرماتے اور دونوں کو جمع کرتے اور اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو آپ (صرف) ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے [101]
  13. عبد اللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب مؤخر کرتے یہاں تک کہ اس کو اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کرتے ۔ [102]
  14. عمر بن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ علی ؓ جب سفر کرتے تو سورج ڈوبنے کے بعد بھی چلتے رہتے یہاں تک کہ اندھیرا چھا جانے کے قریب ہو جاتا ، پھر آپ اترتے اور مغرب پڑھتے ۔ پھر شام کا کھانا طلب کرتے اور کھا کر عشاء ادا کرتے ۔ پھر کوچ فرماتے اور کہا کرتے تھے : رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے [103]
  15. معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ غزوہ تبوک میں سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ اسے عصر سے ملا دیتے اور دونوں کو ایک ساتھ ادا کرتے اور جب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہوتے اور جب مغرب سے پہلے کوچ فرماتے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے ساتھ ملا کر ادا کرتے اور اگر مغرب کے بعد کوچ کرتے تو عشاء میں جلدی فرماتے اور اسے مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھتے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث سوائے قتیبہ کے کسی اور نے روایت نہیں کی ہے [104]

خلاصہ روایات

[ترمیم]

ان سب روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جمع کرنے کا طریقہ نا وقت سے پہلے پڑھنے کا تھا نا قضا کرنے کا بلکہ ایک نماز کو موخر کرکے آخری وقت پر لے جاتے اور دوسری کو مقدم کرکے وقت کے بالکل شروع میں پڑھ لیتے اور صورت کے اعتبار سے جمع ہوتیں لیکن اپنے اہنے وقت پر پڑھی جاتی تھیں جن روایات میں ہے کہ شفق ڈوبنے کے بعد پڑھی تو وہ دیگر بکثرت صحیح روایات سے متعارض ہونے کی وجہ سے مضطرب یے اور قرآن کی آیت سے بھی اس لیے وہ قابل ترجیح نہیں اسی طرح جن روایات میں آیا کہ ظہر کا وقت داخل ہونے ہر ساتھ ہی عصر پڑھ لیتے تو وہ بھی بکثرت دیگر صحیح روایات سے متعارض ہونے کی وجہ سے مضطرب بھی ہیں اور شاذ بھی جیسا کہ ابوداود 1220 سے ظاہر ہے واللہ اعلم

قضا نمازیں

[ترمیم]

قضا کی معافی صرف حالت حیض میں ہے

[ترمیم]
  • ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : کیا ایک عورت ایام حیض کی نمازوں کی قضا دے گی ؟ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا : کیا تو حروریہ ( خوارج میں سے ) ہے ؟ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں جب ہم میں سے کسی کو حیض آتا تھا تو اسے ( نمازوں کی ) قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا ۔

اگر وقت اجازت دے تو پہلے قضا نماز پڑھے

[ترمیم]
  • حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے احزاب کے دن فرمایا :’’ انھوں نے ہمیں درمیانی نماز ( یعنی ) عصر کی نماز سے مشغول رکھا ، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے ۔‘‘ پھر آپ نے اسے رات کی دونوں نمازوں مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھا ۔ (مغرب کا وقت جا رہا تھا اس لیے آخری وقت میں پہلے مغرب پڑھی ، پھر عصر کی قضا پڑھی ، پھر عشاء پڑھی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ عمرہ قضا کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ کے آگے آگے چل رہے تھے اور یہ شعر پڑھ رہے تھے :’’ اے کافروں کی اولاد ! آپ کا راستہ چھوڑ دو ۔ آج ہم آپ کے حکم سے تمھاری گردنیں ماریں گے اور ایسی ضرب لگائیں گے جو کھوپڑیوں کو گردنوں سے جدا کر دے گی اور دوست کو دوست سے غافل کر دے گی. " حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ابن رواحہ ! رسول اللہ ﷺ کے سامنے اور حرم پاک میں شعر کہتے ہو ؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ عمر ! پڑھنے دو ۔ یہ شعر ان کے لیے تیروں کی بوچھاڑ سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہیں ۔‘‘ [105]

  • حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ، فرما رہی تھیں : میرے ذمے رمضان کے روزوں کی قضا ہوتی تو میں شعبان کے سوا کسی مہینے میں ( یہ ) قضا روزے نہ رکھ سکتی ( اور اس کا سبب ) رسول اللہ ﷺ کی بنا پر یا آپ کے ساتھ مصروفیت ہوتی ۔ [106]
  • حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : اے اللہ کے رسول ! میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمے ایک ماہ کے روزے ہیں ، کیا میں اس کی طرف سے ان کی قضا دے سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا :’’ تمھارا کیا خیال ہے اگر تمھاری ماں کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تم اس کی طرف سے اس کو ادا کرتے ؟‘‘ اس نے کہا : جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا :’’ تو اللہ کا قرض زیادہ حق دار ہے کہ اسے ادا کیا جائے ۔‘‘ [107]
  • حضرت اسماء بنت ابی بکر‬ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں رمضان میں ہم نے ایک دن بادل کی وجہ سے روزہ کھول لیا ‘ پھر سورج نکل آیا ۔ ابواسامہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام سے پوچھا : تو کیا انھیں قضا دینے کا حکم دیا گیا تھا ؟ کہا : بھلا اس سے کوئی چارہ بھی ہے ؟ [108]
  • حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا : میں نے ایک لونڈی اپنی والدہ کو صدقہ دی تھی ‘ والدہ فوت ہو گئی ہے اور وہ لونڈی ورثے میں چھوڑ گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا :’’ تیرا ثواب ثابت ہوا اور وہ لونڈی وراثت میں تجھے واپس آ گئی ۔‘‘ اس نے کہا : والدہ فوت ہوئی ہے تو اس پر ایک مہینے کے روزے ہیں ‘ اگر میں اس کی طرف سے روزے رکھوں تو کیا اس کی طرف سے کفایت یا قضا ہو جائے گی ؟ آپ نے فرمایا :’’ ہاں ! “ عورت نے کہا : والدہ نے حج نہیں کیا تھا ‘ اگر میں اس کی طرف سے حج کروں تو کیا اس کی طرف سے کفایت یا قضا ہو جائے گی ؟ آپ نے فرمایا :’’ ہاں ! “ [109]

وقت نکلنے پر نماز پڑھنے کے باوجود دوسرے دن وقت پر اس کی قضا کرنا

[ترمیم]
  • جناب خالد بن سمیر راوی ہیں کہ مدینہ سے عبد اللہ بن رباح انصاری رحمہ اللہ ہمارے ہاں تشریف لائے اور انصار انھیں فقیہ گردانتے تھے ۔ انھوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے شہسوار ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ’’ جیش الامراء ‘‘ روانہ فرمایا ۔ اور یہ قصہ بیان کیا ۔ کہا کہ ہمیں سورج ہی نے طلوع ہو کر جگایا ۔ اور ہم گھبرا کر نماز کے لیے اٹھے تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ خیال سے ، سنبھل کر ۔‘‘ حتیٰ کہ جب سورج اونچا آ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو تم میں سے سنتیں پڑھنا چاہتا ہے پڑھ لے ۔‘‘ تو جو پہلے پڑھا کرتا تھا اس نے پڑھیں اور جو نہ پڑھتا تھا اس نے بھی پڑھیں ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ نماز کے لیے اذان کہی جائے تو اذان کہی گئی اور آپ کھڑے ہوئے اور ہمیں نماز پڑھائی ۔ جب فارغ ہوئے تو فرمایا :’’ ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں کہ ہم دنیا کے کسی کام میں مشغول نہ تھے کہ نماز ہم سے رہ گئی بلکہ ہماری روحیں اللہ کے ہاتھ میں تھیں تو اس نے جب چاہا انھیں چھوڑ دیا ، لہذا جو تم میں سے کل کو صحت و سلامتی کے ساتھ نماز فجر پائے اس کے ساتھ اس نماز کی قضا بھی دے ۔‘‘ [110]
  • "۔۔۔صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر فقہا کا یہی قول ہے کہ انھوں نے فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے کو مکروہ جانا ہے، رہیں فوت شدہ نمازیں تو انھیں عصر کے بعد یا فجر کے بعد قضاء کرنے میں کوئی حرج نہیں" [111]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. سنن ترمذی, حدیث نمبر: 413 -- حکم البانی: صحيح
  2. سنن ترمذی، حدیث نمبر: 154 --حکم البانی: صحيح
  3. سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 679 -- حکم البانی: صحيح
  4. موطا امام مالک, مترجم وحید الزمان ص20-21)
  5. سنن ترمذی، حدیث نمبر: 161 --حکم البانی:صحيح
  6. بیہقی ص443 ج1 وہامشبہ الجواہر النفی ص 441ج1)
  7. مصنف عبد الرزاق ج1 ص540)
  8. ابن ابی شیبہ ص327ج1
  9. مصنف عبد الرزاق ص540ج1)
  10. صحیح بخاری, حدیث نمبر: 560
  11. ابوداود حدیث 393
  12. سنن ابی داود، حدیث نمبر: 398 --- حکم البانی: صحيح
  13. سورہ المائدہ آیت6
  14. سنن ابوداود 159، ضعیف
  15. سورہ الاعراف, آیت 31
  16. سنن ابی داود، حدیث نمبر: 4076 --- حکم البانی: صحيح
  17. سنن ابی داود, حدیث نمبر: 4077 --- حکم البانی: صحيح
  18. سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 1037 --- حکم البانی: صحيح
  19. صحیح مسلم، حدیث نمبر: 978
  20. مسند احمد۔ حدیث نمبر: 13439
  21. سنن ابی داود، حدیث نمبر: 661 -- حکم البانی: صحيح
  22. صحیح بخاری، حدیث نمبر 5070
  23. صحیح بخاری، حدیث نمبر: 7343
  24. صحیح مسلم، حدیث نمبر: 866
  25. سنن نسائی - حدیث نمبر: 1103 --- حکم البانی: صحيح
  26. سنن ابی داود۔ حدیث نمبر: 957، حکم ابوداود: صحیح
  27. سنن نسائی, حدیث نمبر: 888 --- حکم البانی: صحيح
  28. سنن ابی داود۔ حدیث نمبر: 957 , حکم ابوداود: صحیح
  29. سنن ابی داود۔ حدیث نمبر: 726
  30. سنن ترمذی,حدیث نمبر: 252 --- حکم البانی: حسن صحيح
  31. صحیح بخاری حدیث نمبر 740
  32. سنن ترمذی, شرح حدیث نمبر: 252
  33. سورہ الاعراف، آیت204
  34. صحیح مسلم, حدیث نمبر 904، 905
  35. سنن ابوداود:826،قال الشيخ الألباني:صحیح
  36. تفسیر ابن کثیر, سورہ الاعراف, آیت نمبر 204
  37. سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 846, حکم البانی -- صحیح
  38. صحیح مسلم، حدیث۔ نمبر 904، 905
  39. صحیح مسلم، حدیث نمبر 1298
  40. جامع ترمذی حدیث نمبر 313
  41. صحیح مسلم حدیث نمبر 878
  42. سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 846
  43. سورہ الاعراف آیت نمبر 205
  44. سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 850 --- حکم البانی: حسن
  45. سنن ابی داود, حدیث نمبر: 823 --- حکم البانی: ضعيف
  46. سنن ترمذی، حدیث نمبر: 311 --- حکم البانی: ضعيف
  47. سنن نسائی، حدیث نمبر: 921 -- حکم البانی: ضعيف
  48. حافظ ابو بشر دولابی, "الا سماء والکن" ج1 ص 197 باب ماجآء فی التامین
  49. زجاجۃ المصابیح ص258ج1 باب القرأۃ فی الصلوٰۃ، حکم حاکم -- صحیح الاسناد)
  50. عبد الرزاق ج2 ص 87)
  51. ابن جریر
  52. سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 812 --- حکم البانی: صحيح
  53. # سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 813 --- حکم البانی: صحيح
  54. سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 814 --- حکم البانی: صحيح
  55. سنن ترمذی باب : نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم صرف پہلی مرتبہ ہاتھ اٹھاتے تھے حدیث نمبر: 257 - حکم البانی: صحيح
  56. سنن ابی داود - باب : جنھوں نے رکوع کے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں کیا ہے ان کا بیان. حدیث نمبر: 748 - حکم البانی: صحيح
  57. سنن نسائی - باب : رفع یدین نہ کرنے کی رخصت کا بیان ۔ حدیث نمبر: 1059 -- حکم البانی: صحيح
  58. سنن نسائی - باب : تکبیر تحریمہ کے بعد رفع یدین نہ کرنے کا بیان ۔ نسائی۔ حدیث نمبر: 1027 --- حکم البانی: صحيح
  59. مسند احمد | رقم الحدیث: 1536 | حکم المحدث: صحیح
  60. سنن نسائی | رقم الحدیث 1086 | حکم المحدث : صحیح
  61. مصنف ابن ابی شیبہ | رقم الحدیث 2449| حکم البانی: صحیح | البانی" ارواء الغلیل" (2/68)
  62. مسلم 865
  63. ابوداود 745
  64. نسائی 881- 882- 1025- 1057
  65. ابن ماجہ 859
  66. مسند احمد 1536
  67. مسلم 896
  68. ابوداود 726- 957
  69. نسائی 890- 1103- 1266
  70. ابن ماجہ 867
  71. مسند احمد 1512- 1515
  72. ابن ماجہ 868
  73. بخاری 581
  74. بخاری 588- 5819
  75. بخاری 586
  76. صحيح مسلم ح493
  77. سورہ محمد آیت33
  78. مصنف عبد الرزاق الصنعاني ج2 ح444
  79. شرح مشكل الآثار ج10 ح320، ح321
  80. صحیح بخاری ح1169
  81. صحیح بخاری ح581، 584، 586، 588، 5819
  82. سنن ابن ماجہ ح1155
  83. مصنف عبد الرزاق الصنعاني ج2 ح445
  84. مصنف عبد الرزاق ح4023
  85. مصنف عبد الرزاق ح4024
  86. مصنف عبد الرزاق ح4021
  87. مصنف عبد الرزاق ح4022
  88. شرح مشكل الآثار ج10 ح322
  89. مصنف عبد الرزاق الصنعاني ج2 ح437
  90. النساء:103
  91. مسلم 1624
  92. مسلم 1625
  93. مسلم 1626
  94. مسلم 1627
  95. ابوداود 1207 حکم البانی: صحيح
  96. ابوداود 1213 حکم البانی: صحیح
  97. نسائی 596 حکم البانی: صحیح
  98. نسائی 589 - 598 حکم البانی: حسن
  99. ابوادو 1219 حکم البانی: صحیح
  100. نسائی 587 حکم البانی: صحیح
  101. ابوداود 1218 حکم البانی: صحیح
  102. نسائی 593 حکم البانی: صحيح
  103. ابی داود 1234 حکم البانی: صحيح
  104. ابوداود 1220 شاذ
  105. نسائی 2876
  106. مسلم 2687
  107. مسلم 2694
  108. آبوداود 2359
  109. ابودآود 2877
  110. ابوداود 438
  111. ترمذی 183