مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی کی آگرہ میں بنائی گئی ایک نایاب تصویر۔

حضرت مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری تیرھویں صدی ہجری کے مقبول صوفی اور عالمِ ربانی گذرے ہیں۔

پیدائش و آبا[ترمیم]

آپ کی پیدائش 17؍ شوال المکرم 1218ھ بمطابق1803ء بروز پنجشنبہ کو داناپور میں ہوئی، آپ کا نام محمد قاسم، تخلص قاسم اور خطاب سیدالطریقت تھا، آپ کے والد کا اسم گرامی حضرت شاہ محمد تراب الحق چشتی اور والدہ کا نام بی بی حفیظ النسا ہے۔[1]

اوصاف[ترمیم]

آپ ذوبحرین صوفی تھے، آپ کے اعمام فرماتے تھے کہ’’ نورچشم محمدقاسم ولی مادرزادہے‘‘ جمال آپ کا ایسا تاباں تھا کہ مفتی صدر الدین فرماتے تھے کہ ’’اس زمانے میں جو اصحاب رسول کی زیارت کا مشتاق ہو وہ مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی صاحب کو دیکھ لے‘‘ خوش بیان ایسے تھے کہ مفتی اسد اللہ جون پوری اور مفتی ریاض الدین کاکوروی فرماتے تھے کہ ’’ہم نے ایسا سلسلۂ کلا م مسلسل سنا ہی نہیں آپ خود بہت کم سلسلۂ کلام آغاز فرماتے تھے جب کسی نے کسی امر میں استفتا فرمایا تو جواب دیتے تھے‘‘[2]

تعلیم و تربیت[ترمیم]

آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے ماموں اعلیٰ حضرت سیدقمرالدین حسین ابوالعلائی کے دست نگر ہوئی، علوم باطنی کے ساتھ علوم ظاہری میں بھی اعلیٰ قابلیت حاصل کی، تفسیر ، حدیث، فقہ ،منطق، بلاغت، صرف، نحو میں عبور حاصل تھا، معاملہ فہمی، راست گوئی، خوش تدبیری، استقلال، ہمت، شجاعت، جوان مردی، دلیری اور بہادری کا بہت جلد اعلیٰ نمونہ بن گئے، چند بنیادی کتابیں اپنے ماموں مولانا سید وحیدالدین احمد سے بھی پڑھی۔[3]

بیعت و خلافت[ترمیم]

آپ کو بیعت و خلافت خواجہ سید ابوالبرکات ابوالعلائی سے طریقہ نقشبندیہ ابوالعلائیہ میں حاصل ہے اور اپنے ماموں اعلیٰ حضرت سید قمرالدین حسین ابوالعلائی سے بھی اجازت و خلافت حاصل ہے، اپنے والد حضرت شاہ تراب الحق چشتی کے علاوہ عم اقدس حضرت شاہ بہاؤالحق چشتی اور حضرت شاہ مہدی حسن الہ آبادی سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی، مولانا شاہ بہاؤالحق چشتی نے واصل بحق ہونے سے کچھ دن پیشتر خاندانی اجازت و خلافت طریقہ چشتیہ قلندریہ سے آپ کو مشرف فرما کر اپنے چھوٹے بھائی حضرت شاہ تراب الحق چشتی سے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ نورچشم محمد قاسم جس وقت آگرہ سے یہاں آویں تو میرے سفائن اور میرا سجادہ اور تبرکات خاندانی ان کو تفویض کر دینا کہ میرے بعد وہی جانشین ہوں گے‘‘ چنانچہ آگرہ سے واپسی کے بعد رونق افروز سجادۂ خاندانی ہوئے۔[4]

تصنیفات و شاعری[ترمیم]

آپ کو تصنیف و تالیف کا گہرہ شوق تھا، چند کتاب کے نام یہ ہیں۔

  • اعجاز غوثیہ
  • نجات قاسم
  • انشائے فرمانِ علیم (غیر مطبوعہ)
  • سیر نینی تال (غیر مطبوعہ)
  • چراغ مکتب (غیر مطبوعہ)
  • انوارقمریہ (غیر مطبوعہ) یہ اعلیٰ حضرت قمرالدین حسین کے ملفوظات پر مبنی ایک قیمتی کتاب ہے جسے آپ نے جمع کیا ہے۔

شعر و سخن میں حضرت سیدنا امیر ابوالعلا کی شان میں آپ کے قصیدے اور منقبت کے اشعار بھی ملتے ہیں۔[5]

خلفائے کرام[ترمیم]

  آپ کے نامدار اور چندمشہور خلفا حسب ذیل ہیں۔

  • حضرت مخدوم شاہ محمدسجاد پاک
  • حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی دانا پوری
  • حضرت سیدشاہ  فدا حسین دانا پوری
  • مولانا غلام امام شہید (آگرہ)
  • حضرت شاہ وزیر ابوالعلائی عطاؔ داناپوری
  • حضرت حافظ سیدشاہ محمد منیر الدین حسین قمری (سجادہ نشیں: خانقاہ منعمیہ قمریہ، پٹنہ)
  • حکیم شاہ علیم الدین بلخی (سجادہ نشیں: خانقاہ بلخیہ فردوسیہ، فتوحہ)
  • میر اشرف علی چشتی ( درگاہ معلی اجمیر شریف )
  • حضرت سید مظہر حسین ابوالعلائی (مانک پور)
  • شیخ محمد شفیع (آگرہ)
  • خواجہ غلام غوث اکبرآبادی ( میجر: میر منشی گورنر الہ آباد)
  • شیخ محمد اسمعیل(میر منشی لفٹنٹ گورنر اکبرآباد)
  • حضرت سیدشاہ شرف الدین حسین قمری رضویؔ (خانقاہ منعمیہ قمریہ، پٹنہ)
  • میر سید تفضل حسین الہ آبادی(یہ اکبرالہ آبادیکے والد ہیں)
  • میر سید طفیل علی الہ آبادی
  • میر سید حبیب علی الہ آبادی[6]

شادیات و اولاد[ترمیم]

آپ کی دوشادیاں ہوئی اور دونوں سے دو دولڑکے تولد ہوئے، پہلا نکاح مسماۃ بخشاانسا سے ہو اجن سے دو لڑکے ہوئے ا ورصغرسنی میں فوت ہو گئے ان میں ایک کانام محمد افضل تھا۔[7]

وصال پُرملال[ترمیم]

جب آپ الہ آباد سے ترک روزگار فرماکر داناپور میں آکر خانہ نشین ہو ئے تو دو یا تین برس کے بعد مزاج میں آثار علالت ظاہر ہوئے رفتہ رفتہ اس مرض کو ترقی ہوئی ابتدا میں تو بخار تھا پھر اسہال کبریٰ جاری ہو گئے کبھی آپ نے کسی قسم کی شکایت نہ فرمائی جب بھی کسی نے مزاج کی کیفیت پوچھی تو یہی شعر پڑھ دیا۔

در دم از رفت ودر مانیزہم

دل فدائے او شد و جاں نیز ہم

63 سال کی عمر میں بتاریخ 18؍شوال المکرم 1281ھ موافق 1865ئ کو آپ کا انتقال خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ میں ہوا اور حسبِ وصیت حضرت شیخ کمال الدین احمد یحییٰ منیری کے مزار کے پائتیں میں دفن کیے گئے۔[8]

  1. شاہ ظفر سجاد۔ تذکرۃ الابرار 
  2. شاہ خالد امام۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کا تاریخی پسِ منظر 
  3. شاہ خالد امام۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کا تاریخی پسِ منظر 
  4. شاہ ظفر سجاد۔ تذکرۃ الابرار 
  5. شاہ خالد امام۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کا تاریخی پسِ منظر 
  6. ریان ابوالعلائی۔ نجات قاسم جدید 
  7. شاہ خالد امام۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کا تاریخی پسِ منظر 
  8. شاہ اکبر داناپوری۔ نذرِ محبوب