واقعہ شق صدر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بہت سے محیر العقل واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ واقعات آپ کی پیدائش سے پہلے، بچپن میں اور نبوت کے بعد بھی رونما ہوئے۔ ایسے تمام حیران کن واقعات جو کسی نبی کو نبوت ملنے سے پہلے درپیش آئیں” ارھاصات“ کہلاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ملتا ہے کہ اُن کا سینہ فرشتوں نے چاک کر کے اُن کا دل دھویا تھا۔

شق صدر کے لغوی واصطلاحی معنی[ترمیم]

لغت کی مشہور کتاب ’’مصباح المنیر‘‘ میں ہے کہ ’’الشق بالفتح انفراج فی الشئی ‘‘ یعنی؛ کسی شے کے کھل جانے کو شق کہتے ہیں۔ ’’اقرب الموارد‘‘کے مطابق:’’شق الشئی شقا صدعہ‘‘ یعنی؛ کسی شے کے شق ہونے سے مراد اُس چیز میں شگاف ڈالنا ہے۔ مولوی فیروز الدین اپنی فیروز اللغات میں شَق کے بارے میں لکھتے ہیں: پھٹا ہوا، شگاف پڑا ہوا، شگاف، دراڑ۔ اسی سے شَق القمر بھی ہے یعنی چاند کا پھٹ جانا۔ یعنی شَق الصدر کا اصطلاحی معنی ٰ بھی یہی ہے یعنی؛ سینے کو کھولنا یا شگاف ڈالنا۔ اس سے مراد شَق الصدر کا واقعہ ہے۔ جو روایات کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن میں رونما ہوا تھا۔

شق صدر کے بارے میں روایات[ترمیم]

شق صدر کا واقعہ بہت سے محدثین نے نقل کیا ہے۔ مثلاً صحیح مسلم نے اس کے بارے میں چند روایات نقل کی ہیں۔ کازرونی نے ’’المنتقی فی مولود المصطفٰی‘‘ میں اور طبری نے تاریخ طبری میں۔[1] تاریخ یعقوبی میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہے۔[2]
دوسرے سیرت نگاروں نے بھی یہ واقعہ قلم بند کیا ہے۔ چند روایات اس طرح سے ہیں۔
ابن ہشام نے اپنی کتاب میں یہ واقعہ اس طرح لکھا ہے:
’’واستُرضعتُ فِی بَنِی سَعد بن بکر، فَبینا انا مع مملوءَۃِ ثلجاَ، ثم اخذانی فشقَّا بَطَنِی، واستَخرَجَا قَلبِی فَشَقَّاہُ فَسْتَخرَجَا مِنہُ عَلَقَۃ سَودَاءَ فَطَرَحَاھَا، ثُمَّ غَسَلاَ قَلْبِی وَبَطْنِی بِذَلِکَ الثَّلجِ حَتَّی اَنقیَا ۔
صحیح مسلم میں یہ روایت اس طرح سے ہے: ’’روی مسلم بن حجاج عن انس بن مالک ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتاہ جبرئیل و ھو یلعب مع الغلمان فاخذہ و صرعہ،فشق عن قلبہ فاستخرج القلب فاستخرج منہ علقۃ فقال: ھذا حظ الشیطان منک، ثم غسلہ فی طست من ذھب بماء زمزم، ثم لامہ ثم اعادہ فی مکانہ۔ ’’جاء الغلمان یسعون الی امہ۔ یعنی ظئرہ۔ فقالوا:ان محمدا قدقتل فاستقبلوہ وھو منتقع اللون، قال انس: وقد کنت اری اثر ذلک المخیط فی صدرہ‘‘ یعنی؛ مسلم نے انس بن مالک سے روایت کی کہ ایک دن جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، جبرائیل اُن کے نزدیک آئے اور انھیں پکڑ کر زمین پر لٹا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ چاک کر کے اُس میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل نکال کر اُس میں سے ایک خون کا لوتھڑا نکال کر کہا یہ تم میں شیطان کا حصہ ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کو سونے کے ایک طشت میں رکھ کر آب زمزم سے دھویا اور پھر اُسے اُسی طرح اپنی جگہ رکھ کر سینہ بند کر دیا۔ بچے اپنی ماں کے پاس دوڑے ہوئے آئے اور ماں سے کہا: کے محمد قتل ہو گئے ہیں, وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آئے تو آپ کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ اُڑا ہوا تھ! انس کہتے ہیں:میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے میں ٹانکے لگے ہوئے دیکھے ہیں۔ [3] یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شق صدر کا واقعہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں چار پانچ بار رونما ہوا ہے، سب سے پہلے تین سال کی عمر میں، پھر دس سال کی عمر میں، پھر نبوت سے مبعوث ہونے کے وقت اور ایک بار واقعہ معراج کے وقت۔ اس سلسلے میں بعض عرب شعرا نے کچھ اشعار بھی کہے ہیں۔[4]
اسی طرح بعض مفسرین نے تو سورۂ انشراح میں آیہ مجیدہ ’’الم نشرح لک صدرک‘‘ کی تطبیق بھی اسی واقعہ پر کی ہے اور اسے اس کا شان نزول قرار دیا ہے۔[5]

واقعہ شق صدرکے بارے میں علما کی رائے[ترمیم]

واقعہ شق صدر کے بارے میں علما کی رائے کچھ یوں ہے۔

اہل سنت علما کی رائے[ترمیم]

تمام اہل سنت اس واقعے کو تسلیم کرتے ہیں اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے شمار کیا ہے۔

علامہ محمود ابوریہ[ترمیم]

اہل سنت کے ایک عالم دین علامہ محمود ابوریہ کے علاوہ کسی نے بھی اس واقعے کے بارے میں کوئی تنقیدی رائے نہیں دی۔ اس مصری عالم دین محمود ابوریہ نے اپنی کتاب ’’اضوء علی السنۃ المحمدیۃ او دفاع عن الحدیث ‘‘ میں اس واقعے کو جعلی قرار دیتے ہوئے اسے اسرائیلیات میں سے شمار کیا ہے۔[6]
’’ قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِی لَأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْأَرْضِ وَلَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ۔ إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمْ الْمُخْلَصِینَ ‘‘ [7]۔ ترجمہ: ؛ اس نے کہا: پروردگارا! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں مادی نعمتوں کو زمین میں ان (انسانوں) کی نگاہ میں مزّین کروں گا اور ان سب کو گمراہ کروں گا سوائے تیرے مخلص بندوں کے ۔
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ وَکَفَی بِرَبِّکَ وَکِیلًا ‘‘[8]

ترجمہ؛ (لیکن جان لے ) تو ہرگز میرے بندوں پر تسلط حاصل نہیں کر سکے گا یہی کافی ہے کہ تیرا پروردگار ان کا محافظ و وکیل ہے۔

یہاں اُستاد محمود ابوریہ، یہ آیات ذکر کرنے کے بعد اس قسم کی روایات پر اعتماد کرنے والوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ وکیف یدفعون الکتاب بالسنۃ، أو یعارضون المتواتر الذی یفید الیقین، بأحادیث الآ حادالتی لاتفید اِلاالظن؟!

‘‘یہ لوگ کس طرح کتاب خدا کو سنت ظنیہ اور متواتر احادیث کہ جو یقینی ہیں کو اخبار احاد کہ جن سے فقط ظن وگمان حاصل ہوتا ہے، کے ذریعے ردّ کر دیتے ہیں “[9]‘۔

اہل تشیع علما کی رائے[ترمیم]

اہل سنت علما کے مقابلے میں شیعہ علما میں سے کسی نے بھی شق صدر کی روایات پر اعتماد نہیں کیا۔ شیعہ علما نے اس واقعہ کو عصمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سمجھتے ہوئے اس قسم کی روایات کو اسرئیلیات میں سے شمار کیا ہے۔ البتہ بعض علمائے شیعہ نے اس کو ایک قسم کی تمثیل اور تمثل جانتے اس واقعے کی عقلی توجیہ کرنے کی سعی کی ہے جو اس واقعہ میں موجود جزئیات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔[10]

علامہ مجلسی[ترمیم]

بعض اہل تشیع محدثین اور علما نے بھی اس واقعے کو حیرت انگیز واقعات کی بنا ء پر قبول کیا ہے، لیکن اس کی سند سے مطمئن نہیں ہوئے ہیں۔ جیسا کہ علامہ مجلسی (رح) اس واقعے کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شق صدر کا واقعہ کہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بچپن میں رونما ہوا ہے، اہل سنت کی روایات میں بطور مستفیض نقل ہوا ہے لیکن ہماری (شیعہ) روایات میں یہ واقعہ کسی قابل اعتماد سند کے ساتھ نقل نہیں ہوا، لیکن اس کی نفی بھی نقل نہیں ہوئی اور عقل بھی اس کے وقوع کی نفی نہیں کرتی لہٰذاہم اس کی نفی اور اثبات میں توقف کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے اکثر سابقہ علما نے اس واقعے پر اعتراضات کیے ہیں ‘‘۔[11]

شق صدر کے بارے میں جدید نظریہ[ترمیم]

شق صدر کے بارے میں جدید نظریہ یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ علم کے لیے کشادہ کیا گیا تھا، کھول دیا گیا تھا، جسے سورۃ نشرح میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

واقعہ شق صدر پر اعتراضات[ترمیم]

شق صدر کے واقعے اور روایات پر بہت سے اعتراضات بھی کیے جاتے ہیں۔ ان اعتراضات سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ شق صدر کی روایات قرآن کے ساتھ بھی تعارض رکھتی ہیں اور مسلمانوں کے متفق علیہ اعتقادات کے بھی خلاف ہیں اور عام عقل بھی انھیں تسلیم نہیں کرتی۔ جس کی وجہ سے انھیں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے بعض محققین [12] کے نزدیک یہ روایات مسیحیوں اور اہل کلیسا کی جعل کی ہوئی ہیں اور ان کا شمار اسرائیلیات میں ہوتا ہے۔ اس بات کی تائید اُن روایات سے بھی ہوتی ہے کہ جو صحیح مسلم وصحیح بخاری میں آئی ہیں کہ سوائے حضرت عیسی۔ کے تمام اولاد آدم اپنی پیدائش کے وقت سے ہی شیطان کے تسلط ونفوذ کا شکار ہو جاتی ہے اور اسی لیے بچہ روتا اور چیختا ہے۔ صرف حضرت عیسیٰ۔ بن مریم (س) تھے کہ جو پردے اور حجاب میں ہونے کی وجہ سے شیطان کے چھونے سے محفوظ رہے ہیں۔ تمام اعتراضات ذیل میں دیے جا رہے ہیں۔

حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کی تمام انبیا پر برتری[ترمیم]

شق صدر ہی جیسی کچھ اور روایات بھی کتب حدیث میں نقل ہوئی ہیں کہ جوظاہر کرتی ہیں کہ انسان اپنی پیدائش کے ساتھ ہی شیطان کے تسلط میں ہوتا ہے۔ انہی جیسی ایک روایت صحیح بخاری میں نقل ہوئی ہے: مجھ سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا کہ ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا، ہم کو معمر نے خبر دی، انھیں زہری نے، انھیں معید بن مسیب نے اور انھیں حضرت ابو ہریرہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے پیداہوتے ہیں چھوتا ہے، جس سے وہ بچہ چلاتا ہے، سوائے مریم اور ان کے بیٹے (عیسیٰ۔) کے پھر ابو ہریرہ نے کہا کہ اگر تمھارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ ’’انی اعیذبک وذریتھا من شیطان الرجیم (آل عمران؍36) یہ کلمہ حضرت مریم کی ماں نے کہا تھا، اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور مریم اور عیسیٰ کو شیطان کے ہاتھ لگانے سے بچا لیاا۔[13]
بعض لوگوں کے متعلق واقعہ شق صدر اور مذکورہ بالا روایات سے مسیحی مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ کوئی بھی انسان حتیٰ انبیائے کرام بھی معصوم نہیں ہیں اور لغزش وخطا کے خطرے سے دو چار ہیں، سوائے حضرت عیسیٰ اور اُن کی ماں حضرت مریم(ع)کے۔ چونکہ وہ شیطان کے چھونے سے محفوظ رہے ہیں اور یہی بات اُن کے غیر معمولی ہونے کی دلیل ہے جس کی وجہ سے وہ ایک لاہوتی ہستیاں ہیں۔
شق صدر کے بارے میں علامہ جعفر مرتضیٰ عاملی لکھتے ہیں:
’’حقیقت میں یہ روایت زمانہ جاہلیت کے قصے کہانیوں سے لی گئی ہے جیسا کہ کتاب ’’اغانی‘‘ میں ایک قصہ نقل ہوا ہے کہ ’’اُمیہ بن ابی صلت‘‘ نے خواب میں دیکھا کہ دو پرندے آتے ہیں، ایک گھر کے دروازے پر بیٹھ جاتا ہے اور دوسرا اندر داخل ہو کر اُمیہ کا دل چیرتا ہے اور پھر اُسے دوبارہ وہیں لوٹا دیتا ہے۔ دوسرا پرندہ اُس پرندے سے کہتا ہے: کیا تو نے دریافت کر لیا ہے؟ وہ کہتا ہے: ہاں، پھر وہ پوچھتا ہے کیا اُس کا تزکیہ ہو گیا ہے؟ یہ پرندہ کہتا ہے: اس نے قبول نہیں کیا۔ پھر وہ اس کے دل کو اپنی جگہ رکھ دیتا ہے۔ اس کے بعد اُمیہ کے سینے کی چیر پھاڑ کا عمل چار بار دہرایا جاتا ہے‘‘۔ لگتا ہے ’’اُمیہ بن ابی صلت‘‘ کے قصے جیسے بے بنیاد قصے اور ’’شیطان کے چھونے‘‘ جیسی جعلی روایات ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بھی شق صدر جیسی روایات گھڑنے کا باعث بنی ہیں۔[14]

روایات کا ضعیف ہونا[ترمیم]

اس روایت کے متن کو ضعیف اور ظن وگمان پر مشتمل کرتے ہوئے اُستاد محمود ابوریہ اس بارے میں اپنے اُستاد شیخ محمد عبدہ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فھو من الأخبار الظنیۃ لأنہ من روایۃ الآحاد، ولما کان موضوعھا عالم الغیب، والایمان بالغیب من قسم العقائد، وھی لایؤخذ فیھا بالظن لقولہ تعالیٰ:’’ان الظن لایغنی من الحق شیئاً‘‘کنا غیر مکلفین الایمان بمضمون تلک الأحادیث فی عقائدنا ‘‘
’’یہ روایت اخبار احاد میں سے ہے جو ظن وگمان پر مشتمل ہے اور خبر واحد ہے جبکہ اس کا موضوع عالم غیب ہے اور غیب پر ایمان عقائد میں سے ہے لہٰذا اس میں ظن وگمان صحیح نہیں چونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’گمان ہرگز انسان کو حق سے بے نیاز نہیں کرتا‘‘۔[15] بنابریں ہم اس روایت کے مضمون پر ایمان لانے کے مکلف نہیں ہیں‘‘[16]

روایات میں اختلاف[ترمیم]

اس وقعے کے بارے میں روایات میں بھی کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابن ہشام کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی ماں کو واپس لوٹانے کا سبب یہ تھا کہ جب حبشہ کے کچھ مسیحیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی دائی کے ساتھ دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں دائی حلیمہ سے کچھ سوالات کیے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جائزہ لینے لگے اور دائی حلیمہ سے کہا: ہم اس بچے کوملک حبش لے جاتے ہیں۔ اس پر حلیمہ ڈر گئیں اور انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُن کی ماں کو واپس کر دیا۔[17] اس کے بعد ابن ہشام اور دوسرے مؤرخین نے اپنی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ دائی حلیمہ نے شق صدر کے واقعے کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُن کی والدہ کے پاس بھیج دیا تھا چونکہ دائی حلیمہ اور اُن کے شوہر ڈر گئے تھے کہ کہیں جنات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔
’’قال لی ابوہ یاحلیمۃ :لقد خشیت ان یکون ھذاالغلام قد اصیب فالحقیۃ باھلہ قبل ان یظھر بہ ذلک‘‘۔[18] لہٰذا اُنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُن کی والدہ کے پاس بھیج دیا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ چاک ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماں کے پاس واپس دیا گیا ہو؟ جبکہ بقول مؤرخین یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا تھا جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک دو یاتین سال تھی، لیکن متفق علیہ قول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانچ سال کے بعد اپنی والدہ ماجدہ کے پاس واپس لوٹے تھے۔ [19]

شر کی بنیاد جسمانی یا روحانی(نفسانی)؟[ترمیم]

انسانی جسم میں دل یا خون کا شر سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہوتا ہے۔ اعتراض کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ عمل بار بار سر انجام دینا ایسے ہی ہے کہ (نعوذ باللہ) وہ بار بار شر سے آلودہ ہو گئے ہوں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ ؤالہ وسلم کی توہین می شمار ہو گا۔

باطنی تزکیے کے لیے جراحی کی ضرورت نہیں[ترمیم]

روحانی بیماریوں کے علاج کے لیے جراحی کی جرورت نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق انسان کے نفس اور اس کی روح سے ہوتا ہے۔

اللہ کے مخلص بندوں پر شیطان کا زور نہیں[ترمیم]

نبی کریم صلی اللہ علیہ ؤالہ وسلم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا مخلص کون ہو گا۔ شیطان کی زبان کے الفاظ قرآن میں درج ہیں کہ اللہ کے مخلس بندوں پر شیطان کو زور نہ ہو گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے شرآلودہ ہو گئے تھے (نعوذ باللہ) ’’ قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِی لَأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْأَرْضِ وَلَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ۔ إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمْ الْمُخْلَصِینَ ‘‘ [7]۔ ترجمہ: ؛ اس نے کہا: پروردگارا! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں مادی نعمتوں کو زمین میں ان (انسانوں) کی نگاہ میں مزّین کروں گا اور ان سب کو گمراہ کروں گا سوائے تیرے مخلص بندوں کے ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ وَکَفَی بِرَبِّکَ وَکِیلًا ‘‘[8] ترجمہ؛ (لیکن جان لے) تو ہرگز میرے بندوں پر تسلط حاصل نہیں کر سکے گا یہی کافی ہے کہ تیرا پروردگار ان کا محافظ و وکیل ہے۔ یہاں اُستاد محمود ابوریہ، یہ آیات ذکر کرنے کے بعد اس قسم کی روایات پر اعتماد کرنے والوں کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ وکیف یدفعون الکتاب بالسنۃ، أو یعارضون المتواتر الذی یفید الیقین، بأحادیث الآ حادالتی لاتفید اِلاالظن؟! ‘‘یہ لوگ کس طرح کتاب خدا کو سنت ظنیہ اور متواتر احادیث کہ جو یقینی ہیں کو اخبار احاد کہ جن سے فقط ظن وگمان حاصل ہوتا ہے، کے ذریعے ردّ کر دیتے ہیں “[9]‘۔

روایات عصمت رسول کے منافی ہیں[ترمیم]

جیسا کہ انس نے نقل کیا ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے کو چیر پھاڑ کر آب زم زم سے دھویا گیا ہے۔یہ بات اس لحاظ سے بھی ضعیف اور ناقابل اعتماد ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معصوم ہونا متفق علیہ ہے۔ تمام مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر قسم کی شیطانی آلودگی سے پاک و پاکیزہ تھے اور شیطان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کسی قسم کا تسلط حاصل نہیں تھا۔ جیسا کہ شیخ محمد عبدہ کہتے ہیں: ’’والمحقق عندنا انہ لیس للشیطان سلطان علی عباد اللہ المخلصین، وخیرہم الانبیاء والمرسلین ‘‘[9]۔
تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے کو چاک کر کے اُسے دھونے کی ضرورت پیش آتی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک پر ٹانکوں کے نشان[ترمیم]

صحیح مسلم کی روایت میں انس بن مالک کے بقول:
قال انس: ’’ وقد کنت اری اثر ذلک فی صدرہ‘‘
ترجمہ؛ انس کہتے ہیں: میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے میں ٹانکے لگے ہوئے دیکھے ہیں۔
حضرت انس نے یہ نشانات کب دیکھے ہیں: پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن میں یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں؟ کیا حضرت انس نے ہی یہ نشانات دیکھے ہیں یا دوسرے صحابہ نے بھی دیکھے ہیں؟ اگر دیکھے ہیں تو دوسروں نے اس کے بارے اظہار کیوں نہیں فرمایا؟ اس طرح کے سوالات بھی ان روایات پر کیے گئے ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ طبری، جلد دوم، حصہ اول، دارالاشاعت، کراچی، طبع 2003ء
  2. تاریخ یعقوبی ص 222(اُردو )
  3. صحیح مسلم، ج1 کتاب الایمانح 413
  4. الصحیح من السیرۃ النبی ج1ص83
  5. تفسیر مفاتیح الغیب فخر رازی ج 32،ص2
  6. اضوء علی السنۃ المحمدیۃ او دفاع عن الحدیث،ص186
  7. ^ ا ب سورۂ حجر 39،40
  8. ^ ا ب سورۂ اسراء65
  9. ^ ا ب پ اضوء علی السنۃ المحمدیۃ،ص188
  10. سیری در صحیحین ،ص246
  11. بحار الانوار ،ج16 ،ص140
  12. اضوء علی السنۃ المحمدیۃ،ص188، الصحیح مین سیرۃ النبی ج1،ص89
  13. صحیح بخاری ،ج6، ص115ح،4548،ترجمہ مولانامحمدداؤد راز
  14. الصحیح فی سیرۃ النبی ،ج1،ص 88
  15. سورۂ نجم 28
  16. اضوء علی السنۃ المحمدیۃ او دفاع عن الحدیث ،ص88
  17. سیرۂ ابن ہشام ج1، ص177
  18. سیرۂ ابن ہشام، ج1 ص 174، سیرۂ حلبی، ج1 ص 166
  19. الصحیح مین سیرۃ النبی، ج1،ص89

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]