وسیلہ (شرع)
1.جائز وسیلہ میں اللہ کے سامنے اپنا ایمان اور اعمال رکھ کر دعا کی جا سکتی ہے۔ 2.کسی بھی نیک اور صالح آدمی سے دعا کرائی جا سکتی ہے یا اس کا واسطہ دے کر دعا کی جا سکتی ہے چاہے وہ زندہ ہوں یافوت ہو گئے ہوں.ارشاد ہوا. يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَٱبْتَغُوٓا۟ إِلَيْهِ ٱلْوَسِيلَةَ وَجَٰهِدُوا۟ فِى سَبِيلِهِۦ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ، 5-Al-Ma'ida : 35 وسیلہ“ واسطہ کو کہتے ہیں، دعا کرنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یادیگر انبیائے کرام، صحابہٴ کرام، ان کے نیک اعمال، اپنے نیک اعمال، قرآن، زبور، توریت، انجیل کے وسیلہ سے اگر دعا مانگے اور یوں کہے کہ اے اللہ ان کے وسیلہ سے ہماری دعا قبول فرما، تویہ درست ہے اور احادیث سے ثابت ہے، وسیلہ اختیار کرنا کوئی ضروری نہیں ہے، نہ اللہ تعالیٰ اس کا محتاج ہے، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ وسیلہ کے ذریعہ دعا جلد قبول ہوتی ہے
لغوی معنی
[ترمیم]الوسیلۃ کے معنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے کے ہیں چنانچہ معنی رغبت کو متضمن ہونے کی وجہ سے یہ وصیلۃ سے اخص ہے۔ در حقیقت توسل الی اللہ علم و عبادت اور مکارم شریعت کی بجا آوری سے طریق الہی ٰ کی محافظت کرنے کا نام ہے اور یہی معنی تقرب الی اللہ کے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت کرنے والے کو واسل کہا جاتا ہے [1]
حکم ربانی
[ترمیم]اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے اے وہ لوگوں جو ایمان لے آئے ہو اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو(اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو) تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔المائدہ:35)
سورۂ بنی اسرآئیل:57 میں اللہ کا ارشاد ہے :((یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیا دہ نزدیک ہو جائے۔ وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں،(بات بھی یہی ہے)کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے)۔
اصطلاحی معنی
[ترمیم]حافظ صلاح الدین یوسف احسن البیان میں رقم طراز ہیں: وسیلہ کے معنی،ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو۔امام شوکانی فرماتے ہیں-:((إن الوسیلة التي هي القربة تصدق علی التقوی وعلی غیر ها من خصال الخیر،التي یتقرب العباد بها إلی ربهم))
وسیلہ ایک خاص مقام
[ترمیم]وسیلہ ایک خاص درجہ ہے جس سے اونچا کوئی اور درجہ نہیں اور مختلف(احادیث) اور اجماع امت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ وہ درجہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مخصوص ہے۔ پھر ہر شخص کو طلب گار وسیلہ ہونے کا حکم کس طرح دیا گیا (ناممکن الحصول چیز کو مانگنے کا حکم لاحاصل ہے) اس حکم سے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرتبۂ وسیلہ پر پہنچنا دوسروں کے لیے بھی ممکن ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مرتبۂ وسیلہ تو براہ راست (بغیر کسی دوسرے کے ذریعہ کے ) مخصوص ہے لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے دوسرے اولیاء امت اور کاملین کے لیے بھی وہاں تک رسائی ممکن ہے (احادیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : کی وساطت سے مرتبۂ وسیلہ تک کسی دوسرے کی رسائی کی نفی نہیں کی گئی صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : کی ذاتی خصوصیت کو ظاہر کیا گیا ہے) فائدہ : رغبت اور محبت ‘ وسیلہ کے مفہوم میں داخل ہے جوہری نے صحاح میں یہی صراحت کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مراتب کی قرب کی ترقی بغیر محبت کے ناممکن ہے اسی کی تائید حضرت مجدد قدس سرہٗ کے اس قول سے ہوتی ہے کہ (نظری) سیر مرتبۂ لا تعین (اطلاق) میں جو قرب کا سب سے بڑا درجہ ہے اس سے اونچا کوئی درجہ نہیں اور اسی مرتبہ کو بطور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد میں ظاہر فرمایا ہے کہ میرے لیے اللہ کی معیت میں (یعنی اللہ کے قرب کے مرتبہ میں) ایک وقت ایسا بھی (آتا) ہے جس میں میرے ساتھ کسی مقرب فرشتے اور نبی مرسل کی بھی گنجائش نہیں ہوتی (یعنی تنہا میں ہی اس وقت اس چوٹی کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہوں) یہ سیر صرف محبت سے وابستہ ہے (یعنی اس سیر کا مدار صرف محبت پر ہے ترقی محبت ہی سے یہ مرتبۂ سیر حاصل ہوتا ہے) اور محبت اتباع سنت کا ثمرہ ہے اللہ نے فرمایا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمْ اللّٰہپس سنت کی پوری پیروی اور ظاہری و باطنی اتباع سے ہی حضور کی وساطت سے یہ مرتبۂ محبت حسب مشیت الٰہیہ حاصل ہوجاتا ہے۔[2]
وسیلہ مصطفے ٰ
[ترمیم]حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا کے دربار میں وسیلہ بنا نا یہ حضرات انبیا مرسلین کی سنت اور سلف صالحین کا مقدس طریقہ ہے۔ اور یہ توسل حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ سے پہلے آپ کی ظاہری حیات میں اور آپ کی وفات اقدس کے بعد تینوں حالتوں میں ثابت ہے۔[3]