ویسٹ فالن معاہدۂ امن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

یورپ کی تاریخ میں ویسٹ فالن کا امن معاہدہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس معاہدہ کے نتیجہ میں یورپ میں ایک بڑی مذہبی جنگ کا خاتمہ ہوا اور یورپ کا وہ سیاسی نقشہ تشکیل پایا جو کچھ رد و بدل کے ساتھ اب تک باقی ہے۔ اس معاہدہ میں یورپ کی تمام سیاسی اور مذہبی طاقتوں نے حصہ لیا اور اس لحاظ سے اسے متحدہ یورپ کی جانب پہلا اہم قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔

تعارف[ترمیم]

ازمنہءوسطی میں یورپ کی مسیحیت دو بڑے گروہوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ان میں سے ایک گروہ کتھولک مسیحیت تھا جس کے سربراہ جناب پوپ صاحب تھے۔ اس کے مقابل پر دوسرا گروہ پروٹسٹنٹ مسیحیوں کا تھا۔ یورپ کے شمال میں بالعموم پروٹسٹنٹ جبکہ جنوب میں کتھولک مسیحیت کے حامی اکثریت میں تھے۔ اس مذہبی تقسیم کے علاوہ یورپ اس وقت سیاسی طور پر چھوٹے چھوٹے نوابوں اور رئیسوں کے تصرف میں تھا جو آگے کسی نہ کسی بادشاہ کے دربار سے منسلک تھے اور بہت سے ان میں سے آزاد بھی تھے۔ عام طور پر مذہبی آزادی موجود نہ تھی اور ہر بادشاہ کا مذہب اختیار کرنا اس کی تمام رعایا کے لیے بھی ضروری تھا۔ یوں یورپ اس وقت سیاسی اور مذہبی تقسیم کے لحاظ سے ایک ایسے قالین کا نقشہ پیش کر رہا تھا جس میں صدہا مختلف رنگ بھر دئے گئے ہوں۔ بڑی طاقتوں میں یورپ کے مرکز میں مقدس رومی سلطنت ،جنوب میں فرانس اور سپین کی کتھولک حکومتیں جبکہ شمال میں سویڈن کی پروٹسٹنٹ طاقت تھی۔

آغاز[ترمیم]

مذہبی اور سیاسی اختلافات کی بنا پر یہ یورپ کی تمام طاقتیں 17 ویں صدی میں آپس میں بر سر پیکار تھیں۔ مغرب میں ہالینڈ کے علاقے، جو اس وقت سپین کے زیر حکومتتھے اپنی آزادی کے لیے 80 سالہ جنگ لڑ رہے تھے، جنوب میں سپین اور فرانس کے درمیان بھی جنگ جاری تھی۔ اسی طرح شمالی یورپ کے پروٹسٹنٹ مسیحی اور جنوبی یورپ کے کتھولک مسیحی مذہبی بنیادوں پر ایک ہولناک جنگ میں ایک دوسرے سے نبردآزما تھے جسے 30 سالہ جنگ کہا جاتا ہے۔ صدیوں پر پھیلی ان نہ ختم ہونے والی جنگوں نے معاشی اور معاشرتی لحاظ سے یورپ پر تباہ کن اثرات مرتب کیے تھے۔ بعض علاقوں میں جنگ، بھوک اور وباﺅں کی وجہ سے آبادی کا دو تہائی حصہ لقمہ اجل بن چکا تھا۔ اس صورت حال میں یورپ کے اکابرین نے بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ ایک امن کانفرنس بلائی جائے جس میں یورپ کی تمام طاقتوں کی نمائندگی ہو اور تمام مذہبی و سیاسی جنگوں کا حل تلاش کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے کئی سال کی گفت و شنید کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ کانفرنس میں حصہ لینے والے تمام نمائندگان کو حفاظت اور آزادانہ سفر کی ضمانت دی جائے۔ مذہبی اختلاف کی بنیاد پر یہ انتظام بھی کیا گیا کہ کتھولک طاقتوں کے نمائندے میونسٹر شہر میں جمع ہوں جہاں کیتھولک مذہب اکثریت میں تھا جبکہ پروٹسٹنٹ طاقتوں کے نمائندے قریباَ 80 کیلومیٹر شمال میں واقع اوسنابروک میں جمع ہوں جہاں اکثریت پروٹسٹنٹ مسیحیوں کی تھی۔ یہ سارا علاقہ غیر فوجی قرار دیا گیا یعنی کسی بھی طاقت کو اس علاقے میں اپنی فوج بھیجنے کی اجازت نہ تھی۔ آغاز ہی سے یہ ظاہر تھا کہ یہ کانفرنس لمبی چلے گیچنانچہ کانفرنس کو جنگ کے دوران بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور یوں جنگ اور امن کانفرنس کا یہ مربا سالہاسال تک پکتا رہا۔ 1643 اور 1649 کے درمیان کل 109 نمائندگان نے اس امن معاہدہ کی تشکیل میں حصہ لیا جن میں 16 یورپی ممالک، 140 آزاد ریاستوں کے کل 66 نمائندے اور 38 گروہوں کے 27 نمائندے شامل تھے۔

طریق کار[ترمیم]

کانفرنس کا طریق یہ تھا کہ پہلے نمائندے آپس میں بعض امور طے کرتے اور پھر اپنی اپنی حکومتوں کو ان سے مطلع کرتے۔ اس کے لیے سپین اور اٹلی تک کم و بیش 18دن لگتے تھے۔ وہاں بادشاہ یا پوپ وغیرہ غور کے بعد جواب دیتے جو پھر 18دن وقفہ سے کانفرنس تک پہنچتا۔

نتائج[ترمیم]

1648 کے یورپ کا ایک نقشہ
1648 میں مقدس رومن سلطنت کا نقشہ.

ریاستوں کو اپنا مذہب آزادانہ طور پر اختیار کرنے کی اجازت دی گئی جبکہ اس سے پہلے طاقتور بادشاہ اپنے اپنے دائرہ میں صرف اپنا مذہب جائز رکھتے تھے چنانچہ سارا علاقہ یا کتھولک ہوتا تھا یا پروٹسٹنٹ۔ اب یہ حق آزاد ریاستوں کو دے دیا گیا۔ وہ مسیحی جو دوسرے مذہب کی ریاست میں رہتے تھے ان کو مخصوص اوقات میں پبلک میں عبادت کی اجازت دی گئی جو پہلے نہیں تھی۔ سیاسی طور پر نیدرلینڈ اور سوٹزرلینڈ کو آزاد ی ملی۔ تجارت اور نقل و حمل پر عائد بعض پابندیاں اٹھا لی گئیں اور دریائے رائن میں ایک حد تک آزادی سے جہاز چلانے کی اجازت دی گئی۔ اس لحاظ سے اس معاہدہ کو موجودہ یورپی یونین کا ایک ابتدائی خاکہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ تمام ممالک کا برابری کی سطح پر ہونا، مذہبی آزادی کا تصور اور تمام یورپی ممالک کا مل کر معاہدہ کرنا ایک ایسی چیز تھی جو اس کے بعد ہمیشہ یورپی اکابرین کے مد نظر رہی اور انہی امور اور اصولوں پر آج کے یورپ کی بنیاد ہے۔ جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو وہ کمرے جہاں سب شرائط طے ہوئیں انھیں محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا۔ چنانچہ جنگ میں ان علاقوں کا 90فی صد حصہ تباہ ہونے کے باوجود آج بھی لکڑی کے وہ بینچ اور تمام چیزیں اپنے اصل مقامات پر صحیح حالت میں محفوظ ہیں اور ان کمروں کو میوزیم بنا دیا گیا ہے۔

بیرونی روابط[ترمیم]