پتن منارہ
پتن منارہ رحیم یار خان۔ 326 قبل مسیح۔
رحیم یار خان سے جانب جنوب 8 کلومیٹر کے فاصلے پر پتن منارہ واقع ہے۔ پتن منارہ تاریخ میں پتن پور کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بعض محققین کے مطابق پتن پور سکندراعظم نے تعمیر کروایا تھا۔ اور یہاں اک بہت بڑی درسگاہ تعمیر کی تھی۔ جبکہ کچھ کے نزدیک یہ شہر سکندراعظم کے زمانے سے بھی پہلے کا آباد تھا۔ اور صحرائے چولستان میں سے گزرنے والا ایک قدیم دریا ہاکڑا یا گھاگھرا پتن پور کے قریب سے بہتا تھا۔ سکندراعظم نے اس شہر کو فتح کرنے کے بعد کچھ عرصہ اپنی فوج کے ساتھ یہاں قیام کیا تھا۔ اسی قیام کے دوران سکندراعظم نے یہاں ایک مینار تعمیر کروایا۔ جس کا نام پتن منارہ تھا۔
جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ یہ مینار شائد سکندراعظم نے تعمیر کروایا یا اس سے پہلے ہی موجود تھا۔ اس لیے اوپر عنوان کے ساتھ جو 326 قبل مسیح کا سال لکھا گیا ہے۔ وہ پتن منارہ کی تاریخ تعمیر ہے اور یہ ایک محتاط اندازے سے ہے۔ اس سال سکندر اعظم نے اس علاقے میں پڑاؤ ڈالا تھا اور یہ مینار تعمیر کروایا تھا۔
پتن پور موہن جوڈارو اور ٹیکسلا کی تہزیبوں کا امین رہا ہے۔ اور تاریخ میں ہندومت، بدھ مت کا خاص مرکز رہا ہے۔ اس کے کنارے بہنے والا دریا ہاکڑا موسمی تبدیلیوں کے باعث خشک ہو گیا۔ دریا خشک ہونے پتن پور کی عظمت رفتہ رفتہ ختم ہونے لگی۔ اور ایک وقت آیا کہ پورا علاقہ ویران ہو گیا۔ بعض روایات کے مطابق پتن منارہ خزانہ دفن ہے۔ انگریزوں کے دور حکومت میں 1849 میں کرنل منچن نے اس خزانے کو تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔
رحیم یار خان میں دریائے ہاکڑہ کے کنارے پر آباد پتن پور جو کبھی تہذیب و تمدن کا آئینہ دار تھا، آج یہ کھنڈر اس کی داستان بتانے سے بھی قاصر ہیں۔ دریائے ہاکڑہ نے اپنا رستہ بدلا تو لوگ پانی کی بوند بوند کو ترسنے لگے۔ آج یہ صرف اینٹوں کا مینار باقی رہ گیا ہے۔ جو کسی وقت بھی زمین بوس ہونے والا ہے۔ قریبی گاؤں کے پچھلی طرف سے اس مینار کا راستہ ہے۔ احاطے میں داخل ہوکر سامنے پرانی سیڑھیاں ہیں۔ جو مینار کے اوپر تک جاتی ہیں۔ مینار کا کافی حصہ زمین میں دھنس چکا ہے۔ پتن پور تہذیب کی آخری نشانی پتن منارہ کی بحالی کے لیے محکمہ آرکیالوجی کی طرف سے لاکھوں کے فنڈز بھی جاری ہوئے مگر بات کاغذی کارروائیوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اگر پتن منارہ کی حفاظت پر فوری توجہ نا دی گئی تو آنے والے چند سالوں میں اس کا شائد نشان ہی باقی رہ پائے۔
پتن منارہ کے قریبی گاؤں میں ایک 1840 کی دہائی کی قدیم مسجد بھی ہے۔ جسے وہاں کے مقامی راہنما ابوبکر سانول نے تعمیر کروایا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسجد بھی محکمہ اوقاف اور آثارقدیمہ کی نااہلی پر نوحہ کناں ہے۔ محمکہ آثار قدیمہ اور محمکہ سیاحت پنجاب سے گزارش ہے کہ پتن منارہ کی حفاظت اور بحالی کا کام شروع کیا جائے۔ تاکہ یہ تاریخی ورثہ آنے والی نسلیں کیلے محفوظ ہو سکے۔