ڈاکسنگ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ڈاکسنگ انٹرنیٹ کے جدید دور کی ایک اصطلاح ہے، جس کے مطابق جدید انٹرنیٹ کے دور میں کسی کی جملہ شناختی یا نجی معلومات کا آن لائن افشا کر دینا۔ اس سے کسی کی نجی زندگی میں بھونچال آ سکتا ہے، لوگوں کو شدید مالی نقصان ہو سکتا ہے، بدنامی ہو سکتی ہے یا محض آزادانہ اور بے روک ٹوک نقل و حرکت متاثر ہو سکتی ہے۔

آن لائن ہراسانی کی وسیع اقسام میں جو شامل ہیں ان میں جب کوئی فرد یا گروپ کسی اور کو شدید خطرناک انداز میں ہدف و نشانہ بناتا ہے۔ یہ ایک مجموعی اصطلاح ہے جس میں نفرت بھری باتیں، جنسی طور پر ہراساں کرنا یا بہ الفاظ دیگر جنسی ہراسانی، ہیکنگ اور ساتھ ساتھ ڈاکسنگ کرنا بھی ایک جدید اختراع ہے جس کے معنی کسی کی ذاتی معلومات آن لائن شئیر کرنا ہے۔ ریاستہائے متحدہ میں کووڈ 19 کی وبا کے وقت پر یہ نمایاں بات دیکھی گئی تھی کہ پر خبر و اطلاعات سے جڑی تنظیموں نے ایک دوسرے کے ساتھ مشارکت کرکے اعلی معیار کی نامہ نگاری کی تھی۔ ماہرین کے مطابق اطلاعاتی ادارے اسی طرح سے تال میل کرکے اسی پر جوش شراکت داری کے ساتھ وہ رپورٹروں کو ڈاکسنگ اورہراسانی کے شکار ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک سے زیادہ نیوز رومز، مشترکہ سیکیورٹی ماہراوراندرونی رپورٹنگ سسٹم میں مل کر حصہ ڈال سکتے ہیں، جو صحافیوں کے لیے موافق ماحول بنا سکتا ہے۔ [1]

پاکستان کی صورت حال[ترمیم]

انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ پاکستان میں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات نے بدصورت رخ اختیار کر لیا ہے۔ آن لائن سٹاکنگ، تصویر پر مبنی بدسلوکی، ڈاکسنگ، سائبر دھونس، ڈیجیٹل تشدد کی کارروائیوں کے ذریعے خواتین کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ 2022 میں پاکستان میں آن لائن ہراساں کرنے کے کل 2,695 معاملے رجسٹر کیے گئے جن میں سے 58.6 فیصد متاثرین خواتین تھیں۔اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں 40 فیصد خواتین کو انٹرنیٹ پر ہراساں کرنے کی مختلف اقسام کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ آن لائن ہراسانی کا نشانہ بننے والی خواتین کا بڑا حصہ حقوق کارکن اور صحافی ہیں۔[2]

میانمار کی صورت حال[ترمیم]

ماہرین نے میانمار کی مارچ 2023ء میں دیکھی گئی صورت حال پر کہا ہے کہ ہر روز خواتین کو آن لائن جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ انسانی حقوق کے لیے کھڑی ہیں، فوجی حکمرانی کی مخالف ہیں اور ملک کو جمہوری راہ پر واپس لانے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ مزید یہ کہ 'ڈاکسنگ' اور آن لائن ہراسانی کی دیگر اقسام نے میانمار میں خواتین کارکنوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور غیر جانبدار انجمنوں کو پہلے سے درپیش بہت سے خطرات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔[3]

مزید دیکھیے[ترمیم]

  • سماجی میڈیا

حوالہ جات[ترمیم]