کثرت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

معاشیات میں کثرت (انگریزی: Post-scarcity economy) ایسی صورت حال ہے جس میں زیادہ تر اشیاء بہت زیادہ تیار کی جا سکتی ہیں، جس کے لیے کم سے کم انسانی مزدوری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے یہ اشیاء بہت ہی کم قیمت پر کبھی کبھار مفت بھی مل سکتی ہیں۔[1][2] کثرت سے مراد یہ نہیں ہے کہ قلت پر پوری طرح سے قابو پا لیا گیا ہے۔ مگر اس سے مراد یہ ضرور ہے کہ لوگ اپنی بنیادی بقاء کی ضروریات کی تکمیل کر سکتے ہیں اور اس کے علاوہ وہ اپنی قابل لحاظ حد تک مصنوعات اور خدمات کی خواہشات کی تکمیل کر سکتے ہیں۔[3] اس موضوع پر لکھنے والوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کچھ اشیاء مطالبے سے کم تعداد یا مقدار میں بھی کثرت والی معیشت میں بھی رہ سکتی ہیں۔[4][5][6][7]


معیشت میں کثرت اور بین الممالک تجارت[ترمیم]

بھارت کی ملائیشیا سے ربر مصنوعات کی برآمدات میں سالانہ اوسطاً 16.7 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ اس ملک میں دست یاب ہونے والے ربر کی کثرت کے سبب سے ہوا ہے۔ بھارت کی 2009ء میں ربر مصنوعات کی برآمدات کی مالیت 20.1 ملین امریکی ڈالر تھی جو 2018ء میں بڑھ کر 80.8 ملین ڈالر تک پہنچ گئی۔ ملائیشیا اور بھارت کے درمیان باہمی سالانہ تجارت کی مالیت کاحجم 15 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کو آزاد تجارتی معاہدہ اور آسیان ملکوں کی تنظیم کے تحت علاقائی آزاد تجارت معاہدے کی وجہ سے زبردست فروغ ملا ہے۔ اسی طرح اس عرصہ میں ملا ئشیا کے اس شعبے میں بھارت سے در آمدات کی مالیت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جو 2009ء میں 4.1 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2018 میں 29.7 ملین ڈالر ہو گئی ہے۔ یہ تجارتی اعداد وشمار اس بات کے غماز ہیں کہ بھارت کا طبی شعبہ تیزی سے ترقی کررہا ہے جس کی وجہ سے وہ ملائیشیا کی ربر مصنوعات کے لیے ایک اہم اور بڑا بازار ہے۔ ملائیشیا دنیا کے اعلٰی معیار کے طبی دستانے تیار کرنے اور بر آمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس نے اس میدان میں اچھی مہارت اور تجربہ حاصل کیا ہے۔ طبی دستانوں کے فروخت کے علاوہ صحت عامہ کے شعبے کے اہل کاروں تک ضروری سامان ملائیشیا تیار کرتا ہے اور بھارت اور دیگر کئی ممالک کو فراہم کرتا ہے۔[8]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Philip Sadler (2010)، Sustainable Growth in a Post-Scarcity World: Consumption, Demand, and the Poverty Penalty، Surrey, England: Gower Applied Business Research، صفحہ: 7، ISBN 978-0-566-09158-2 
  2. Robert Chernomas. (1984). "Keynes on Post-Scarcity Society." In: Journal of Economic Issues, 18(4).
  3. Karen Burnham (22 June 2015)، Space: A Playground for Postcapitalist Posthumans، اسٹرینج ہاریزنس، 14 نومبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2019، By post-scarcity economics, we're generally talking about a system where all the resources necessary to fulfill the basic needs (and a good chunk of the desires) of the population are available. 
  4. Peter Frase (Winter 2012)، Four Futures (5)، جاکوبین، 13 نومبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2019 
  5. Philip Sadler (2010)، Sustainable Growth in a Post-Scarcity World: Consumption, Demand, and the Poverty Penalty، Surrey, England: Gower Applied Business Research، صفحہ: 57، ISBN 978-0-566-09158-2 
  6. Abhimanyu Das، چارلی جین اینڈرس (30 ستمبر 2014)، Post-Scarcity Societies (That Still Have Scarcity)، آئی او 9، 14 نومبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2019 
  7. (Drexler 1986), See the first paragraph of the section "The Positive-Sum Society" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ e-drexler.com (Error: unknown archive URL) in Chapter 6.
  8. ربر صنعت سیکٹر میں ملائیشیا اور ہندوستان کے درمیان تجارتی فروغ کے زبرد ست امکانات: ملائیشیائی وزیر