گواہ
گواہ (انگریزی: Witness) سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس کسی واقعے یا معاملے کی پختہ معلومات ہیں۔ قانون کی رو سے گواہ وہ شخص ہوتا ہے جو رضا کارانہ طور پر یا زور زبر دستی کی وجہ حلفیہ ثبوت پیش کرتا ہے، جو زبانی بھی ہو سکتا ہے یا تحریری بھی کہ وہ کیا جانتا ہے یا چانتی ہے یا جاننے کے بارے میں ان کے پاس کیا دعوٰی ہے۔
عینی گواہ وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی قوائے حواس کے سبب پختہ معلومات ہیں کہ کیا واقعہ یا معاملہ پیش آیا ہے۔ ان حواس میں بصری نقطہ نظر، سننا، سونگھنا اور لمس یا چھونا شامل ہیں۔ انسانی نقطہ نظر مجرد کسی حِس کے بل پر ہو سکتا ہے یا خرد بین اور سینہ بین جیسے کسی آلے کی مدد سے ہو سکتا ہے۔
افواہی گواہ وہ ہوتا ہے جو کسی اور نے کہا ہے یا لکھا ہے۔ زیادہ تر عدالتوں کا حد بندیاں ہوتی ہیں کہ کب افواہی گواہی قابل قبول ہو سکتی ہے۔ یہ حد بندیاں عدالت علیا کی تحقیقات پر عائد نہیں ہوتی ہیں۔ ایضًا کئی انتظامی سماعتیں اور کسی گرفتاری یا تلاشی وارنٹ پر بھی یہ عائد نہیں ہوتے۔ اسی طرح سے کچھ بیانات افواہ پر مبنی نہیں سمجھے جاتے ہیں اور ان پر یہ حد بندیاں عائد نہیں ہوتی۔
جھوٹی گواہی دروغ گوئی پر مبنی ہوتی ہیں۔ یہ دنیا کے بیش تر عدالتوں میں ناقابل قبول اور قابل سزا سمجھی جاتی ہے۔ دنیا کی کئی عدالتوں نے اس کا سخت نوٹ لیا ہے۔ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ 'جو ایک جگہ جھوٹا ہوگا وہ ہر جگہ جھوٹا ہوگا، گواہی کے کسی حصے میں جھوٹ پر ساری گواہی جھوٹی تصور ہو گی'۔ عدالتیں جھوٹے گواہ کے خلاف کسی قسم کی لچک نہیں دکھا سکتی ہیں اور جھوٹی گواہی دینے پر کارروائی کی جاتی ہے۔[1]
دنیا میں سچی گواہی کی اپنی اہمیت اورافادیت ہے۔ اسے سراہا بھی جاتا ہے اور عدلیہ کی یہ بنیاد بھی ہے۔ کئی بار قتل کے مقدمے میں سزائے موت کا قیدی 12 سال بعد بری ہوتا ہے کیوں کہ سچی گواہی کے بغیر نظام عدل نہیں چل سکتا۔ جھوٹی گواہی دینا اصل ظلم ہے۔ پولیس اصل ملزم تک پہنچ جاتی ہے مگر جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں اور کئی بار بے قصور افراد زد میں آتے ہیں۔[2]