ہدیہ مجددیہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تعارف[ترمیم]

ہدیہ مجددیہ فارسی سے اردو ترجمہ

تالیف لطیف[ترمیم]

مولوی وکیل احمد سکندر پوری

مترجم[ترمیم]

پیر سید بدرمسعود شاہ گیلانی آستانہ عالیہ نوریہ چورہ شریف

امامِ ربانی، مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ[ترمیم]

امامِ ربانی، مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ، ایک مردِ درویش جس کے پاس نہ تیر وتفنگ،نہ نیزہ و بھالا اور نہ تلوار اور نہ لشکر و سپاہ تھے، جس کا کل سرمایہ ایک کچا حجرہ اور قرآن و حدیث کی کتابیں تھیں۔اُس نے سرہند شریف میں فرشِ زمین پر بیٹھ کر ہزاروں گمراہانِ راہ کو ہدایت بخشی اور لاکھوں انسانوں کو اپنے ربّ تعالیٰ کی معرفت عطا کی اورانھیں اپنے محبوب ﷺ کی سچی غلامی کی لڑی میں پرو کر شریعتِ محمدی ﷺ کا تابع فرمان بنا دیا۔ آپ کی شب و روز کی محنت سے کم وبیش اٹھارہ سال کی پُرامن جد و جہد کے نتیجے میں برصغیر میں اسلام کا پرچم ایک بار پھر پوری آب وتاب کے ساتھ لہرانے لگا۔ تمام کفریہ رسومات اور غیر شری اعمال و افعال کا خاتمہ ہو گیا۔

زیرِ نظر کتاب "ہدیۂ مجددیہ" شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے غلط فہمی پر مبنی حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کے مدلل جوابات پر مشتمل مستند تصنیف ہے، جسے مولوی وکیل احمد سکندر پوری نے تحریر فرمایا، اگرچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے نہ صرف اپنے اعتراضات واپس لے لیے اور حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ سے کمال عقیدت کا اظہار فرمایا۔ اللہ رب العزت ان باکمال ہستیوں پر اپنی کروڑہا رحمتیں نازل فرمائے، جن کی سعیِ جمیلہ سے دینِ اسلام کی روشنی ہم دور افتادہ غریبوں تک پہنچی۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی کے اعتراضات اور رُجوع[ترمیم]

لیکن حضرت امام ربّانی کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اِسی دوران میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ حضرت مجدد الف ثانی  کا ایک مرید حسن خان افغان اپنے ایک دوسرے پیر بھائی سے ناراض ہو گیا اور اس نے اس ناراضی کا بدلہ اپنے مرشد حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی سے اس طرح لیا کہ حضرت امام ربّانی رضی اللہ عنہ کے چند مکتوبات شریف میں تحریفات کرکے مختلف علمائے کرام کو بھیج دیں اور خود افغانستان بھاگ گیا۔ ان علمائے کرام میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی بھی تھے۔چونکہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی بھی خواجہ باقی باللہ کے مرید و خلیفہ تھے جس کی وجہ سے ان میں امام ربّانی  سے برابری کا ایک تصور بھی موجود تھا۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی   نے حقیقتِ حال کی تحقیق کیے بغیر صرف تحریف شدہ مکتوبات کو پیشِ نظر رکھ کر امام ربّانی کے ردّ میں ایک رسالہ لکھا۔ اس رسالہ کو مجدد الف ثانی کے مخالفین و معاندین نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اس کی خوب تشہیر کی اور مجدد الف ثانی کے مریدین و محبین کو آپ سے بدظن کرنے کی کوشش کی۔ حضرت امام ربّانی اس وقت اپنی زندگی کے آخری ایّام میں تھے۔آپ پر بیماری کا غلبہ تھا، اس بیماری کی وجہ سے اور خود کو مکمل طور پر اپنے ربّ کی طرف متوجہ کرنے کے لیے آپ دعوت و ارشاد کا کام اپنے بیٹوں اور خلفاء کے سپرد کرکے گوشہ نشین ہو چکے تھے، اس لیے آپ نے شیخ عبدالحق کے اعتراضات کے جواب لکھنے کی بجائے صرف اس پر اکتفا کیا کہ تحریف شدہ مکتوبات کی اصل نقول شیخ عبد الحق کی طرف بھجوا دیں کہ وہ خود ان کا مطالعہ کرکے حقیقتِ حال سے آگاہ ہو جائیں گے اور اپنے اعتراضات سے رُجوع کر لیں گے۔ ان مکتوبات شریف کے مطالعہ کے بعد محدث دہلوی کو پچھتاوا ہوا اور اپنے کیے کا مداوا کرنے کی کوشش میں حضرت خواجہ باقی باللہ کے خلیفہ حسام الدین کو ایک خط لکھا، جس میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا کہ حقیقت سے واقف ہونے کے بعد اب میرا دل حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے صاف ہو چکا ہے لیکن اِسی دوران میں دُنیائے اسلام کے آسمان کا یہ آفتاب اپنی روشنیاں بکھیرنے کے بعد اُفقِ آخرت میں غروب ہو چکا تھا۔

اگرچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنے اعتراضات واپس لے لیے تھے[ترمیم]

اگرچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنے اعتراضات واپس لے لیے تھے لیکن امام ربّانی سے مخاصمت رکھنے والوں نے اس رسالہ کو اس طرح محفوظ رکھا جس طرح ان کے ہاتھ میں دُنیا و مافیہا کا خزانہ لگا ہو۔ انھوں نے اس رسالہ کو نسل در نسل منتقل کیا اور اس رسالہ میں لگائے گئے اعتراضات کو گاہے بگاہے دُہراتے چلے گئے اور حیرت و افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلۂ عداوت ابھی تک تھما نہیں ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی کے ساتھ عقیدت و محبت رکھنے والے جیّد علمائے کرام و مشائخ عظام نے اس رسالہ کا علمی رد لکھا اور تمام اعتراضات کے علمی و عقلی دلائل کے ساتھ جوابات دیے۔

اس سلسلہ میں حضرت مولانا وکیل احمد سکندر پوری نے زیرِنظرکتاب ”ہدیہ مجددیہ“  تصنیف فرمائی، جس میں ان تمام اعتراضات کا بھرپور جواب لکھا گیا۔الحمد للہ! اس کتاب کا ترجمہ اور بعض مقامات کی شرح سیّد بدر مسعود شاہ گیلانی چورا شریف نے کی ہے تاکہ عوام تک حقائق پہنچائے جا سکیں۔ دُعا ہے کہ یہ ترجمہ بارگاہِ مجدد الف ثانی میں مقبول ہو کر توشۂ آخرت بنے۔