یعقوب یاور

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پچاس سے زیادہ کتابوں کے مصنف، مترجم، ترتیب کار، مولف، محقق، ناقد اور شاعر

پیدائش[ترمیم]

22 نومبر 1952ء کو کوٹ ، ضلع فتح پور ، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔

تعلیم[ترمیم]

یعقوب یاورؔ کو بعض وجوہ سے ہجرت کرکے 1972ء میں بھوپال آنا پڑا۔ دسویں درجہ تک پڑھائی فتح پور کے کوٹ میں ہوئی۔ بقیہ تعلیم بھوپال میں حاصل کی۔ 1974ء میں مراسلاتی طریقے سے انٹر پاس کیا۔ اسی سال ریگولر طالب علم کے طور سے سیفیہ کالج میں بی اے سال دوم میں داخلہ لے لیا۔ 1976ء میں گریجویٹ ہو گئے۔ 1978ء میں ایم اے کیا۔ بی اے میں سب سے زیادہ نمبر اردو میں ہی آئے تھے، لیکن ارادہ کسی اور سبجیکٹ میں ایم اے کرنے کا تھا لیکن عبد القوی دسنوی کے مشورے پر اردو میں ایم اے کرنے کا فیصلہ کیا۔ یعقوب یاورؔ نے 1990ء میں پی ایچ ڈی عبد القوی دسنوی کی نگرانی میں ہی مکمل کی۔ ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع ترقی پسند تحریک اور اردو شاعری تھا۔

تدریس[ترمیم]

پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنے سے پہلے ہی یعقوب یاور کی قسمت نے یاوری کی اور وہ بنارس ہندو یونیورسٹی سے منسلک ایک گرلز کالج میں بحیثیت استاد ملازم ہو گئے۔ اس کے بعد وہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہو گئے اور پھر صدر شعبہ تک پہنچے۔ جولائی 2018ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔

ادبی سفر[ترمیم]

یعقوب یاورؔ کئی حوالوں سے اپنی فکری پرواز کو سپرد قرطاس کرتے ہیں۔ وہ شاعر بھی ہیں۔ ناول نگار بھی ہیں۔ تحقیق اور تنقید ان کا خاص میدان ہے۔ شاعری، نثر نگاری اور تنقید کے میدان کے شہسوار ہونے کے ساتھ ساتھ یعقوب یاور ایک ماہر ترجمہ نگار بھی ہیں۔ وہ 20 سے زیادہ انگریزی کتابوں کو اردو قالب میں تبدیل کر چکے ہیں۔ یعقوب یاورؔ کی پہلی مطبوعہ کتاب بھی ایک ترجمہ تھی۔ انھوں نے جرمن مصنف ہرمن ہیس کے ناول سدارتھ کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ ہرمن ہیس جرمنی کا صاحب طرز قلمکار تھا۔ یعقوب یاورؔ طبع زاد ناول بھی خوب لکھتے ہیں اور دیگر زبانوں کے ناولوں کو اردو میں ترجمہ بھی اسی خوبی کے ساتھ کرتے ہیں کہ زبان بدل جانے کے بعد بھی اصل متن میں سر مو فرق نہیں آتا۔ کسی زبان کے شاہکار کو کسی دوسری زبان میں تبدیل کرنا بہت مشکل فن ہے۔ ہر زبان کا اپنا ایک مزاج اور آہنگ ہوتا ہے۔ ترجمہ نگار کو اس زبان کے مزاج اور آہنگ کی کما حقہ جان کاری ہونا بہت ضروری ہے۔ یعقوب یاور ترجمے کے فن سے بہت اچھی طرح واقف ہیں اور ترجمہ ان کا پسندیدہ شوق ہے۔ ترجمہ کے لیے وہ جن کتابوں کا انتخاب کرتے ہیں اس سے ان کی علمی استعداد، زبان پر گرفت اور مزاجی کیفیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

ترجمہ نگاری[ترمیم]

یعقوب یاورؔ نے غیر ملکی مصنفین کی 16 فکشن نگارشات کو اردو کا قالب عطا کیا ہے۔ مغربی مصنفوں میں یعقوب یاورؔ کی پہلی پسند اگاتھا کرسٹی ہے۔ جاسوسی پر لکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ اگاتھا کرسٹی کے 7 ناولوں کو یعقوب یاور نے اردو میں ترجمہ کیا ہے، کین فالیٹ کے 4، جرمن مصنف ہرمن ہیس کے 3، ماریو پوزو کے4، بورس پاسٹر نیک کے 2، ہینری شیرئر کے 2، ڈان براؤن کے 2 اور وسنت دوے اور ہینرک ابسن کے ایک ایک ناول کا وہ اردو قارئین کے لیے ترجمہ کر چکے ہیں۔ یعقوب یاورؔ نے ہندوستان کے کئی انگریزی مصنفین کی 6 نان فکشن کتابوں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ان میں آئی جے پٹیل کی تحریر کردہ سردار پٹیل کی سوانح، جے کرشنا مورتی کی 4 کتابیں جن میں فلسفے کے موضوعات پر 2 کتابیں بھی ہیں اور سائنس کے موضوع پر دلیپ ایم سالوی کی ایک کتاب شامل ہے۔

ناول نگاری[ترمیم]

یعقوب یاورؔ چار ناول تحریر کر چکے ہیں۔ ان کے تحریر کردہ ہر ناول کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور کچھ کے ہندی ورزن بھی شائع ہوئے ہیں۔ دِل مْن ان کا سب سے زیادہ مقبول ناول ہے۔ ان کا یہ ناول پاکستان میں بھی شائع ہو کر مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔ دِل مْن کے اردو میں تین ایڈیشن ہندی میں دو ایڈیشن اور انگریزی میں دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ دل من کا ہندی ورزن، پرلے سندھو کے نام سے شائع ہوا ہے۔ یہ ناول سندھ کی تہذیب اور تمدن کے پس منظر میں ایک نیم تاریخی نوعیت کا ناول ہے۔ دِل مْن میں سندھ کی تہذیب کے پس منظر میں ایک ایک عورت کے انتقام کی داستان رقم کی گئی ہے۔ یعقوب یاورؔ نے معاشرتی، جغرافیائی اور تاریخی شواہد کو یکجا کرکے اسے فکشن کا روپ دے دیا ہے۔ یعقوب یاورؔ کا ایک اور شاہکار ناول ہے، جہاد۔ یہ، سنگ گراں ہے زندگی، کے نام سے پاکستان میں شائع ہوا ہے۔ ہندی میں جہاد کے دو ایڈیشن منظر عام پر آچکے ہیں۔ یہ ناول گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد کی صورت حال پر مبنی ہے۔ جہاد، ناول ہندی میں سنگھرش، کے نام سے منظر عام پر موجود ہے۔ دل من، دھول دیپ اور عزازیل ہندی پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے ہندی میں بھی دستیاب ہیں۔

شاعری[ترمیم]

یعقوب یاور کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ الف، ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو غزلیات پر مشتمل ہے اور دوسرا، قلم گوید، نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ تیسرا شعری مجموعہ، بار زیاں، کے عنوان سے حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔ انھوں نے ایک زمانے میں کالم بھی لکھے تھے۔ امروز، کے نام سے انھوں نے ان کالموں کو بھی کتابی شکل دے دی ہے۔ ترقی پسند تحریک اور اردو شاعری، ان کا تحقیقی مقالہ تھا وہ بھی کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے۔

تنقید نگاری[ترمیم]

تحریک و تعبیر ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اپنے تنقدی مضامین کو انھوں نے دو جلدوں میںْ مرغزار افکار، کے عنوان سے بھی شائع کیا ہے، افہام، بھی یعقوب یاورؔ کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے یہ مضامین انھوں نے دس برسوں کے دوران تحریر کیے تھے۔ یعقوب یاور کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کا ایک اور مجموعہ احتساب، کے نام سے موجود ہے۔ یعقوب یاورؔ نے ایک اہم کام آغا حشرؔ کشمیری کے کلیات کو جمع کرکے شائع کرنے کا کیا ہے۔