آٹھویں امام علی بن موسی الرضا(ع) کی سیاسی زندگی
اس مضمون یا قطعے کو علی رضا میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی امامت کا آغاز
[ترمیم]جب حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کوہارون رشید نے قید میں رکھنے کے بعد زہر دے کر شہید کر دیا تو، عباسی سلطنت کے وسیع قلمرو میں مکمل طور پر ایک جمود کی سی کیفیت طاری تھی۔ اس تاریک اورظلمت کے زمانے میں امام علی ابن موسیٰ الرضاعلیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک کے بقول: ’’ہارون کی تلوار سے خون ٹپک رہاتھا۔‘‘ ہمارے معصوم اور بزرگوار امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے تشیع کے اس پودے کو طوفانی حوادث کے گزند سے محفوظ رکھا اور اپنے پدرِ بزرگوار کے اصحاب اور ساتھیوں کو تتر بتر اور نااُمید ہونے سے بچایا اور اپنی جان کو جو مکتبِ تشیع کے لیے اصلی ستون اور روح کی حیثیت رکھتی تھی، تقیہ کے حیرت انگیز اصول پر عمل کر کے محفوظ رکھااورمقتدر ترین عباسی خلفاء کے مکمل تسلط اور حاکمیت کے زمانے میں بھی امامت کی تحریک کو قائم اور جاری رکھا۔ تاریخ امام علی رضاعلیہ السلام کی زندگی کے ان واقعات کوبیان کرنے سے قاصر ہے جو دس سال ہارون رشید کے عہد میں اور پانچ سال اس کی خلافت کے بعد خراسان اور بغداد کی خانہ جنگی کے دوران رونما ہوئے۔ لیکن تدبر اورعقلی دلائل سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے آباواجدادؑکی اس طویل المدّت تحریک اور جدو جہد کو جو کربلا اور اس کے بعد ہر عہد میں جاری و ساری رہی، انھیں مقاصدکے حصول کے لیے جاری رکھا۔ 198ہجری میں جب مامون اپنے بھائی امین کے خلاف حصولِ اقتدار کی جنگ سے فارغ ہوا اور بغیر کسی مخالفت کے خلافت کو اپنی مٹھی میں لے لیاتواس کا اگلا اہم ہدف علویوں اور شیعہ تحریکوں سے نمٹناقرارپایا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے سابقہ خلفاء کے تجربات کو اپنے سامنے رکھا، وہ تجربے جو اس نے اس تحریک کی دن بہ دن بڑھتی ہوئی طاقت، اس کے پھیلاؤ اور گہرے اثرات سے حاصل کیے تھے اور خلافت اپنی طاقت کے باوجود اس کو نابود تو کیا حتیٰ اس تحریک کو محدود کرنے اور رکوانے میں بھی ناکام رہی تھی۔ وہ یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ ہارون کی شان وشوکت،رعب ووحشت اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو کافی مدت تک جیل میں قیدو بند رکھنے اور بالآخر حضرت کو زہر دینے کے باوجود ان تحریکوں اور تشیع کی سیاسی، تبلیغی، فکری اور مسّلحانہ جدوجہد کو روکنے میں کامیاب نہ ہو سکا تھا اور اب ایسی حالت میں جبکہ وہ اپنے اجداد کی طرح اقتدار کا مالک بھی نہ تھا نیزاس کے علاوہ بنی عباس کی خانہ جنگی کی وجہ سے عباسی حکومت بڑی مشکلات میں گھری ہوئی تھی، ایسی صورت حال میں ضروری تھا کہ وہ علویوں کی اس تحریک کے خطرے کی طرف پہلے سے کہیں زیادہ توجہ دے۔
شاید مامون شیعوں کے بڑھتے ہوئے اس خطرے کو محسوس کرنے میں حق بجانب بھی تھا کیونکہ گمان کیا جاتا تھا کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد پندرہ سالہ وقفے اور خاص طور پر پانچ سالہ خانہ جنگی کے دوران شیعہ تحریک کو علوی حکومت قائم کرنے کے بیشتر مواقع فراہم ہوئے تھے۔
مامون نے اس خطرے کو دور اندیشی سے بھانپ لیااور اس کے مقابلہ کے لیے تیار ہو گیا۔اس تحریک کی اہمیت اور مامون کی دور اندیشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ امام علی ابن موسیٰ الرضاعلیہ السلام کو مدینے سے خراسان آنے کی دعوت اور آپ کو ولی عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس واقعہ کی مثال اپنی نوعیت کے لحاظ سے امامت کی پوری تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔
امام علی رضا علیہ السلام کی ولایت ِعہدی اور مامون کے مقاصد
[ترمیم]اب مناسب ہوگا کہ ہم یہاں پر ولی عہدی کے واقعات کا مختصر تجزیہ کریں۔ اس واقعہ میں حضرت امام علی رضاعلیہ السلام کو ایک بہت بڑے تاریخی حادثے سے دوچار ہونا پڑاایک ایسی مخفی اور پوشیدہ سیاسی کشمکش کے میدان میں یہ واقعہ پیش آیاکہ اس میں فتح یا شکست تشیع کی تقدیر کو بدل سکتی تھی۔ اس جنگ میں مدِّ مقابل مامون تھا جس کو ہر طرح کے اختیارات اور سازوسامان حاصل تھا اوروہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدان میں اتراتھا۔ مامون نے اپنی پوری ہوشیاری، منصوبہ بندی اور بے مثال فہم وشعور کے ساتھ ایک ایسے میدان میں قدم رکھاتھا کہ اگر اس میں وہ کامیاب ہوجاتا اور جس طرح اس نے اپناپروگرام بنایاتھا اس پر عمل پیرا ہوتاتو یقیناًاپنے اس مقصد کوحاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتاجسے ہجرت کے چالیس سال بعد،یعنی حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت سے لے کر اب تک کے تمام اموی یا عباسی خلفاء اپنی تمام ترکوششوں کے باوجود حاصل نہیں کر سکے تھے؛یعنی ممکن تھا وہ تشیع کے درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا اور اس تحریک کو جوطاغوتی خلفاء اور ان کے گماشتوں کی آنکھوں میں ہمیشہ کانٹوں کی طرح چبھتی رہتی تھی مکمل طور پر ختم کردیتالیکن امام علی رضا علیہ السلام الٰہی تدبیرکے بل بوتے پر مامون پر غالب آئے اور اس کواسی سیاسی جنگ کے میدان میں جوخود اس کا تیار کردہ تھا مکمل طور پر شکست دے دی اور نہ صرف یہ کہ تشیع کوکمزور یاختم ہونے سے بچایابلکہ201ہجری ،یعنی آپ کی ولی عہدی کے سال کو تشیع کی تاریخ میں سب سے بابرکت سال شمار کیا جاتاہے۔ علوی تحریک میں نئی جان آگئی اور یہ سب کچھ صرف امام علی رضا علیہ السلام کی الٰہی تدبیر اور حکیمانہ طرز عمل کی برکت سے حاصل ہوااور تشیع اس آزمائش سے سرخرو ہوکر نکلی۔ اب ہم یہاں تاریخ کے اس حیران کن واقعے پر مزیدروشنی ڈالنے کے لیے مامون کی چال بازیوں اور امام کی حکمت عملیوں کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں۔
مامون کا امام علی رضا علیہ السلام کو خراسان آنے کی دعوت دینے کی وجوہات
[ترمیم]مامون کا امام علی رضا علیہ السلام کو خراسان آنے کی دعوت دینے میں درج ذیل چند اہم مقاصد پوشیدہ تھے۔
پہلی وجہ
[ترمیم]پہلا اور اہم مقصد شیعوں کی زبردست اور پرجوش تحریک کو ایک معمولی اور بے خطر تحریک کیفیت میں تبدیل کرناتھا۔ جس طرح میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ شیعہ تقیہ کے اصول پر عمل کر کے اپنی اس انتھک اور کبھی نہ ختم ہونے والی تحریک کو آگے بڑھا رہے تھے جس میں دوانتہائی اہم خصوصیات شامل تھیں جو خلافت کو کمزور کرنے میں بہت زیادہ مؤثر ثابت ہوئی تھیں، ان خصوصیات میں سے ایک مظلومیت اور دوسری معصومیت تھی۔
شیعہ ان دومؤ ثر ترین خصوصیات کا سہارا لے کر تشیع کی آئیڈیالوجی کو جس کی بنیاد ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی مخصوص اسلامی تفسیر اور تعبیر سے عبارت تھی لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں راسخ کرتے رہے اور جوشخص بھی اس میں تھوڑی بہت دلچسپی کا اظہار کرتاشیعہ اس کو اِس طرز فکر کی طرف مائل کر کے اپنا گرویدہ بنالیتے تھے اور اس طرح تشیع کا دائرہ اسلامی دنیا میں روز بروز وسیع تر ہوتا چلا جارہا تھا اور یہی مظلومیت اور معصومیت تھی جو شیعی طرزِ فکر کی پشت پناہی میں ہر جگہ اور ہر دور میں مسلحانہ اور انقلابی تحریک کی صورت میں خلافت کے خلاف منظم صف آرائی کرتی رہی تھی۔
مامون چاہتاتھا کہ ایک ہی مرتبہ اس پوشیدہ اورتقیہ کی کیفیت کو اس تحریک کے بانی سے چھین لے اور امام کو اس انقلابی میدان سے سیاسی میدان میں لے آئے اور اپنی اس چال سے مقصد تشیع اور اس پوشیدہ اور مخفی عمل کو جوروز بروز ترقی کے منازل طے کررہاتھا، بالکل صفر کے درجہ تک پہنچادے۔اس کے علاوہ مامون اس چال کےذریعے دومؤثرترین خصوصیات کو بھی پیروان حضرت علی علیہ السلام سے چھین لینا چاہتاتھا اور یہ ظاہر کرنا چاہتاتھا کہ وہ گروہ جس کا پیشوا دربارخلافت میں ایک ممتاز شخصیت کا مالک اور مطلق العنان بادشاہ وقت کا ولی عہداور تمام مملکت کے اُمور پر قابض ہووہ نہ مظلوم ہے اور نہ معصوم۔ ممکن تھا یہ منصوبہ تشیع کے اساسی طرز فکر کو بھی دوسرے گروہوں کے عقیدوں اور افکار کی صورت میں تبدیل کر دیتا جس کے ماننے والے اس وقت موجود تھے، یعنی تشیع کے طرز فکر کو خلافت کی مخالفت سے باز رکھے اگرچہ اس طرز فکر کو ارکان حکومت اور ان کے حامی پسند نہیں کرتے تھے لیکن عوام اور بالخصوص مستضعفین اس نظریہ کے طرفدار تھے۔
دوسری وجہ
[ترمیم]دوسرا مقصد تشیع کے اس دعویٰ کو جس کے مطابق بنی امیہ اور بنو عباس کی خلافتیں غاصبانہ اور ناجائز تھیں، باطل کر کے اں خلافتوں کو جائز قرار دلواناتھا۔ مامون اپنی اس مکّارانہ چال کے ذریعے تمام شیعوں پر یہ بات ثابت کر دینا چاہتاتھا کہ شیعوں کے بنیادی اصول پر مبنی یہ دعویٰ جس کی رُوسے اموی اور عباسی حکومتیں غاصبانہ اور ناجائز تھیں، ایک بے بنیاد بات ہے اور صرف بغض اور کینہ کی وجہ سے یہ نظریہ گھڑا گیاہے کیونکہ اگر گذشتہ خلافتیں ناجائز اورظالمانہ تھیں تو مامون کی خلافت بھی تو گذشتہ خلافتوں کاتسلسل ہے لہٰذا وہ بھی ناجائز اور غاصبانہ ہے، پھر امام علی رضا علیہ السلام نے ولی عہدی کیوں قبول کی ہے؟اب چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ السلام کے اس خلافت کے ارکان میں شامل ہونے اور مامون کی جانشینی قبول کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انھوں نے مامون کو قانونی اور جائز سمجھاہے لہٰذا دوسرے خلفاء بھی قانونی اور جائز تھے اور شیعوں کا دعویٰ باطل تھا۔اپنی اس چال سے مامون نہ صرف حضرت امام علی رضاؑکے ذریعے اپنی حکومت اور گذشتہ تمام حکومتوں کے جائز ہونے کا اعتراف کرواناچاہتا تھا بلکہ شیعوں کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ یعنی گذشتہ حکومتیں ظلم کی بنیاد پر قائم ہوئی تھیں، کوباطل قرار دینا بھی چاہتا تھا۔ دوسری طرف امام علی رضا علیہ السلام کی ولی عہدی سے شیعوں کا یہ دعویٰ بھی باطل ہوجاتا تھاکہ ائمہ اطہار علیہم السلام زاہد، پارسااور دنیا سے لا تعلق ہیں بلکہ یہ خیال کیا جاسکتاتھا کہ یہ حضرات صرف اس صورت میں دنیا سے بے رغبتی کا اظہار کرتے تھے جب دنیوی نعمتیں ان کی دسترس سے باہر ہوتی تھیں، لیکن اب جب کہ دنیاوی نعمتوں کے دروازے ان پر کھل گئے ہیں تو وہ ان کی طرف بھاگے چلے آئے اور دوسرے لوگوں کی طرح لذتوں سے بہرہ مند ہونے لگے ہیں۔
تیسری وجہ
[ترمیم]تیسرا مقصد یہ تھا کہ مامون اپنے اس عمل کے ذریعے اما م کوجو ہمیشہ ایک حریف اور مبارز کی حیثیت رکھتے تھے، اپنے اقتدار کے کنڑول میں لے آنا اور ان کے علاوہ تمام علوی سرداروں، مجاہدوں اور انقلابیوں کو بھی اپنے قابومیں کر لینا چاہتا تھا اوریہ وہ کامیابی تھی جو آج تک اُموی یا عباسی خلفاءمیں سے کسی کو بھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔
چوتھی وجہ
[ترمیم]مامون کا چوتھا مقصد یہ تھا کہ چونکہ لوگوں کے درمیان امام علی رضا علیہ السلام کی شخصیت کو ایک عوامی عنصر اور امیدوں کا مرکز، سوالوں اور شکایتوں کے مرجع ومحور کی حیثیت حاصل تھی، اس لیے مامون امام عالی مقام کو حکومتی کارندوں کے محاصرے میں محدود کر ناچاہتاتھا تاکہ اس عمل سے آہستہ آہستہ اس عوامی عنصر کا خاتمہ کرکے آپ اور عوام کے درمیان جو محبت، عطوفت اور عقیدت کا رشتہ ہے اسے ختم کر سکے۔
پانچوایں وجہ
[ترمیم]پانچواں مقصدیہ تھا کہ مامون ولی عہدی کے ذریعے معنوی مقام اور آبرو مندانہ حیثیت حاصل کر لینا چاہتاتھا، قدرتی بات تھی کہ اس نے اس دور میں ایک ایسے شخص کو اپنی ولی عہدی کے لیے انتخاب کیا تھا جو پیغمبراکرمﷺ کی اولاد میں سے تھا، مقدس اور روحانی تھا اورمامون نے ان کے مقابلے میں اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو بھی اس افتخار سے محروم کر دیا تھا، سب لوگ اس کی تعریف اور تمجید کرتے ، کیونکہ تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ دیندار لوگ جب دنیاداروں کی پشت پناہی کرنے لگتے ہیں تو دیندار وں کی عزت میں کمی آجاتی ہے اور دنیا داروں کی عزت بڑھ جاتی ہے۔
چھٹی وجہ
[ترمیم]چھٹا مقصد یہ تھا کہ مامون کے خیال میں امام علی رضا علیہ السلام ولی عہدی قبول کرنے کے بعد خلافت کے طرفداروں میں شمار ہوجاتے۔ظاہر ہے کہ امام جیسے عالم اور متقی شخص جو پیغمبر اکرمﷺ کے فرزند ہونے کے ناطے لوگوں کی نظروں میں اعلیٰ مقام اور عزت رکھتے تھے، اگرآپ حکومت کے تمام کاموں کوسراہنے اور توجیہ کرنے کا ذمہ لے لیں تو کوئی شخص بھی مخالفت کرنے کی جرأت نہیں کر سکتاتھااور خلافت کے لیے بھی کوئی ڈر اور خوف باقی نہیں رہتا اور یہ وہ مضبوط قلعہ تھا جو خلافت کے تمام غلط اور برے کاموں پر پردہ ڈال سکتاتھا۔ مامون کی اس چال میں اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اغراض ومقاصد پنہاں تھے، جیسا کہ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مامون کی یہ چال اس قدر پیچیدہ، دشوار اور گہری تھی کہ سوائے خود اس کے کوئی دوسرا شخص اس کو عملی جامہ پہنانے میں اچھی طرح کامیاب نہیں ہوسکتاتھا یہی وجہ ہے کہ مامون کے قریبی دوست اور رشتہ داربھی اس کے اغراض ومقاصد سے بے خبر تھے۔ بعض تاریخی واقعات سے پتہ چلتاہے کہ فضل بن سہل بھی جو وزیر اور کمانڈر انچیف اور خلیفہ کے دربار کا مقرب ترین آدمی تھا، اس چال کی حقیقت سے لاعلم تھا۔ مامون اس ڈر سے کہ کہیں اس پیچیدہ چال کی کامیابی کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہوجائے، اپنی اس چال کی اصلی وجہ چھپانے کے لیے جھوٹی داستانیں گڑھ گڑھ کر لوگوں کو سناتا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مامون کی سیاست بے مثل پختگی اور گہرائی سے بھر پور تھی لیکن اس میدانِ جنگ میں اس کے مد مقابل حضرت امام علی رضاعلیہ السلام جیسی شخصیت تھی اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے مامون کی شیطانی چال کے باوجود اس کی پختہ اور ہمہ گیر تدبیر کو ایک بے اثر اور بیہودہ کھیل میں تبدیل کر دیا۔ مامون اس مقصد کے حصول کے لیے کافی محنت اور سرمایہ صرف کرنے کے باوجود اس چال سے نہ صرف یہ کہ کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا بلکہ اس کی اپنی سیاست بھی خوداس کی مخالفت میں تبدیل ہو گئی۔ وہ تیر جس کو اس نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی عزت آبرواور ان کے مقاصد کو برباد کرنے کے لیے تیار کیا تھا خود اسی کو نشانہ بناگیا۔ جیسا کہ کچھ عرصہ بعد خود اس کو مجبور اً قبول کرنا پڑا کہ اس کی تمام گذشتہ تدبیروں پر پانی پھر گیا ہے اور آخر کار اس کو امام کے خلاف وہی طریقہ کار استعمال کرنا پڑا جسے اس کے تمام آبا واجداداستعمال کرتے رہے تھے، یعنی ’’قتل‘‘اورمامون جس نے یہ سب کوششیں اور چالیں صرف اس لیے انجام دیں تھیں کہ وہ ایک مقدس مآب، خرد مند اور پاک وصاف خلیفہ بننے کی آرزو کو پاسکے، آخرکار اسی کوڑے دان میں جا گرا جس میں اس سے پہلے کے تمام خلفاء گر چکے تھے؛ یعنی وہ بھی برے کاموں، فحاشی، ظلم وستم اور عیاشی میں ملوث ہو گیا۔ مامون کی زندگی کے پندرہ سال جو امام علی رضا علیہ السلام کی ولی عہدی کے بعد گذرے ان میں اس کی ریاکارانہ طرز حیات کی پردہ دری کی بہت سی مثالیں موجود ہیں؛ جن میں سے یحییٰ بن اکثم جیسا بدکار اور عیاش شخص کا قاضی القضاۃ مقرر کرنا اور اپنے گانے بجانے والے چچا ابراہیم ابن مہدی کی ہم نشینی اختیار کرنا اور دار الحکومت بغداد میں عیش و عشرت اور بے حرمتی کا بازار گرم کرنا شامل ہیں۔
امام علی رضاعلیہ السلام کی تدابیر اور اقدامات
[ترمیم]اب ان واقعات کے دوران خود حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی سیاست تدبیر اور اقدامات کیا رہے ان سب کی وضاحت ضروری ہے۔
پہلی تدبیر
[ترمیم]جب حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان آنے کی دعوت دی گئی توآپ نے مدینہ کے لوگوں پر اپنی دلی کیفیت، یعنی مامون کے خلاف نفرت و ناراضی اور غم وغصے کو ظاہر کر دیا،یعنی آپ کے ارد گرد جتنے لوگ جمع تھے سب یہ جان گئے کہ مامون بدنیتی سے آپ کو اپنے وطن سے جدا کر رہاہے۔ امام علی رضا علیہ السلام نے مامون سے متعلق اپنی دلی کیفیت کو جس طرح بھی ممکن ہوا سب پر ظاہر کر دیا، حرم پیغمبر اکرمﷺاور اپنے خاندان کے لوگوں سے جدا ہوتے ہوئے، مدینہ سے باہر نکلتے وقت، خانہ کعبہ کے گردالوداعی طواف کے دوران، گفتار، رفتار، زبانِ دعااور زبان گریہ وزاری سے سب پر ظاہر کر دیا کہ یہ سفر آپ کے لیے موت کا سفر ہے۔ وہ لوگ جو مامون کے خیال کے مطابق اس سے حسنِ ظن رکھتے اور اس دعوت کے قبول کرنے کی وجہ سے امام عالی مقام سے بدظن ہوجاتے، اس سفر کے آغاز ہی میں یہ جان گئے کہ اصل قصّہ کیا ہے؟لہٰذا ان کے دل اب مامون کے خلاف دشمنی اور کینہ سے لبریز ہو گئے کیونکہ وہ ان کے عزیزوبزرگوار امام کو زبردستی ان لوگوں سے چھین کر قتل گاہ کی طرف لے جارہاتھا۔
دوسری تدبیر
[ترمیم]۔ جب ’’مرو‘‘ میں آپ کی ولی عہدی کا مسئلہ پیش آیا تو آپ نے سختی کے ساتھ اسے قبول کرنے سے انکار کیا اور جب تک مامون نے کھلم کھلا آپ کو قتل کی دھمکی نہیں دی ،آپ نے ولی عہدی قبول نہیں کی۔یہ بات ہر جگہ پھیل گئی کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے مامون کے اصرار کے باوجود ولی عہدی اوراس سے پہلے خلیفہ بننے کی تجویز ٹھکرادی ہے۔ ارکانِ حکومت نے جو مامون کی اس چال کی نزاکت سے واقف نہیں تھے، امام عالی مقام کے انکار کے مسئلہ کی جگہ جگہ تشہیر شروع کر دی یہاں تک کہ فضل ابن سہل کوبھی ارکانِ حکومت اور منتظمین کے مجمع میں کہتے ہوئے سنا گیا کہ’’ میں نے اس سے پہلے خلافت کو اس قدر ذلیل حالت میں کبھی نہیں دیکھاتھاکہ امیر المومنین (مامون) اپنے دونوں ہاتھوں سے خلافت علی رضاعلیہ السلام کی خدمت میںپیش کر رہے ہیں مگر علی رضا علیہ السلام اس کو ٹھکرا رہے ہیں۔‘‘{ } خود امام علی رضاعلیہ السلام بھی ہر مناسب موقع پر اس عہدے کے مجبوری میں قبول کرنے کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے رہتے تھے اور ہمیشہ کہتے تھے: ’’جب مجھے قتل کی دھمکی دی گئی تو میں نے مجبوراًولی عہدی کو قبول کیا۔‘‘ ظاہر ہے یہ بات ایک بہت ہی حیران کن سیاسی حادثے کی طرح ایک شخص سے دوسرے شخص اور شہر بہ شہر پھیل گئی اور تمام دنیائے اسلام اس زمانے میں اور بعد میں یہ بات سمجھ گئی کہ مامون جیسا شخص جو ولی عہدی سے معزول کیے جانے اور خلافت کے حصول کے لیے اپنے بھائی امین کے مقابلے میں کئی سال تک جنگ کرتارہا اور جس نے ہزاروں لوگوں کو حتیٰ کہ اپنے بھائی امین کو بھی قتل کر دیا ہے اور نفرت اور دشمنی کی وجہ سے اپنے بھائی کے سر کو شہر بہ شہر پھیراتا رہا تھا!لیکن اس زمانے میں ایک شخص یعنی حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی طرح کاایسابھی موجود تھا جو ولی عہدی کے منصب کو لاپروائی اور بے اعتنائی کی نگاہ سے دیکھتااور صرف مجبوری یا قتل کی دھمکی کی صورت میں قبول کرنے پر تیارہواہے۔ اگر ان واقعات سے حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور مامون عباسی سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں پرورش پانے والے افکار کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ بالکل اس کے برعکس نکلے گا جس کے لیے مامون نے سب کچھ کیا تھا۔
تیسری تدبیر
[ترمیم]ان تمام چیزوں کے باوجود امام علی رضاعلیہ السلام نے ولی عہدی کو صرف اس شرط پر قبول کیا کہ آپؑ حکومت سے متعلق کسی کام میں مداخلت نہیں کریں گے اور جنگ، صلح ،معزول ومنصوب اور سرکاری معاملات سے الگ تھلگ رہیں گے۔
مامون نے یہ سمجھاکہ چونکہ یہ مسئلہ ابھی تازہ ہے اس لیے اس نے اس شرط کومعمولی سمجھ کر قبول کر لیا اور یہ سوچا کہ بعد میں امام کو آہستہ آہستہ سرکاری کاموں کی طرف مائل کر لے گا۔ ظاہرسی بات ہے کہ اگر امام ؑاپنی شرط پر قائم رہتے ہیں تو مامون کے تمام منصوبوں پر پانی پھرجاتا اور اس کے بیشتر مقاصد نابود ہوجاتے کیونکہ امامؑ برائے نام ولی عہدہوئے اورمجبوراً حکومت کی سرکاری سہولتوں سے بہرہ مند ہونے کے باوجود اپنے چہرے کے تاثرات سے ظاہر کرتے رہتے تھے کہ وہ حکومتِ وقت کے مخالف ہیں۔ آپ نہ توکوئی حکم صادر کرتے اور نہ کسی کو کسی کام سے منع کرتے ہیں، نہ کسی ذمہ داری یاکام کو قبول کرتے اور نہ حکومت کی طرفداری کرتے ہیں۔ لہٰذا قدرتی بات تھی کہ امام ان کے اقدامات کو سراہتے بھی نہیں تھے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کے سرکاری مشینری میں جو شخص اپنی مرضی سے تمام حکومتی فرائض سے کنارہ کشی اختیار کر لے، ممکن نہیں وہ شخص حکومت کا سچا بہی خواہ اور طرفدار ہو۔مامون بھی اس نقص کو اچھی طرح محسوس کرتاتھا۔ اس لیے ولی عہدی کامرحلہ طے پاجانے کے بعد سے بارہا یہ کوشش کرتارہاکہ امام عالی مقام کو ان کے قول وقرار کے بر عکس حیلے بہانے سے سرکاری کاموں کی طرف مائل کر کے ان کی حکومت سے متعلق منفی سیاسی جدوجہد کے اصول کو توڑ دے لیکن ہر مرتبہ امام نے ہوشیاری سے اس کے ارادوں پر پانی پھیر دیا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ معمّر بن خلاد امام علی رضا علیہ السلام سے نقل کرتاہے کہ ایک مرتبہ مامون نے امام سے کہاکہ:’’ اگر ممکن ہوتو جن علاقوں کی اندرونی حالت ٹھیک نہیں ہے اور وہاں کے لوگ آپ کی بات مانتے بھی ہیں کچھ لکھ دیجئے۔‘‘توامام نے انکار کیا اور اپنے گذشتہ قول وقرار کی یاددہانی کروائی۔ یعنی یہ کہ امام کسی بھی سرکاری کام میں بالکل مداخلت نہیں کریں گے۔ ایک اوردوسری بہت ہی خاص اور دلچسپ مثال عید کی نماز کا واقعہ ہے، یعنی مامون اس بہانے سے کہ ’’لوگ آپ کی قدرومنزلت کو جانیں اور ان کے دلوں کو سکون پہنچے‘‘ امام کونمازِ عید کی امامت کروانے کی دعوت دیتاہے۔ امام انکار کرتے ہیں یہاں تک کہ جب مامون بہت زیادہ اصرار کرتاہے تو امام اس شرط پر قبول کرتے ہیں کہ آپ نمازِ عید کو پیغمبر اسلامﷺ اور علی بن ابیطالب علیہ السلام کے طریقے سے اداکریں گے اور پھرامام اس موقع سے اس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں کہ مامون کو اپنے اصرار پر نادم ہونا پڑتا ہے اور امام کوآدھے راستے سے واپس بلا لیتاہے، یعنی وہ ایک اور چوٹ اپنی ریاکارانہ حکومت کو پہنچاتا ہے۔{ }
چوتھی تدبیر
[ترمیم]۔ اصل فائدہ جو امام علی رضا علیہ السلام نے اس ولی عہدی سے حاصل کیا وہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ امام نے ولی عہدی قبول کر کے ایک ایسی تحریک شروع کی کہ ائمہ اطہار علیہم السلام کی پوری تاریخ میں؛یعنی 40ہجری میں اہل بیت علیہم السلام کی خلافت ختم ہونے کے بعد سے اس وقت تک اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور وہ شیعوں کے امامت کے دعوے کو تمام اسلامی دنیا میں کھلم کھلا ظاہر کرنا، تقیہ کے ضخیم اور موٹے پردے کو ہٹا نا اور تشیع کے پیغام کو تمام مسلمانوں کے کانوں تک پہنچاناتھا، خلافت کے عظیم تبلیغی وسائل امام کے اختیار میں تھے۔آپ ان وسائل کے ذریعے ان باتوں کو جوایک سوچالیس سال کے عرصے میں خفیہ اور پوشیدہ طور پر، سوائے خاص اور قریبی اصحاب اور ساتھیوں کے کسی سے بھی نہیں کہی گئی تھیں، اب اونچی آواز سے سنانے لگے اور اس زمانے کے ہر ممکن اور موجود اختیارات اور وسائل سے جو صرف خلفاء یا ان کے قریبی اور خاص لوگوں کے اختیار میں ہوتے تھے، فائدہ اٹھایا اور یہ معلومات لوگوں کے کانوں تک پہنچائیں۔ امام علی رضا علیہ السلام علماکے مجمع یامامون کے دربار میں ہونے والے تمام مناظروں میں، امامت کے بارے میں قوی ترین دلائل پیش کرتے تھے۔’’ جوامع الشریعہ‘‘ کے خط میں جو آپ نے فضل ا بن سہل کو لکھا تھا، شیعوں کے تمام خاص اور اہم فقہی و عقیدتی مطالب بیان کیے ہیں، امامت کے بارے میں مشہور و معروف حدیث جس کو ’’مرو‘‘ میں عبدالعزیزا بن مسلم کے لیے بیان کیا،اسی طرح بے شمار قصیدے جو آپ کی ولی عہدی کے سلسلے میں لکھے گئے جن میں سے بعض مثلاً دعبل خزاعی اور ابونواس کے قصیدے جو عربی کے برجستہ اور مشہور قصیدوں میں شمار کیے جاتے ہیں، امام کی عظیم کامیابی کو ظاہر کرتے ہیں۔ جس سال امام علی رضا علیہ السلام کی ولی عہدی کا واقعہ پیش آیا، شہر مدینہ اور شاید بیشتر اسلامی علاقوں میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت بیان کی گئی ورنہ اہل بیت علیہم السلام کو ستر سال تک منبروں پر برا بھلا کہا گیا اور بعد میں بھی کافی عرصہ تک کسی میں جرأت نہیں ہوتی تھی کہ اہل بیت علیہم السلام کے فضائل بیان کرے،لیکن اب ہر جگہ اہل بیت علیہم السلام کا نام عزت واحترام سے نام لیا جانے لگا تھا۔ اس واقعے سے ان کے طرفداروں کو بھی روحانی اور قلبی طاقت حاصل ہوئی، بے خبر اورلا تعلق لوگ بھی اس بات سے آشنا ہوئے اور اہل بیت علیہم السلام کے گرویدہ ہونے لگے۔ سخت و جانی دشمن بھی کمزوری اور ناکامی کا احساس کرنے لگے۔ شیعہ محدثین اور خطباء بھی عقائد سے متعلق وہ مسائل جنھیں تنہائی میں بھی اپنی زبان پر نہیں لاسکتے تھے، اب کھلے عام بڑے بڑے جلسوں اور عام جگہوں پر بیان کر نے لگے۔
پانچوایں تدبیر
[ترمیم]اگرچہ مامون کی دلی خواہش تھی کہ امام علی رضا علیہ السلام لوگوں سے دور رہیں اور وہ اس دوری کو آپ اور لوگوں کے درمیان معنوی اور قلبی رشتوں کو توڑنے کا آخری وسیلہ سمجھتاتھا،لیکن امام اپنی ہر فرصت سے فائدہ اٹھاکر لوگوں سے ملتے اور اس رشتہ کو قائم رکھتے تھے۔ مامون نے جان بوجھ کر امام کے مدینہ سے مرو تک کے راستے کا اس طرح انتخاب کیا تھا کہ کوفہ اور قم جیسے مشہور اور معروف شہروں، جہاں کے لوگوں کے دلوں میں اہل بیت علیہم السلام کی محبت تھی ،آپ کے راستے میں نہ آنے پائیں لیکن اس کے باوجود امام نے ان اجنبی راستوں میں بھی جہاں موقع ملا اپنے اور لوگوں کے درمیان نئے رابطے قائم کیے۔ اہوازمیں امامت سے متعلق آیتوں کی نشان دہی کی، بصرہ میں ان لوگوں کے دلوں میں بھی محبت کی لہر دوڑادی جوآپ کو نہیں چاہتے تھے۔ نیشاپور میں حدیث’’ سلسلہ الذہب ‘‘کو ہمیشہ کے لیے یادگار کے طور پر چھوڑااور ان کے علاوہ اور بھی دوسری معجزانہ نشانیاں لوگوں پر ظاہر کیں۔ اس طویل سفر کے دوران ہر جگہ لوگوں کی ہدایت کرنے کی فرصت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ مرو میں بھی جو اصل منزل اور دار الخلافہ تھا جب کبھی فرصت ملتی سرکاری محاصرے کو توڑ کر لوگوں کے جم غفیر میں پہنچ جاتے تھے۔
چھٹی تدبیر
[ترمیم]نہ صرف مکتب تشیع کے پیروکاروں کو اما م علی رضا علیہ السلام کی طرف سے خاموشی کا اشارہ نہ ملا بلکہ واقعات گواہ ہیں کہ امام کا یہ نیا منصب لوگوں کی ہمت اورجوش کا باعث بنا اور انقلابی لوگ جو اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ دشوار گزار پہاڑیوں اور دور دراز دیہاتوں میں سختی اور مشکل میں گزارنے پر مجبور تھے، اب امام علی رضا علیہ السلام کی حمایت کی وجہ سے سرکاری منتظمین کی نظروں میں بھی مختلف شہروں میں عزت اور آبرو کی نظر سے دیکھے جانے لگے تھے۔مخالف اورتند وتیز زبان شاعر ’’دعبل خزاعی‘‘جس نے کبھی کسی خلیفہ، وزیر یا امیر کو پسند نہیں کیااور کبھی ان کے درباروں میں حاضر نہیں ہوااور خلافت کے طرفداروں میں سے کوئی بھی ان کی تیز زبان سے محفوظ نہیں رہتا تھااوراسی وجہ سے حکومت ہمیشہ ان کے پیچھے لگی رہتی تھی اور کئی سالوں سے خانہ بدوشی کی زندگی بسر کر رہا تھا، اب وہ اپنے محبوب امام کی خدمت میں حاضر ہوسکتاتھا۔ اس نے اپنے سب سے مشہور دلنشین قصیدے کو جسے اموی اور عباسی خلافتوں کے خلاف علوی تحریک کامنشور قرار دیا جاتا ہے، آپ کی خدمتِ اقدس میں پڑھا اور بہت ہی مختصر مدّت میں اس کے اشعار پوری اسلامی دنیا میں پھیل گئے یہاں تک کہ جب وہ امام کی خدمت میں حاضری دے کر واپس آرہاتھاتو اس نے اپنے ان اشعار کو کچھ ڈاکوؤں کے سردار کی زبان سے سنا۔
مامون کی شکست اور امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت
[ترمیم]اب ایک بار پھر اس پر اسرار کشمکش کی پوری کیفیت کا اجمالی جائزہ لیتے ہیں کہ جسے مامون نے اپنے ذہن سے اختراع کیا تھا اور اپنے ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ،جن کی طرف اشارہ کیا گیا امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کواس میدان میں اتر نے پر مجبور کر دیاتھا، ولی عہدی کے اعلان کے ایک سال بعدکی صورت حال یہ تھی: مامون نے امام علی رضا علیہ السلام کے لیے بہت زیادہ اختیارات اور عزت و احترام کے مواقع فراہم کیے، لیکن سب جانتے تھے کہ یہ عالی مقام ولی عہد کسی بھی سرکاری کام میں دخالت نہیں کرتے اوردلی طور پر حکومت کے ہر کام سے متنفر اور بیزار ہیں۔تمام لوگوں پر یہ بات ظاہر تھی کہ انھوں نے ولی عہدی کی تجویز کو اسی شرط پر قبول کیا تھا کہ کوئی بھی سرکاری کام انجام نہیں دیں گے۔ مامون نہ صرف ولی عہدی کے حوالے سے بلکہ اپنی نجی گفتگو اور دوسرے احکامات میں بھی آپ کی فضیلت، پرہیز گاری، بلند حسب و نسب اور علمی مرتبے کی تعریف کرتا تھا جس کانتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں کی نظروں میں جن میں سے بعض نے صرف امام علی رضاعلیہ السلام کا نام سنا تھا اور بعض لوگ آپ کو جانتے بھی نہیں تھے اور شاید وہ گروہ جو ہمیشہ اپنے دلوں میں ان کے خلاف دشمنی رکھتا تھا، اب امام عالی مقام ایک ایسی قابلِ تعظیم وتکریم شخصیت اور خلافت کے لیے شائستہ اور لائق فرد کی حیثیت رکھتے تھے جو خلیفہ وقت کے مقابلے میں سن وسال، علم وتقویٰ اور پیغمبر اسلامﷺ سے نسبت رکھنے کی وجہ سے بہتر اور بر تر تھے۔ مامون آپ کی موجودگی میں نہ صرف یہ کہ اپنے شیعہ مخالفین کو اپنے متعلق بد گمان ہونے سے نہ بچا سکا بلکہ ان کی تیز زبانوں کو اعتراض سے روکنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ جبکہ دوسری طرف امام علی رضا علیہ السلام کی موجود گی ان شیعوں کے لیے باعثِ امان، اطمینان قلب اور قوت خاطر ثابت ہوئی۔ مدینہ، مکہ اور اسلامی دنیا کے خاص علاقوں میں نہ صرف امام علی رضا علیہ السلام کا نام دنیاوی تعلق اور جاہ ومقام کی آرزو کے الزام سے پاک ثابت ہوا ،بلکہ آپؑ کی ظاہری شان وشوکت نے آپ کی معنوی عزت کو مزیدبڑھادیا۔ تعریف کرنے والوں کی زبانیں سالہا سال بعد ہمیشہ کے لیے آپ کے مظلوم اور معصوم آباء واجداد علیہم السلام کی فضیلتیں بیان کرنے کی خاطر کھل گئیں۔ مختصر یہ کہ مامون اس بڑے جُوئے میں نہ صرف یہ کہ کچھ حاصل نہ کر سکا بلکہ اس نے اپنا بہت کچھ کھودیا تھا اورڈر تھا کہ باقیماندہ چیزوں کو بھی کھودے گا۔ یہی وہ گھڑی تھی جب مامون کو اپنی اس شکست اور نقصان کا احساس ہوا تو کوشش کرنے لگا کہ اپنی اس بڑی غلطی کا ازالہ کرے اور اب اس کے علاوہ اسے کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ اتنی زحمتوں اور سرمایہ گزاری کے باوجود نظامِ خلافت کے سخت اور کٹر دشمن یعنی اہل بیت علیہم السلام سے مقابلے کے لیے اسی طریقۂ کار کو استعمال کرے جس سے اس کے ظالم اور بدکردار آباء واجداد کام لیا کرتے تھے، یعنی مخالف کا قتل۔ ظاہراً اتنے شاندار موقعیت کے بعد امام رضا علیہ السلام کا قتل کوئی آسان کام نہیں تھا۔ مختلف روایتوں سے پتہ چلتاہے کہ امام عالی مقام کو شہید کرنے کے قطعی فیصلے سے پہلے اس نے دوسرے ذرائع بھی اختیار کیے تھے تاکہ اپنے اس آخری مقصد کو آسانی سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ ان میں سے بے سروپا باتوں اورافواہوں کا پھیلانا، امام کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیناوغیرہ سر فہرست ہیں۔ جس کے نتیجے میں اچانک ’’مرو‘‘ میں یہ افواہ پھیلادی گئی کہ امام علی رضا علیہ السلام تمام لوگوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام سوائے مامون کے ماتحت عملے کے اور کوئی نہیں کرسکتاتھا۔ جب ابا صلت نے امام کو یہ خبر پہنچائی تو آپ نے فرمایا:’’ اے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے !توگواہ ہے کہ ہر گز نہ میں نے اور نہ میرے آباء واجداد علیہم السلام میں سے کسی نے ایسی بات کہی اور یہ بھی ظلم و ستم کے اُن سلسلوںمیں سے ایک ہے جو ان لوگوں کی طرف سے ہم پر ڈھایاجاتا ہے۔‘‘ مناظروں کے جلسوں کا انعقاد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا ہر اس شخص کے ساتھ تواتر کے ساتھ مناظرے منعقد کیے جاتے جس کے بارے میں امام پر فتح حاصل ہونے کی ذرابھی امید ہوتی تھی۔جب امام نے مختلف مذاہب اور ادیان کے لوگوں کو مناظروں کی عام بحثوں میں شکست دے دی اور آپ کی علمی اور قطعی حجت کی شہرت ہر جگہ پھیل گئی تو مامون نے یہ سوچا کہ ہر متکلم اور مخالف کو امام علی رضا علیہ السلام سے مناظرے کے لیے دعوت دی جائے، ممکن ہے ان میں سے کوئی آپ کو شکست دے سکے۔ البتہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ مناظرے جتنے زیادہ منعقد ہوتے تھے آپ کی علمی حیثیت اتنی زیادہ ظاہر ہوتی جاتی تھی اور مامون اپنی چال کے بر خلاف نتیجہ برآمد ہونے پر مزید ناامید ہوتا جاتاتھا۔ روایتوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مامون نے امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام کے قتل کی سازش کو ایک یادومرتبہ اپنے نوکروں اور ارکانِ حکومت کے ذریعے تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی اور ایک مرتبہ آپ کو سرخس کے قید خانے میں بھی ڈالا،لیکن ان طریقوں سے بھی مامون کے ماتحتوں کے دلوں میں اما م کی معنوی فضیلت اور عقیدت میں اضافے کے سوا کچھ فائدہ نہ پہنچا اور مامون پہلے سے بھی زیادہ مجبور اور آپ سے بدگمان نظر آنے لگا۔آخر کار اُس کے علاوہ کوئی اور چارہ ٔ کارنہ دیکھا کہ اپنے ہاتھوں سے اور کسی کی مدد کے بغیر امام کو زہر دے دے اور اس نے ایسا ہی کیا اور سن203ہجری قمری صفر کے مہینے میں؛ یعنی آپ کو مدینہ سے خراسان بلائے جانے کے تقریبا دوسال اور ولی عہدی کا حکم صادر کرنے کے ایک سال کچھ مہینے بعد اپنے ہاتھوں کو امام علی رضا علیہ السلام کے قتل اور کبھی فراموش نہ ہونے والے سیاہ کارنامہ سے آلودہ کر لیا۔ یہ مختصر جائزہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی ڈھائی سوسالہ سیاسی زندگی کے ایک اہم ترین باب سے متعلق ہے جس کے بارے میں امید کی جاتی ہے کہ محققین مفکرین اور مورخین، تاریخ اسلام کے قرون اُولیٰ کے ان واقعات کوزیادہ سے زیادہ واضح کرنے کے لیے ہمت سے کام لیں گے اور اس موضوع کے تفسیری، تشریحی اور تحقیقی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دیں گے۔ (09۔08۔1984ء)