مندرجات کا رخ کریں

احمد قابل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
احمد قابل
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1954ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تربت جام   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 اکتوبر 2012ء (57–58 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مشہد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات دماغ کا سرطان   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل تشیع
فقہی مسلک جعفری
عملی زندگی
استاذ آیت اللہ منتظری   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم مذہب   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

احمد قابل (1954ء-2012ء) کا شمار ایران کے معتدل شیعہ مجتہدین[2] میں ہوتا تھا۔آپ آیت اللہ العظمیٰ حسین علی منتظری کے شاگرد تھے۔

پیدائش

[ترمیم]

آپ فریمان نامی مشہد کے جنوب کے ایک قصبہ میں 1834 عیسوی میں پیدا ہوئے۔[3] آپ کے والد محمد قابل خود ایک عالم دین تھے جو حوزہ علمیہ نجف اشرف سے فارغ التحصیل تھے۔نیز آپ کے بھائی ہادی قابل بھی ایک اصلاح طلب ایرانی عالم دین ہیں۔[3]

تعلیم

[ترمیم]

آپ نے ابتدائی تعلیم مشہد سے حاصل کی۔اور حوزه مشهد مدرسه آیت الله میلانی سے دینی علوم کا آغاز کیا۔مقدمات کی تعلیم حجت الاسلام رضوانی، اسلامی، ذاکری، واعظی، حجت، و نعیم آبادی سے لیں۔پھر حوزہ علمیہ قم گئے جہاں مرحلہ سطح عالی میں محقق داماد، دوزدوزانی، فاضل هرندی، پایانی و موسوی تهرانی آپ کے اساتذہ تھے۔مرحلہ خارج اصول و خارج فقه میں شیخ جواد تبریزی، مرحوم محمد فاضل لنکرانی، شیخ حسین وحید خراسانی، سید موسی شبیری زنجانی و شیخ یوسف صانعی جیسے مجتہدین کی شاگردی اختیار کی۔[2]

تدریس

[ترمیم]

مدرسه علمیہ فریمان میں کچھ عرصہ شرح لمعہ اور مقدمات کی تدریس کی۔[2]

گرفتاری

[ترمیم]

احمد قابل کو 31 دسمبر 2001 عیسوی میں پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا۔[3]2007 عیسوی میں بھی آپ کو گرفتار کیا گیا۔جب کہ 21 دسمبر 2009 عیسوی میں بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی لگا دی گئی اور دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔چھ مہینے[4] قید میں رکھنے کے بعد جون 2010 عیسوی میں پچاس ہزار ڈالر[4] کی ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

درجہ اجتہاد

[ترمیم]

آپ نے اپنا تحقیقی مقالہ "رجم کے متعلق اسلامی احکامات" کا مدلل تحقیق پیش کی ،جس کے بعد آپ کے استاد آیت اللہ منتظری نے آپ کو 1988 عیسوی میں اجازہ اجتہاد دیا۔[5] تاہم آپ نے مذہبی لباس عبا و قبا پہننا ترک کر دیا۔

آیت اللہ خامنہ ای کے نام خط

[ترمیم]

22 مئی 2005 عیسوی کو صدارتی انخاب سے پہلے آیت اللہ خامنائی کے نام ایک خط بھیجاجس میں ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مخالفین کی پکڑ دھکڑ کے خلاف احتجاج کیا۔مزید ایران کی خارجہ پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ [6]

وکیل آباد کے زندان میں خفیہ قتل عام کو سامنے لانا

[ترمیم]

احمد قابل جب 2009 سے 2010 کے درمیان وکیل آباد کے زندان میں قید تھے تو ایرانی حکام کی جانب سے پچاس قیدیوں کے خفیہ قتل عام[7] کے چشم دید گواہ تھے،جس پر انھوں نے ایک رپورٹ لکھاجو بعد میں انگریزی میں بھی بین الاقوامی میڈیا نے شائع کی۔اس کے بعد ان کو عدالت نے مزید سنگین سزائیں سنائیں اور ان کے لیپ ٹاپ قبضے میں لیا،اور انٹریو اور لیکچر دینے پر پابندی لگائی۔احمد قابل کے مطابق یہ اقدامات بین الاقوامی خفت اور شرمندگی کی وجہ سے ایرانی حکومت نے بطور رد ان کے خلاف عمل ظاہر کیا۔[8]

احمد منتظری کا بیان

[ترمیم]

آیت اللہ منتظری کے بیٹے احمد منتظری نے احمد قابل کی گرفتاری کے بعد ان کے متلق کہا: "وہ حق بتانے سے ڈرنے والوں میں سے نہیں تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے اسے اس لیے گرفتار کیا تاکہ وہ لوگوں کے سامنے تقریر نہ کر پائیں۔۔۔۔۔ہمارے پاس کم ہی لوگ اس(احمد قابل) جیسے بہادر ہیں وہ اپنے نظریات کو بیان کر کے ہی رہتا ہے کواہ اس کو اس کی قیمت چکانی پڑے۔وہ حق بیان کر کے ہی رہے گا خواہ اس کو اور اس کے خاندان کو امن کا مسئلہ بھی لاحق ہو جائے۔"[9]

تصنیفات

[ترمیم]

احمد قابل کی اہم کتب[10] یہ ہیں:

  1. وصیت به ملت ایران
  2. شریعت عقلانی
  3. احکام بانوان در شریعت محمدی[11]
  4. نقد فرهنگ خشونت
  5. اسلام و تأمین اجتماعی
  6. مبانی شریعت
  7. نقد خودکامگی
  8. بیم و امیدهای دینداری
  9. فقه، کارکرد ها و قابلیت‌ها
  10. احکام جزایی در شریعت محمدی

نظریات

[ترمیم]

آپ کے نطریات یہ ہیں:

  • آپ ولایت فقیہ کے نظریہ کے قائل نہیں،یہی وجہ ہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای کے مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔[3]
  • رجم یا سنگسار کرنے کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔
  • فقہ ،کارکردھا و قابلیت ھا میں صفحہ 70 پر احمد قابل رائج شیعہ عزاداری اور سوگ و ماتم کے رسومات پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے چھ صفحات میں سیرت رسول اللہ ص اور سیرت علی ع و ائمہ ع کے برخلاف نیز صفویوں کی رسومات قرار دیتے ہیں۔اور فرماتے ہیں کہ علی ع نے اپنی ظاہری دور خلافت میں بھی یا رسول اللہ ص کی وفات کے بعد بھی کبھی مجالس عزادری برپا نہیں کی۔بلکہ اس موقع پر وہ جملہ فرمایا کہ اگر آپ نے ہمیں جزع سے منع نہیں کیا ہوتا۔۔۔۔۔!!! نھج البلاغہ

آپ فرماتے ہیں کہ رائج شیعت نے نوحہ خوانی،سینہ زنی،قصیدے،وغیرہ کو اپنی ایسی ذمہ داری بنائی ہے گویا یہ شریعت کا حکم ہو۔بلکہ فرماتے ہیں کہ یہ کیا بوالعجمی ہے کہ اپنے سروں کو پیٹتے ہیں معلوم نہیں دین و مذہب کے نام پر ان لوگون نے یہ چیزیں کہاں سے نکالی ہیں۔ کہتے ہیں کہ گویا علی ع کو رسول اللہ ص کی معرفت نہیں تھی کہ کئی سال آپ کے زمانہ میں یوم وفات رسول اللہ ص آیا لیکن آپ نے ایک بار بھی اس دن عزادری نہیں کی مگر ہمیں کچھ زیادہ ہی عشق و معرفت حاصل ہوا ہے 1400 سال بعد کہ گویا ہم علی ع سے بڑھ کر رسول اللہ ص سے محبت کرتے ہیں ۔[12]

  • احمد قابل عقیدہ امامت کے حوالے سے قدیم شیعہ علما کی طرح "ائمہ علمائے ابرار" کا نظریہ رکھتے تھے۔اپنی کتاب "بیم و امیدھای دینداری" کے عنوان خرافہ گرائی میں صفحہ 173 پر"12 اماموں والی روایات کے متعلق" فرماتے ہیں:

"مثال کے طور پر میں عرض کرتا ہوں کہ امامت جیسے اہم مسئلہ پر،سال 250 ہجری تک اماموں کی تعداد 12 ہونے پر(یعنی عدد ائمہ) ائمہ کے پیروکاروں میں یہ تعداد (اثناعشر امام ہونا )معلوم نہیں تھا،شیعوں میں اول صدی ہجری،دوم صدی ہجری اور تیسری صدی ہجری کے درمیان تک والد سے بیٹے میں امامت منتقل ہونا تھا۔۔اہل سنت کی وہ روایات کہ جن میں 12 خلیفے قریش سے ہوں یہ سنیوں میں معروف تھا ،لیکن شیعوں میں یہ تعداد یا روایت بالکل ہی قابل توجہ نہیں تھا۔شیعہ یہ کہتے تھے کہ حجت سے زمین قیامت تک خالی ایک لمحے بھی نہیں رہے گی۔اور امام کے بعد اس کا بیٹا یا بعض اوقات بھائی کی وفات پر اس کا بھائی امام بن جاتا اس طرح یہ سلسلہ امامت جاری رہتا،،،،شیعون میں 12 اماموں کی تعداد غیبت کے زمانے میں ابن قبہ و دیگر لوگوں کے ذریعے فروغ پایا اور وہی(فرزند امام حسن عسکری) امام منتظر قرار پائے کہ غائب ہے۔۔۔۔۔۔یعنی 12 اماموں والی تعداد پر روایات نہیں تھیں اس سے قبل، بعد میں یہ ایجاد کی گئیں۔" احمد قابل بیم و امیدھای دین صفحہ ص 139 میں لکھتے ہیں:

"بہت سے شیعہ علما جو قم اور رے میں رہتے تھے وہ امامت کے متعلق خاص نظریہ (علمائے ابرار) رکھتے تھے جیسا کہ ہمارے دوست اور فاضل جناب آگا داکٹر محسن کدیور نے اپنے مقالوں میں جو "نظریہ علمائے ابرار" کے نام سے ہے زمانہ ائمہ ع کے بزرگ علما کا یہ عقیدہ بیان کیا ہے جیسے ابن جنید اسکافی کا نظریہ بھی۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیدہ امامت پر قدیم (اثناعشری) شیعہ میں مختلف نظریات موجود تھے۔ اس کے شائع ہونے کے بعد آغا حضرات بہت بے قرار ہو گئے اور تنقید کرنے لگے معلوم نہیں کیوں؟ کیا آغا کدیور نے جو لکھا ہے وہ تاریخی اعتبار سے درست نہیں اور شیعہ قدیم علما کے متلق انھوں نے جھوٹ لکھا ہے؟؟ یا یہ آغا حضرات چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں امامت کے متعلق یہ مختلف نظریات کا لوگوں کو معلوم نہ ہو جائے یا بے خبر رہیں؟؟اگر رائج شیعہ عقیدہ امامت قابل دفاع ہے تو دوسرے (قدیم امامیہ اثناعشریہ کے ہاں مقبول امامت کے ) نظریات کے متعلق نہیں ڈرنا چاہیے!!اگر اللہ نے مجھے عمر دی اور خدا کی توفیق شامل رہی تو میں اس کے متعلق مباحث کو ضرور شائع کروں گا۔"

  • مشہد(مسجد فیض) اور زابل میں اہل سنت کے مساجد کو مسمار کرنے اورخانقاہ دراویش قم کو ڈھانے کے اقدامات جو ایرانی حکومت نے کیے، احمد قابل اس عمل کو شریعت محمدی کی رو سے" فساد فی الارض کے مصداق قرار دیتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ ہمارے علما و مراجع سعودی عرب کے ایسے اقدامات پر وایلا مچاتے ہیں لیکن خود اپنی جگہ ایسے اقدامات(دوسروں کے مقدس مقامات کو گرانا) ان کے لیے پسندیدہ اور قابل تعریف ہیں۔[13]
  • ائمہ اہل بیت ؑ کے لیے مافوق الفطرت استعداد نیز ان کے لیے ولایت تکوینی کو درست نہیں سمجھتے تھے،آپ لکھتے ہیں:

"امام کو مظہر خلیفۃ اللہ سمجھنا، مظہر یا مظہر عبودیت شمار کرنا،ان کو واجد علم و قدرت و ولایت مطلقہ الہی قرار دینا،اور واجد علم ما کان وما یکون وماھو کائن ماننا،،اگرچہ عرفانی طور پر یہ تعبیریں درست ہو سکتی ہیں۔۔۔امامت کی یہ تصویر اور تصور،جس کو لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ بیماروں کی شفایابی،گناہوں کی بخشش،قرضداروں کی ادائیگی قرض وغیرہ کے لیے اس امام سے رجوع کی جائے اور ان کو منشائے اثر سمجھا جائے،یہ عرفانی ۔۔ تصور ہے۔۔۔ اور اس تصور سے خدا کی پناہ!!!"[14]

  • جبری حجاب کے قائل نہیں،اور عورتوں کے لیے باحیا لباس پہننے کی تجویز کرتے ہیں،تاہم سر اور گردن کے پردہ کو اختیاری سمجھتے ہیں۔[15]
  • مسلمانوں کو منافق،کافر یا دیگر ایسے ناموں سے تعبیر کرنے کے آپ خلاف تھے،جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:

"حضرت علی ع نے اپنی تینوں جنگوں میں مخالفین کو "باغی گروہ" کہا۔ انھوں نے 3 گروہوں اصحاب جمل ،نہروان اور جنگ جمل کے گروہوں سے جنگیں کیں۔لیکن آپ ع نے ان میں سے کسی ایک بھی گروہ کو کافر یا منافق کا لیبل نہیں لگایا۔حتی یہ بھی نہیں کہا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں۔بلکہ فرمایا ،یہ تو ہمارے بھائی ہیں (کیونکہ شہادتین کا اقرار کرتے ہیں)،جنھوں نے ہم پر ستم کیا۔ ان امیر المومنین لم یکن ینسب احدا من اہل حربۃ لا الی الشرک ولا الی النفاق ولکنہ یقول : ہم اخواننا بغوا علینا۔

ہمیں دوسروں کو کافر و مرتد شمار کرنے کا اس سے زیادہ حق نہیں پہنچتا۔اسلام ظاہری یہی ہے کہ متن قرآن میں فرمایا:

وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ

اس میں اگر ہم توجہ کریں تو دونوں گروہوں کو ہی مومن قرار دیا گیا ہے۔ہمیں لوگوں کو نام دینے کا کوئی حق نہیں ،کافر ،منافق اور مشرک کہنے لگ جائیں۔

سید الشہداء امام حسین ع نے جو لوگ آپ کو قتل کرنے آئے اور جنھوں نے آپ کے سرتن سے جدا کیا ان کو بھی باغی گروہ ہی کہا، لیکن ہم لوگ ان کو کافر کہتے ہیں۔

وایم اللہ یا اباھرۃ،لتقتلنی الفئۃ الباغیۃ (مقتل خوارزمی،ج 1،ص 226) بس جس چیز سے ہم مطمئن ہو ہم لوگوں کو وہ نام دیتے ہیں۔"[16]

مزید لکھتے ہیں: "تین روایات امام سجاد ،امام صادق ع اور امام باقر ع سے اس پر ہے مسند زید اور قرب الاسناد میں۔کہ علی ع نے ان کے متعلق کہا کہ ہمارے مومن بھائی ہیں یہ جنھوں ن ہم پر ستم کیا۔"[17]

وفات

[ترمیم]

چھ دن کومے میں رہنے کے بعد سوموار 22 اکتوبر 2012 عیسوی میں آپ کی وفات ہوئی۔[8]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Prominent Iranian Dissident Cleric Ahmad Ghabel Dies — اخذ شدہ بتاریخ: 24 اکتوبر 2012
  2. ^ ا ب پ "سیتی تومب | بیوگرافی و تصاویر | احمد قابل"۔ www.citytomb.com۔ 09 ستمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جولا‎ئی 2019 
  3. ^ ا ب پ ت "Progressive Muslim Scholar and Political Dissident Ahmad Ghabel: 1954-2012"۔ www.payvand.com۔ 07 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جولا‎ئی 2019 
  4. ^ ا ب "Dissident Religious Scholar in Prison Once Again"۔ 2 اگست، 2011 
  5. "Iran : Érudit religieux et célèbre opposant au régime, Ahmad Ghabel est mort"۔ Nouvelles d'Iran۔ 07 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جولا‎ئی 2019 
  6. "BBCPersian.com"۔ www.bbc.com 
  7. "Secret Group Executions Continue at Vakilabad; Dozens More Executed In April and May"۔ 27 مئی، 2011 
  8. ^ ا ب "Media Watch | Reformist Cleric Ahmad Ghabel in Coma, Reported Brain Dead"۔ FRONTLINE - Tehran Bureau 
  9. "Prominent Iranian Religious Scholar And Dissident Ahmad Ghabel Dies"۔ RadioFreeEurope/RadioLiberty 
  10. "کتاب‌ها؛ فایل پی‌دی‌اف:"۔ 07 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جولا‎ئی 2019 
  11. "انتشار «احکام بانوان در شریعت محمدی(ص)» کتاب جدیدی از احمد قابل"۔ 07 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جولا‎ئی 2019 
  12. فقہ ،کارکردھا و قابلیت ھا میں صفحہ 70
  13. وصیت بہ ملت ایران،صفحہ 376
  14. آیت اللہ احمد قابل ،ص 129 بیم و امیدھای دینداری
  15. "در مورد پوشش (حجاب 1) بهمراه نسخه PDF"۔ 07 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جولا‎ئی 2019 
  16. بیم و امیدھای دینداری صفحہ 54
  17. کتاب وصیت بہ ملت ایران ، ص 387