اسرائیل کے حامی مسلمان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اسرائیل کے حامی مسلمان وہ افراد ہیں جنھوں نے یہوواہ کے ماننے والوں کے لیے خود مختاری کی حمایت کی اور ریاست اسرائیل میں ان کے لیے ایک وطن کی حمایت میں مثبت طرز عمل کا اظہار کیا۔ بعض مسلم علما، جیسے اطالوی اسلامی کمیونٹی کے ثقافتی ادارے شیخ پروفیسر عبد الوحید پالزی اور ڈاکٹر محمد الحسن [1] یقین رکھتے ہیں کہ یہودیوں کی واپسی مقدس زمین پر ہے اور اسرائیل کا قیام ہے۔[2][3] اسرائیل کے بعض مسلمان حامی جو خود کو یہودیوں کی حمایت میں ان کو آباد کرنے کے حامی ہیں۔[4][5][6] مسلم پس منظر کے ساتھ قابل ذکر افراد جو عوامی طور پر یہودیوں کی اسرائیل اور فلسطین میں آبادی کی حمایت کرتے ہیں۔ جیسا کہ سابق مسلم نعمت سادات [7]، محمد محبوب حسین (اے۔ڈی حسین)٬ ڈاکٹر توفیق حامد، تشبیہ سید (پاکستانی-امریکی سکالر، صحافی اور مصنف)٬ صحافی صالح چوہدری شامل ہیں۔ مزید مسلم افراد جنھوں نے اسرائیل کے لیے عوامی حمایت کا اظہار کیا ان میں ارشاد مانجی، سلیم منصور، عبد الرحمن وحید، میٹھل الاالوسی، قاسم حفیظ، عبد اللہ سعد الحق، زہدی جسر، خلیل محمد، نادیہ النور، نور دہڑی، فاروق حیدر خان شامل ہیں۔ مسلم دنیا میں، اسرائیل کی حمایت ایک اقلیت کی طرف اشارہ ہے اور اسرائیل کے حامیوں کو مخالفت اور تشدد کا سامنا کا ہے۔

عہد وسطیٰ[ترمیم]

امام محمد-الحسینی کے مطابق، روایتی اسلامی مفسرین آٹھویں اور نویں صدی کے بعد، ابن جریر طبری رحمہ اللہ جیسے، کا کہنا ہے اسرائیل کی سرزمین خدا کی طرف سے یہودی لوگوں کو دی گئی ہے جو قرآن کی تشریح ہے اور ایک ایک دائمی عہد ہے۔[1]

امام محمد الحسن کے مطابق، 8 ویں اور 9 ویں صدی کے بعد روایتی مبحثین نے قرآن کریم سے حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ قرآن میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ اسرائیل کی زمین اللہ کی جانب سے بنی اسرائیل (یہودیوں) کو تحفہ کے طور پر دی گئی ہے۔ حسینی نے اپنے دلائل قرآن کی سورۃ المائدہ نمبر 5 آیت نمبر 20 میں سے لیے ہیں جس میں اللہ تعالٰی اعلان فرماتا ہے۔

وَاِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا ٭ۖ وَّ اٰتٰىکُمۡ مَّا لَمۡ یُؤۡتِ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿20﴾

اور جب موسیٰ نے کہا اپنی قوم سے اے میری قوم اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو کہ تم میں سے پیغمبر کیے اور تمھیں بادشاہ کیا ( ف67 ) اور تمھیں وہ دیا جو آج سارے جہان میں کسی کو نہ دیا ( ف68 )

سورة المائدة 21

یٰقَوۡمِ ادۡخُلُوا الۡاَرۡضَ الۡمُقَدَّسَۃَ الَّتِیۡ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَرۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِکُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ ﴿21﴾

اے قوم اس پاک زمین میں داخل ہو جو اللہ نے تمھارے لیے لکھی ہے اور پیچھے نہ پلٹو ( ف69 ) کہ نقصان پر پلٹو گے۔

انھوں نے محمد بن جریر الطباری کو بیان کیا ہے، جو کہتے ہیں کہ یہ الفاظ خدا کی طرف سے روایت کردہ ہیں۔ جو موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کے وقت فرمائے تھے۔اور بنی اسرائیل کو مقدس زمین میں داخل ہونے کا حکم دیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہودیوں کے ساتھ کیا گیا یہ وعدہ دیر تک جاری رہا اور مزید کہا "یہ اسلام کے ابتدائی عرصے کے دوران میں بھی ایسا نہیں تھا کہ یروشلیم کو کسی بھی قسم کے مقدس علاقہ کے طور پر اسے علاقائی دعوی قرار دیا گیا ہو۔" یہودیوں سے ہمیشہ کی پائیداری کے وعدے کی یہ تفسیر تمام اسلامی مبصرین کی طرف سے ایک ہی طرح سے قبول نہیں کی جاتی ہے۔

بیسویں صدی کے ابتدا میں[ترمیم]

عرب لباس دوستی کی علامت کے طور پر پہننے ہوئے فیصل (دائیں)اور چیم ویزمین ایک ساتھ شام، 1918 ء میں۔

23 مارچ 1918 میں القبلہ اخبار جو مکہ کا روزنامچہ ہے۔ مندرجہ ذیل الفاظ آرتھر بیلفور 1917 ء کے اعلامیہ کی حمایت میں چھپے:

فلسطین ملک کے وسائل ابھی تک مستعمل نہیں ہوئے اور یہودی تارکین وطن کی آمد سے ان میں اضافہ ہو گا۔ غیر ممالک سے بھی ہم نے یہودیوں کو فلسطین کے لیے روس، جرمنی، آسٹریا، سپین اور امریکا سے محروم دیکھا ہے۔ جن کے پاس گہری بصیرت کا ایک تحفہ تھا اور وجوہات کے با وجود اس صورت حال سے نہ بچا جا سکا۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ ملک اس کے اصلی بیٹوں abna'ihi-l-asliyan، کے لیے ہے۔ اور اپنے تمام تر اختلافات کے با وجود ان کے لیے مقدس اور پیارا وطن ہے۔ 3 جنوری 1919 ء کو حسین کے بیٹے شاہ فیصل اور دنیائے صیہونی تنظیم کے صدر ڈاکٹر (Chaim weizmann) کے درمیان میں عراق میں فیصل-ویزمین معاہدہ ہوا جس میں فیصل نے مشروط طور پر بیلفور اعلامیہ یہودی عرب تعاون کے لیے دستخط پر مبنی ایک معاہدہ منظور کیا۔ جس میں فیصل نے مشروط طور پر فلسطین میں ایک یہودی وطن کی ترقی کے لیے برطانوی جنگ کے زمانے کے وعدوں كو پورا كرنا اور بیلفور اعلامیہ کی حمایت کی جو برطانوی جنگ کے دوران میں منظور ہوا اور کہا :

ہم عرب۔۔ صیہونی تحریک کو گہری ہمدردی کے ساتھ دیکھیتے ہیں۔ اور ہمارا وفد پیرس میں صیہونی تنظیم کی امن کانفرنس کی طرف سے کل پیش کی گئی تجاویز سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور ہم ان تجاویز کو معتدل اور مناسب سمجھتے ہیں۔ ہم، جہاں تک ممکن ہے مدد کے لیے تیار ہیں اور اس بارے میں فکر مند ہیں۔ ہم یہودیوں کو گھر پہ خوش آمدید کرنے کے متمنی ہیں۔.۔ میں اور میرے ساتھ میری قوم، ایک آگے کے مستقبل کو دیکھتے ہیں جس میں ہم آپ کی مدد کریں گے اور آپ ہماری تاکہ ممالک جس میں ہم باہمی دلچسپی رکھتے ہیں ایک بار پھر دنیا کی مہذب قوموں کی برادری میں اپنی اپنی جگہ بنا سکیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب "Muhammad Al-Hussaini. The Qur'an's Covenant with the Jewish People"۔ Middle East Quarterly. Fall 2009, pp. 9–14۔ 2009-03-19۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2010 
  2. "Archived copy"۔ 20 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2016