بادل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ہوائی جہاز سے بادلوں کا منظر۔

بادل کرہ ارض کی فضا میں پانی کے قطرات، منجمد پانی کے شفاف ٹکڑے یا دیگر ذرات کی قابل دید معلق شکل کا نام ہے۔ زمین پر موجود سمندروں اور دیگر ذرائع سے پانی پر سورج کی کرنیں پڑنے سے پانی بخارات کی شکل اختیار کرتا ہے اور ان بخارات کو ہوا دھکیل کر زمین کی فضا میں لے جاتی ہے ،فضا میں درجہ حرارت کی کمی کی وجہ سے پانی کی کثافت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور بخارات (گیس )برف کے ٹکڑوں یا پھر پانی کے قطروں میں بدل جاتے ہیں۔ انہی قطروں یا برف کے ٹکڑوں کی جمع ہوئی شکل کو ہم بادل کہتے ہیں۔

بادلوں کا علم نیفالوجی[ترمیم]

بادلوں کے علم کو نیفالوجی Nephology کہتے ہیں جو میٹیالوجی [Meteorology] کی ایک شاخ ہے جو فضائی علوم [sciences Atmospheric Sciences] کے زمرے میں درج ہوتی ہے۔

قرآن اور بادل[ترمیم]

قرآن مجید نے بادلوں کو خدا کی نعمت اور عظمت کی نشانی قرار دیا ہے۔ اور اس موضوع پر بہترین انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ قرآن نے بادلوں سے ہونے والی بارش کو کائنات میں زندگی کا سبب قرار دیا ہے۔ اور خداوند کی عظمت کی علامت اور قیامت کی نشانیوں میں قرار دیا۔ (أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ جِبَالٍ فِيهَا مِنْ بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشَاءُ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ)[1] ترجمہ: کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ ہی بادلوں کو چلاتا ہے پھر اسے باہم جوڑ دیتا ہے پھر اسے تہ بہ تہ کر دیتا ہے؟ پھر آپ بارش کے قطروں کو دیکھتے ہیں کہ بادل کے درمیان سے نکل رہے ہیں اور آسمان سے پہاڑوں (جیسے بادلوں) سے اولے نازل کرتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اسے ہٹا دیتا ہے۔
اور اس بات سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ وہ ہوائیں ہی ہیں جو اتنے بھاری بھاری بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر لے جاتی ہیں۔ فرمایا: (اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ وَيَجْعَلُهُ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ فَإِذَا أَصَابَ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ)[2] ترجمہ: اللہ ہی ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادل کو ابھارتی ہیں پھر اسے جیسے اللہ چاہتا ہے آسمان پر پھیلاتا ہے پھر اسے ٹکڑوں کا انبوہ بنا دیتا ہے پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے بیچ میں سے بارش نکلنے لگتی ہے پھر اس (بارش) کو اپنے بندوں میں سے جس پر وہ چاہتا ہے برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں. (وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَى بَلَدٍ مَيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا كَذَلِكَ النُّشُورُ)[3] ترجمہ: اور اللہ ہی ہواؤںکو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں پھر ہم اسے ایک اجاڑ شہر کی طرف لے جاتے ہیں پھر ہم اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتے ہیں، اسی طرح (قیامت کو) اٹھنا ہو گا. قرآن مجید نے کئی سو سال پہلے اس حقیقت کا بھی انکشاف کیا ہے یہ بادل بہت بھاری ہوتے ہیں فرمایا: (هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ)[4] ترجمہ: وہی ہے جو تمھیں ڈرانے اور امید دلانے کے لیے بجلی کی چمک دکھاتا ہے اور بھاری بادلوں کو پیدا کرتاہے

تصاویر[ترمیم]

بحرالکاہل پر چھائے ہوئے بادل۔
بادلوں کا ایک نظارہ

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. النور: 43
  2. الروم: 48
  3. فاطر:9
  4. الرعد: 12

بیرونی روابط[ترمیم]