حاتم الاصم
حاتم الاصم | |
---|---|
(عربی میں: حاتم الأصم) | |
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | بلخ |
تاریخ وفات | سنہ 852ء |
مدفن | مزار حاتم اصم ، ضلع فیض آباد |
عملی زندگی | |
استاذ | شقیق بلخی |
پیشہ | الٰہیات دان |
درستی - ترمیم |
حاتم الاصم یا حاتم اصم (وفات: 851ء) تیسری صدی ہجری (نویں صدی عیسوی) میں بلخ کے مشہور عالم تھے۔
اقوال
[ترمیم]- شائستہ انسان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے، محبت کرے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے اُمید نہ رکھے۔
- مقدمہ ادب المفرد، صفحہ 63۔
حضرت حاتم اصم علیہ الرحمۃ ( معروف ولی اللہ ) در حقیقت بہرے نہ تھے(اصم کا معنی بہرہ اس کی جمع صم ہے ) ایک دفعہ ایک مکڑی کے جالے میں مکھی کو شکر کے لالچ نے پھنسادیا اور اس کی بھنبھناہٹ آپ نے سنی تو فرمایا! او لالپچی مکھی ! ہر جگہ شہد وشکر کے خیال میں گھس جاتی ہے تو جانتی نہیں کہ کہیں جال اور شکاری بھی ہو سکتا ہے۔مریدین حیران ہو ے کہ مکھی کی آواز تو ہمیں بھی سنائی نہیں دے رہی اور یہ اصم یعنی بہرے ہو کر کیسے سن رہے ہیں، چنانچہ مریدوں نے عرض کیا! آج کے بعد آپ اپنے آپ کو صم نہ کہلوایا کر یں۔ آپ نے مسکرا کر فرمایا !بری اتیں سننے سے بہرہ رہنا ہی بہتر ہے اور میرے خلوت کے ساتھی صرف میری خوبیاں ہی بیان کرتے ہیں اور میرے عیبوں پر پردہ ڈالتے ہیں،اس طرح تو میں متکبر بن کر تباہ ہو جاؤں گا ، میں بہرہ اس لیے ہوں کہ گویا میں اپنی تعریف سن ہی نہیں رہا ہوں تا کہ جب مجھے بہرہ سمجھیں گے تو میری خوبی خامی سب کچھ بیان کرتے رہیں گے اس طرح میں خودی و تکبر سے بچار ہوں گا کیونکہ جواپنی برائی سن کر برداشت کر لیتا ہے وہ تکبر کی لعنت سے بچ سکتا ہے۔ ( بوستان شیخ سعدی)