"اختلاطی کہکشائیں" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 61: سطر 61:


جب ان تصاویر سے کہکشاؤں کو بھی نفی کر دیا گیا تو سائنس دانوں کے پاس صرف خلا کی تصاویر رہ گئیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس خلا میں موجود روشنی کی
جب ان تصاویر سے کہکشاؤں کو بھی نفی کر دیا گیا تو سائنس دانوں کے پاس صرف خلا کی تصاویر رہ گئیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس خلا میں موجود روشنی کی
نیلاہٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان ستاروں سے آ رہی ہے جو کہکشاؤں سے باہر نکل گئے ہیں۔
نیلاہٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان ستاروں سے آ رہی ہے جو کہکشاؤں سے باہر نکل گئے ہیں۔


پروفیسر بوک کہتے ہیں: ’اگر یہ روشنی دور افتادہ کہکشاؤں سے آ رہی ہوتی تو اس کا رنگ سرخی مائل ہوتا۔‘
پروفیسر بوک کہتے ہیں: ’اگر یہ روشنی دور افتادہ کہکشاؤں سے آ رہی ہوتی تو اس کا رنگ سرخی مائل ہوتا۔‘

نسخہ بمطابق 16:42، 11 نومبر 2014ء

اختلاطی کہکشائیں ایسی کہکشائیں ہوتی ہیں جن کی کشش ثقل ایک دوسرے کو متائثر کر رہی ہو۔ اس کی عام مثال ایسی طفیلی کہکشاں ہے جو اپنی اصل کہکشاں کے بازو کو متائثر کر رہی ہو۔اس کی بڑی مثال کہکشاؤں کا تصادم ہوتی ہے۔

طفیلی کہکشاں کا پیدا کردہ بگاڑ

بنیادی کہکشاں عموماً طفیلی کہکشاں میں بگاڑ پیدا کرتی رہتی ہے تاہم اگر طفیلی کہکشاں بنیادی کہکشاں میں گھس جائے یا اس کے کناروں پر موجود بازوؤں میں گڑبڑ پیدا کرنے لگے تو اسے طفیلی کہکشاں کا پیدا کردہ بگاڑ کہیں گے۔ نتیجتاً کم مقدار میں نئے ستارے جنم لے سکتے ہیں۔

کہکشاؤں کا تصادم

کہکشاؤں کے ارتقاء کے دوران ان کے تصادم عام بات ہے۔ تاہم چونکہ ہر کہکشاں کا انتہائی بڑا حصہ خالی ہوتا ہے اس لئے یہ تصادم حقیقی کی بجائے مجازی معنوں میں دیکھا جاتا ہے۔ یعنی کہکشاؤں کی کشش ثقل کا تصادم۔ نتیجتاً دونوں کا انضمام بھی ہو سکتا ہے۔ جب دو کہکشائیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں لیکن ان کی رفتار اتنی تیز نہ ہو کہ تصادم کے بعد اپنی حرکت جاری رکھ سکیں تو وہ ایک دوسرے میں گھسنے کے بعد گھل مل جاتی ہیں اور ایک بڑی کہکشاں بن جاتی ہیں۔

اگر ایک کہکشاں بہت بڑی اور دوسری بہت چھوٹی ہو تو تصادم یا انضمام کے بعد چھوٹی کہکشاں بظاہر ختم ہو جاتی ہے اور بڑی کہکشاں کی شکل بھی تقریباً ویسی ہی رہتی ہے۔ تاہم اگر دونوں کہکشائیں ایک دوسرے سے تصادم کے بعد الگ ہو جائیں تو عموماً ان کی شکلیں اور ان کے اجرام فلکی تقریباً یکساں رہتے ہیں۔

کہکشاؤں کے تصادم کا مشاہدہ کرنے کے لئے شمارندے پر اس کی نقلیں بھی تیار کی جاتی ہیں جو بالکل اصل صورتحال کو پیش کرتی ہیں۔

کہکشاؤں کا ایک دوسرے کو کھانا

مدوجزری اثرات کی مدد سے ایک بڑی کہکشاں اپنے نزدیک موجود چھوٹی کہکشاں کو ہڑپ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اس کا نتیجہ بالعموم نسبتاً بڑی اور بے ڈھنگی کہکشاں کی صورت میں نکلتا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ہماری کہکشاں اپنے گرد موجود بونی کہکشاؤں سے ہائیڈروجن گیس کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ ان کہکشاؤں سے ہائیڈروجن گیس کی لہریں ہماری کہکشاں میں گھستی دیکھی جا سکتی ہیں۔

مستقبل میں ہماری کہکشاں اور اینڈرمیڈا کا تصادم

ماہرین فلکیات کے مطابق تین ارب سال بعد ہماری کہکشاں اینڈرومیڈا کہکشاں سے ٹکرا جائے گی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سپرنگ نما کہکشائیں مل کر تھالی نما ایک کہکشاں بن جائیں گی۔

نگار خانہ

سانچہ:Link GA

نئی تحقیق کے مطابق کہکشاؤں سے باہر بھی بےشمار ستارے ہیں

کائنات کے پس منظر سے آنے والی روشنی پر کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ کائنات میں پائے جانے والے ستاروں میں سے آدھے کے لگ بھگ ستارے کہکشاؤں کے اندر نہیں بلکہ کہکشاؤں کے درمیان موجود خلا میں پائے جاتے ہیں۔

یہ تحقیق دو کیمروں کی مدد سے کی گئی جنھیں ایک راکٹ کے ذریعے کرۂ ہوائی سے باہر بھیجا گیا تھا۔

گرد و غبار اور کہکشاؤں سے آنے والی روشنیوں سے ہونے والی مداخلت کو نفی کر دینے کے بعد دیکھا گیا کہ باقی ماندہ روشنی کے اندر ہلکی ہلکی لہریں پائی جاتی ہیں۔

سائنس دانوں نے جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ روشنی ان تنہا ستاروں سے آ رہی ہے جو کہکشاؤں کے تصادموں کے دوران کہکشاؤں سے خارج ہو گئے تھے۔

لیکن دوسرے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ روشنی تنہا ستاروں سے نہیں بلکہ بہت دور واقع کہکشاؤں سے آ رہی ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے پروفیسر جیمی بوک اس تحقیق کے مصنفین میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کہکشاؤں کے باہر سے آنے والی روشنی ایک قسم کی ’کائناتی دمک‘ ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ بہت دھندلی ہے، لیکن بنیادی طور پر کہکشاؤں کے درمیاں خلا تاریک نہیں ہے۔ اور یہ وہ کل روشنی ہے جو کہکشاؤں اور ستاروں نے کائنات کی تاریخ کے دوران تخلیق کی ہے۔‘

اس سے قبل روشنی کی پیمائشوں سے معلوم ہوا تھا کہ آسمان میں اس سے زیادہ روشنی ہے جس کی توجیہ کہکشاؤں سے آنے والی روشنی سے کی جا سکتی ہے۔

اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں: یا تو یہ دور افتادہ، قدیم کہکشاؤں سے آنے والی روشنی ہے، یا پھر اس کا ماخذ کہکشاؤں سے باہر پائے جانے والے ’آوارہ‘ ستارے ہیں۔

پروفیسر بوک کی ٹیم نے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے 2010 اور 2012 میں دو راکٹ خلا میں بھیجے، جس کے دوران انھوں نے زمین کے کرۂ ہوائی سے باہر جا کر انفرا ریڈ کیمروں کی مدد سے آسمان کی وائیڈ اینگل تصاویر لیں۔

دو بار تصاویر لینے کے باعث سائنس دانوں کو نظامِ شمسی کے اندر موجود گرد و غبار کے باعث ہونے والی مداخلت کو نفی کرنے کا موقع ملا۔

ماہرینِ فلکیات یہ تو جانتے تھے کہ ستارے کہکشاؤں سے خارج ہو جاتے ہیں لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہو گی

جب ان تصاویر سے کہکشاؤں کو بھی نفی کر دیا گیا تو سائنس دانوں کے پاس صرف خلا کی تصاویر رہ گئیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس خلا میں موجود روشنی کی

نیلاہٹ  سے  ظاہر ہوتا ہے کہ  یہ  ان  ستاروں  سے  آ رہی ہے  جو  کہکشاؤں  سے  باہر  نکل  گئے  ہیں۔

پروفیسر بوک کہتے ہیں: ’اگر یہ روشنی دور افتادہ کہکشاؤں سے آ رہی ہوتی تو اس کا رنگ سرخی مائل ہوتا۔‘

رپورٹ کے مطابق ان تصاویر میں موجود روشنی سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہکشاؤں سے باہر بھی تقریباً اتنے ہی ستارے پائے جاتے ہیں جتنے کہکشاؤں کے اندر ہیں۔

’ماہرینِ فلکیات یہ تو جانتے تھے کہ ستارے کہکشاؤں سے خارج ہو جاتے ہیں لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہو گی۔‘

تاہم دوسرے ماہرین نے اس تحقیق پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ضمن میں کوئی حتمی بات جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

                               http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2014/11/141107_star_outside_galaxies_zis