"بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
Hammad (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Hammad (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں (ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم) |
||
سطر 9: | سطر 9: | ||
|language=عبرانی، انگریزی اور اردو |
|language=عبرانی، انگریزی اور اردو |
||
|genre=غیر فکشن |
|genre=غیر فکشن |
||
|subject= |
|subject=تاریخ، ارتقائے انسان |
||
|publisher=[[ہارپر (ناشر)|یارپر]] (انگریزی){{ |
|publisher=[[ہارپر (ناشر)|یارپر]] (انگریزی){{نس}}فکشن ہاٶس |
||
|release_date=2011ء (عبرانی)، 2014ء (انگریزی) |
|release_date=2011ء (عبرانی)، 2014ء (انگریزی) |
||
|media_type= |
|media_type= |
نسخہ بمطابق 05:30، 1 ستمبر 2019ء
بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ کا سر ورق | |
مصنف | یووال نوح ہراری |
---|---|
اصل عنوان | קיצור תולדות האנושות |
ملک | اسرائیل |
زبان | عبرانی، انگریزی اور اردو |
موضوع | تاریخ، ارتقائے انسان |
صنف | غیر فکشن |
ناشر | یارپر (انگریزی) فکشن ہاٶس |
تاریخ اشاعت | 2011ء (عبرانی)، 2014ء (انگریزی) |
صفحات | 443 (انگریزی) 447 (اردو) |
بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ (عبرانی: קיצור תולדות האנושות، [قیتصور تولدوت ہا اِنوشوت]، انگریزی: Sapiens: A Brief History of Humankind) یووال نوح ہراری کی تحریر کردہ ایک کتاب ہے جو سب سے پہلے 2011ء میں اسرائیل میں عبرانی زبان میں شائع ہوئی[1] پھر 2014ء میں انگریزی زبان میں چھپی۔[2][3] کتاب میں نوعِ انسانی کی تاریخ، پتھروں کے دور کی قدیم انسانی انواع سے لے کر اکیسویں صدی عیسوی کے موجودہ انسانوں تک کے ارتقا پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب فطری علوم بالخصوص ارتقائی حیاتیات پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کے حوالے سے ملی جلی آرا ہیں۔ کتاب سے متعلق محققین کا موضوع بحث بہت زیادہ تنقیدی ہے، اس کے باوجود عوام کا عمومی ردِ عمل مثبت ہے۔
حوالہ جات
- ↑ Harari, Yuval Noah; Vintage (2014). Sapiens: A Brief History of Humankind. آئی ایس بی این 9780099590088.
- ↑ Galen Strawson (11 September 2014)۔ "Sapiens: A Brief History of Humankind by Yuval Noah Harari – review"۔ The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اکتوبر 2014
- ↑ Tom Payne (26 September 2014)۔ "Sapiens: A Brief History of Humankind by Yuval Noah Harari, review: 'urgent questions'"۔ The Telegraph۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اکتوبر 2014