مندرجات کا رخ کریں

خواجہ نور محمد فنا فی الرسول

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فنا فی الرسول
خواجہ نورِ محمد
ذاتی
پیدائش(بمطابق 4 دسمبر 1896ء)
وفات(بمطابق 21 مئی 1958ء)
مذہباسلام
والدین
  • خواجہ غلام مرتضیٰ فنا فی الرسول (والد)
وجہ شہرتامام المناظرین
سلسلہنقشبندیہ۔مجددیہ۔مرتضائیہ
مرتبہ
مقاملاہور۔ قلعہ لال سنگھ، شرقپور شریف
پیشروخواجہ غلام مرتضیٰ فنا فی الرسول

خواجہ نور محمد (مرتضائی) فنا فی الرسول چودھویں صدی ہجری کے بے مثل صوفی بزرگ، محدث، مناظر، فقیہ اور شاہراہِ عشق رسولﷺ کے باکمال رہنما تھے، شراب طہور کی چاشنی سے لبریز، پر کیف و پر سوز، معطر و معنبر اور وجد آفریں عشقِ رسولﷺ کی بے بہا نعمت آپکو اپنے مرشد کریم/والد گرامی فرد وقت خواجہ غلامِ مرتضےٰ فنا فی الرسول سے حاصل ہوئی جسے آپ نے دو آتشہ کر کے اکنافِ عالم میں تقسیم فرمایا۔ آپ کی شخصیت میں نورِ محمدی، حسنِ یوسفی اور لحنِ داؤدی اپنی تمام تر رعنائی اور تاثیر کے ساتھ جلوہ بار تھے۔ علم و عرفان کے شہسوار تھے اور فنٌِ مناظرہ (قال و حال) میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ آپ کی مجالسِ وعظ میں، شیخ عبد القادر جیلانی اور مولانا روم کی مجالسِ وعظ کے مماثل بھرے مجمعے پر کیفیاتِ وجد و حال اور بے خودی طاری ہو جاتی تھی۔

القابات

[ترمیم]

شہنشاہِ مرتضائیہ، عطائے رسولﷺ، فردِ وقت، فنا فی الرسول، داؤدِ زماں، یوسفِ دوراں، شیخ السمٰوات و الارضین، امام العاشقین، امام المناظرین، قدوۃ السالکین، سید المفسرین، شیخ المحدثین، شہنشاہِ نقشبند۔

ولادت با سعادت

[ترمیم]

خواجہ نور محمد مرتضائی برصغیر پاک و ہند میں سلسلہ نقشبندیہ کے بے مثل بزرگ اور سلسلہ مرتضائیہ کے بانی خواجہ غلام مرتضیٰ فنا فی الرسول علیٰ وجہ الاتم ہستی کے صاحبزادے تھے۔ آپ کی ولادت با سعادت 4 دسمبر 1896 کو بمقام عثمان گنج لاہور میں ہوئی۔[1] آپ کی پیدائش کے حوالے سے حالات و واقعات سے آپ کی غیر معمولی اور بلند پایہ شخصیت کا انداذہ ہوتا ہے۔

ولادت سے پہلے کے واقعات اور عطائے رسولﷺ

[ترمیم]

آپ کے والد گرامی خواجہ غلام مرتضیٰ نے مقام فنا فی الرسول پر فائز ہونے سے قبل ایک طویل زمانہ عشق رسولﷺ کے مجاہدات میں گزارا۔ اس عرصہ میں آپکو مصائب، آزمائش و ابتلا کا سامنا بہت کرنا پڑا، کبھی زمانۂ قحط، کبھی جان و مال کی آزمائش، حتیٰ کہ اسی دوران آپ کے پانچ بیٹے آٹھ دس دن کے اندر اندر بھلے چنگے ملک بقا کے راہی ہو گئے۔ آپ کے بھائی محمد یار بچے کے حوالے سے پیغامِ وفات لے کے آتے مگر آپ فرماتے کے کے جا کر بچے کی تدفین کر دیں میں نبی پاک کی حاضری سے نہیں اٹھ سکتا۔ پھر جب نبی پاک نے آپ کو مقامِ فنا فی الرسول پر فائز فرمایا تو من جملہ بشارات نبویہﷺ میں سے ایک بشارت یہ بھی تھی کے اے غلام مرتضیٰ! پانچ بچے جو آپ کے زمانۂ آزمائش و ابتلا میں قربان ہو گئے لیکن آپ نے ہمارے عشق میں لغزش تک نہیں دکھائی، اب اللٌٰہ تبارک و تعالیٰ ان قربانیوں کے طفیل آپ کو ایسا بیٹا عطا فرمائے گا جو پچیس سال کی بے ریا عبادت کا ثمر اور اٹھائیس اقطاب کی طاقت شکمِ مادر سے لے کر اٹھے گا اور ساٹھ علوم کا ماہر ہوگا۔

آپ کی ولادت با سعادت اس لحاظ سے بھی غیر معمولی حیثیت کی حامل ہے کہ آپ کی ولادت اس وقت ہوئی جب آپ کے والدین اس قدر عمر رسیدہ ہو چکے تھے کہ جب اولاد کی پیدائش کا امکان نہیں رہتا۔ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کے والد گرامی خواجہ غلام مرتضیٰ کی عمر 75 اور والد محترمہ کی عمر 60 سال سے متجاوز تھی۔

بیعت و خلافت

[ترمیم]

جب آپ کی عمر مبارک چالیس دن کی ہوئی تو آپ کے والد گرامی خواجہ غلام مرتضیٰ فنا فی الرسول نے اپنے ارادت مند شاہ محمد سے فرمایا کہ ہمارے نور شاہ کو لاؤ۔ شاہ محمد جب آپکو لے کر آئے تو حضرت خواجہ غلام مرتضیٰ نے خواجہ نور محمد کو بیعت فرمایا فرمایا ساتھ ہی فرمایا کہ میں نے نور شاہ کو خلافت بھی عطا کر دی ہے۔[2]

حصول تعلیم

[ترمیم]

آپ نے درس نظامی کی تعلیم کے لیے لاہور کے معروف تعلیمی ادارے مدرسہ حمیدیہ میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں باقی ماندہ درس نظامی اور دورہ حدیث کے لیے اندرون لاہور کشمیری بازار میں واقع عظیم تاریخی عبادتگاہ اور درسگاہ "سنہری مسجد" میں تشریف لے گئے، یہاں آپ نے استازالعلماء مفتی اعظم حضرت مفتی محمد یار خلیق زیر تدریس رہ کر دورہ حدیث مکمل کر لیا۔[3]

درس و تدریس اور مسندِ ارشاد کی زمہ داریاں

[ترمیم]

آپ کی عمر مبارک چھ، سات سال تھی جب آپ کے والد و مرشد گرامی دنیائے رنگ وبو سے وصال ظاہری فرما گئے۔ ان کے بعد آپ نے مسند ارشاد سنبھالنے کی زمہ داری اٹھا لی۔ نہایت سرعت سے آپ نے ظاہری تعلیم کے مراتب طے فرمائے حتیٰ کہ جامعہ نعمانیہ کے ریکارڈ سے روایت ملتی ہے کہ صرف چودہ سال کی عمر یعنی 1910ء میں آپکو بطور فاضل محدث، دورہ حدیث اور دورہ تفسیر القرآن کے ایڈوانسڈ سٹیج کے یعنی آخری اسباق پڑھانے کے لیے باقاعدہ طور پر آپ کو مدعو کیا گیا اور آپ نے یہ زمہ داری بطریق احسن پوری فرمائی۔

اسی طرح آپ کی جانب سے جامعہ نعیمیہ لاہور کے طلاب کو بھی دورہ حدیث کے آخری اسباق پڑھانے کی روایات ملتی ہیں۔ چند ہستیاں جن کو خواجہ صاحب سے شرف تلمذ حاصل ہوا ان میں آپ کے بھانجا زاد میاں نذیر احمد مرتضائی، مناظر اسلام مولانا عبد العزیز مرتضائی قصوری، مولانا محمد عمر صدیقی اچھروی نقشبندی، مولانا محمد انور مرتضائی، محترم بابو محمد اسحاق مرتضائی، حافظ عبد الرزاق گوپے رائے لاہوری شامل ہیں۔

خلفاء کرام

[ترمیم]

آپ نے متعدد باکمال ہستیوں کی تربیت فرما کر انھیں سلسلہ مرتضائیہ میں خلافت عطا فرما دی۔ خواجہ نور محمد فنا فی الرسول کے مشہور خلفاء مندرجہ زیل ہیں۔

1-مناظرِ اسلام علامہ محمد عبد العزیز مرتضائی (قصور شریف)

2- میاں نذیر احمد مرتضائی (بھانجا زاد، قلعہ شریف)

3-سید حسین شاہ مرتضائی (سالار سیداں، ضلع شیخوپورہ)

4-میاں محمد شفیع مرتضائی (کوٹ رادھا کشن، قصور)

5-مولانا محمد انور مرتضائی (کوٹ لکھپت، لاہور)

6-مولانا الٰہی بخش اعوان مرتضائی (متوطن بہبووال چھنیاں، ہوشیار پور انڈیا-مدفن قلعہ شریف، شیخوپورہ)

7-مولانا معراجدین مرتضائی (راؤ خانوالہ، قصور)

8-میاں تاجدین مرتضائی (چوڑے ڈار، نزد شرقپور شریف)

9-حکیم عنایت اللٌٰہ مرتضائی (کوٹ رادھا کشن، قصور)

10-سید حسین شاہ مرتضائی (کوٹ غلام محمد خان، قصور)

11- حکیم محمد ابراہیم مرتضائی (پیال کلاں، قصور)

12- سید مشتاق احمد شاہ مرتضائی (پنڈی جٹاں، قصور)

13- صوفی رحیم بخش مرتضائی (مظفر گڑھ)

خواجہ نور محمد فنا فی الرسول بطورِ امام المناظرین

[ترمیم]

خواجہ نور محمد مرتضائی اپنے زمانے میں امام المناظرین کے لقب سے مشہور ہو چکے تھے۔ اللّٰہ پاک نے آپکو ایسی زبردست مناظرانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا کہ مناظر مخالف آپ کا نام تک سن کے مناظرے سے جی چرانے لگتے۔ آپ قال اور حال کے مناظرے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ دوران مناظرہ مخالف مناظرین کے رنگ پیلے پڑ جاتے، چہروں سے ہوائیاں اڑنے لگتی اور زبانیں گنگ ہو جاتیں۔ نتیجتاً کئی تو جان اور عزت بچانے کی خاطر راہِ فرار اختیار کرتے اور کئی نصیبوں والے مناظر آپ کے قدموں پر سر رکھ کر اپنے گمراہ کن عقائد سے تائب ہو جاتے۔ مناظروں میں آپ کا حسن و جمال بجلی کی طرح کوند کر مخالف مناظرین کے حوصلے پست اور حواس کو مخبوط کر دیتا تھا۔ آپ کی پوری زندگی میں کوئی مخالف مناظر آپ سے مناظرہ نہیں جیت سکا۔

خواجہ نور محمد فنا فی الرسول بطور واعظ

[ترمیم]

آپ کا وعظ اتنا پر تاثیر تھا کہ شیخ عبد القادر جیلانی اور مولانا روم کی مجلسوں کا منظر تازہ ہو جاتا تھا۔ خواجہ نورمحمد مرتضائی کا انداز بیان دل موہ لیتا تھا،آپ کا نور ولایت، خوش الحانی اور حسن و جمال کی نورانیت وعظ کی مجلسوں میں سونے پر سہاگے کا کام کرتی۔ ان کے وعظ کے دوران بھرا مجمع وجد و حال کی کیفیت میں جھومنے لگتا، لوگ بے خود ہو کر یا رسول یا رسول کے نعرے لگاتے۔ بعض وجد و سرور کیف اور مستی کے عالم میں بے خود ہو جاتے اور بعض بے ہوش ہو جاتے۔ آپ اپنی مجلس میں موجود سامعین کی استطاعت اور سمجھ کے مطابق انداز بیان اور لب و لہجہ متعین کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ آپ کی مجالس میں سکھوں، ہندوؤں، عیسائیوں اور دیگر غیر مذاہب کے لوگ بھی شرکت کرلیتے تھے۔ بے شمار غیر مذہب کے لوگوں نے آپ کے وعظ سے متاثر ہو کر راہ توبہ اختیار کی اور آپ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کر لیا۔

آپ کی شخصیت بطور مفسر، محدث، فقیہ اور منتظم

[ترمیم]

میدانِ تفسیر، حدیث اور فقہ میں لاجواب مہارت کے حامل تھے۔ علم اور طالب علم سے بہت محبت کرتے تھے۔ سلسلہ مرتضائیہ، درگاہ شریف اور مذہبی اجتماعات کے انتظامی امور کو چلانے کے حوالے سے بہترین انتظامی اور سٹریٹجک اصول مرتب کیے۔ زندگی کے ہر ہر پہلو کو شرعی توازن اور سنت رسول کے مطابق گزارا۔

کرامات اور روحانی قدر و منزلت

[ترمیم]

خواجہ نور محمد فنا فی الرسول کی شانِ ولایت اور کرامات کا احاطہ کرنا قوت بیان کی حدود سے باہر ہے۔ اس ضمن میں چند ایک کا زکر انتہائی اختصار سے زیل میں کیا گیا ہے۔ • ساری زندگی عشق رسولﷺ اور اتباع رسولﷺ میں گزارنا؛

• حالت بیداری میں جب بھی کبھی خواہش ہوئی رسول کریمﷺ کا اپنے غلام خواجہ نور محمد کو زیارت سے مشرف فرمانا؛ • غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی، مولانا روم، مولانا عبد الرحمٰن جامی، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، مولانا نظامی گنجوی وغیرھم سے روحانی دوستیاں اور ملاقاتیں فرمانا؛

• اللّٰہ کے حکم سے بعد از وصال زندوں کی طرح تصرف کرنا؛ • آپ کی نگاہ و آواز کی تاثیر سے بھرے مجمعوں کا وجد و حال میں آ جانا؛

• ماکان و مایکون کا علم اللّٰہ تعالیٰ نے آپکو عطا فرمایا، توجہ فرما کر لامکان تک کے حالات ملاحظہ فرما لینا؛

• قال اور حال کے دلائل سے مخالف مناظرین کو شکست دینا؛ • دور دراز ارادتمندوں کی مدد فرمانا؛ • سالہا سال کے گنہگاروں، چوروں، کافروں اور بد مذہبوں پر نظر فرما کر مقامِ ولایت و محبوبی پر فائز کر دینا؛

• سیم و زر کی دستیاب دولت کو عشق رسولﷺ میں حاصل ہونے والے کے عوض حقارت سے ٹھکرا دینا؛

• لعاب دہن کی تاثیر سے بیمار کو شفا ہو جانا؛

• توجہ کی تاثیر جسے چاہنا مقامِ حضوری پر پہنچا دینا؛

• توجہ سے خشک بھینس کا دودھ دینے لگ جانا؛

• تدفین کے طویل عرصہ بعد آپ کے ارادتمندوں کے کفن تک میلے نہ ہونا؛

• آپ کے ارادتمند کے جنازے پر بادل نے گلاب کی پتیاں برسانا؛

• ہر خاص و عام ارادت مند کو حضوری کی وافر دولت عام کر دینا۔

متفرق واقعات

[ترمیم]

1- راجا جنگ شہر قصور کے نواح میں ایک تاریخی علاقہ ہے۔تقسیم ہند سے پہلے یہاں پر سکھوں کی ایک غالب اکثریت آباد تھی جس مسلمانوں کو ان کی عبادات سے روکتے تھے حتیٰ کہ ازان تک دینے پر پابندی تھی۔ اس وجہ سے کئی بار حالات کشیدہ ہوئے اور بات قتل و غارت گری تک پہنچ جاتی۔ خواجہ نور محمد کے کچھ ارادت مندوں نے آپکو وورتحال سے آگاہ کیا تو آپ نے ایک جلسہ منعقد کرنے کی تجویز پیش کی۔ جلسہ کی صدارت ایک سکھ بہال سنگھ زیلدار (جو راجا جنگ کی سکھ پنچایت کا سر پنچ تھا) کے نام کر دی تاکہ سکھ جلسہ کے انعقاد میں مزاحمت نہ کر سکیں۔ بہال سنگھ نے جلسہ اپنے زیر صدارت ہوتے دیکھا تو خوش ہو گیا۔ خواجہ صاحب نے جلسہ میں اس قدر موثر تقریر فرمائی کہ جلسہ میں جابجا لوگ کیفیاتِ وجد سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے اور سکھ بھی دھاریں مار مار کے رو رہے تھے۔ جلسہ کے اختتام پر خواجہ صاحب نے مسلمانوں سے درخواست کی کہ وہ بآواز پست ازان دے کر نماز ظہر ادا کر لیں تاکہ سکھ دوستوں پر گراں نہ گذرے۔ سکھ رؤسا اپنے گلوں میں پٹے ڈال کر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ سکھ سرپنچ نے اس موقع پر دست بستہ عرض کہ یہ کوئی مولوی نہیں یہ تو رب کا اوتار لگتا ہے اور حضور آپکو اجازت ہے کہ ہمارے گھر کی چھتوں پر اور صحنوں میں بھی ازانیں بآواز بلند کہیں۔ چنانچہ ازان بآواز بلند پڑھ کے نماز ادا کر دی گئی اور اس کے بعد سکھوں کا زور ٹوٹ گیا۔

2- ایک دیہاتی جو چور، شرابی اود بے نمازی تھا خواجہ صاحب سے اس شرط پر بیعت ہونے کی خواہش کی کہ چوری، شراب سمیت جو غلط کام کرتا ہوں وہ نہیں چھوڑوں گا۔ خواجہ صاحب نے شرط منظور کر لی اور ساتھ ایک شرط یہ رکھی کہ اچھا جہاں ہم ہوں گے وہاں یہ غلط کام نہ کرو تو بیعت کرتا ہوں۔ دیہاتی نے جوابی شرط مانی اور بیعت ہو گیا۔ ساتھی چوروں سے اپنی بیعت جا زکر کیا تو انھوں نے متفق ہو کر کہا کہ ہم پیر صاحب کا ضلع چھوڑ کر کسی اور جگہ چور کر لیں گے اجاز ت تو مل ہی چکی۔ ساتھی چوروں کے ساتھ جب دور دراز کسی گھر میں نقب زنی کی تو وہ دیہاتی آگے مکان کے احاطے کی طرف بڑھا تو رات کے اندھیرے میں اپنے پیر صاحب کو سامنے دیکھا جن کا چہرہ سورج کی طرح چمک رہا تھا۔ نتیجتاً ساتھیوں کے ساتھ راہ فرار اختیار کر گیا۔ واپس ڈیرے پر جا کر شراب نوش لگا تو خواجہ صاحب کی صورت شراب کے پیالے میں دیکھ کر وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے پیالہ پھینک دیا۔ اس کے بعد خواجہ صاحب کے پاس حاضر ہوا اور دست بستہ عرض کی کہ

"حضور چنگی شرط کیتی جے، انج ای کہہ دیندے میاں تینوں کوئی غلط کم کرن ای نئیں دینا"۔ اس کے بعد تائب ہو گیا اور اس کے بعد اپنے چور ساتھیوں کے ہمراہ پکا سچا نمازی اور پرہیزگار بن گیا۔[4]

3- سراج دین نامی ایک ارادت مند اپنے بچپن میں خواجہ صاحب کے ہاں ملازمت کے لیے آئے۔ ان کو عرصہ سات سال سے سینہ پر ہر وقت رستے رہنے والے پیپ زدہ شدید زخم تھے۔ ان کا علاج کروایا جاتا رہا لیکن صحت نہ ہوئی۔ خواجہ صاحب نے نووارد ملازم کے آرام کے لیے نیا بستر بھجوایا۔ جب حویلی میں خود تشریف لائے تو سراج دین کو چارپائی پر بیٹھا دیکھ کر فرمایا بیٹا لیٹ کے آرام کرو۔ سراج دین گویا ہوا کہ حضور میرے سینہ پر بہت سے زخم ہیں، پیپ ریشہ سے بستر خراب ہو جائے گا۔ خواجہ نور محمد نے فرمایا بیٹا تم بھی ہمارے ہو بستر بھی ہمارا ہے سو جاؤ۔ سراج دین آرام سے سو گیا، دوسرے دن زخم مندمل ہو گئے۔ تیسرے دن خواجہ صاحب نے صابن بھجوایا اور فرمایا کہ اس بچے (سراج دین) سے کہو کہ اس سے نہا لے۔ سراج دین نے مدتوں بعد اس روز غسل کیا اور ساری زندگی کے لیے ان کا روگ دھل گیا۔[5]

4- موضع راؤ خانوالہ ضلع قصور سے مستری احمد دین آشوب چشم اور ضعف چشم کے پرانے مریض تھے، علاج بہت کیا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ خواجہ نور محمد نے ان کو تکلیف میں دیکھا تو فرمایا بیٹا عینک اتار کے ہماری طرف دیکھو۔ مستری صاحب نے ایسے ہی کیا۔ پھر فرمایا جاؤ اب کے بعد کبھی عینک کی ضرورت نہ رہے گی۔ اس کے بعد ساری زندگی مستری احمد دین نے عینک نہیں لگائی بڑھاپے میں بھی ان کی نظر بہترین کام کرتی تھی۔

5-بہبووال چھنیاں میں آپ کی محفل سے اٹھ کر گھر جاتے ہی ایک ارادت مند کا انتقال ہو گیا۔ خواجہ صاحب نے اس کی نماز جنازہ خود پڑھائی، تدفین کے وقت قبر سے مخاطب ہو کے فرمایا کہ

"اے قبر میں تم میں سونا رکھ رہا ہوں قیامت کو روز اسی طرح تم سے لینا ہے۔"

کرم دین پہلوان اور اس کے ایک ساتھی جو خواجہ صاحب کے معترض تھے، نے عرصہ تین ماہ کے بعد چوری سے اس مرحوم ارادت مند کی قبر کشائی کی اور جب اس کا جسم ترو تازہ دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ ڈرتے ڈرتے لاہور خواجہ صاحب کی طرف روانہ ہوئے۔ دروازہ سے داخل ہو رہے تھے تو خواجہ صاحب سامنے بارہ دری میں بیٹھے بول پڑے کہ تم لوگ فقیر کا بھید کھولنے سے باز نہیں رہے، نکل جاؤ یہاں سے۔ بہرحال دونوں ساتھیوں نے خواجہ صاحب کے قدموں میں گر کر معافی مانگی، تائب ہوئے اور حضرت صاحب کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے۔

معمولات

[ترمیم]

آپ کا معمول تھا کہ رات کو کم سوتے تھے، زندگی بھر آپ کی نماز تہجد کبھی قضا نہ ہوئی، نماز کے بعد سورہ مزمل شریف، درود مستغاث شریف، درود خضری شریف، قصیدہ بردہ شریف اور قصیدہ ناجیہ شریف آپ کے معمولات میں شامل تھے۔[6]

تصانیف

[ترمیم]

خواجہ نور محمد ایک کامل مبلغ جو ایک ہی وقت میں کمال کے مدرس، اعلیٰ اور مصور فطرت قلم کار تھے۔ جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا کامل حق ادا کر دیا۔ آپ کا اندازِ تحریر لاجواب تھا، نورانیت اور وجدان و سرور کی کیفیات کو عبارات میں ایسا پروتے کے پڑھنے والے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے۔ مختصر مگر جامع تحریر لکھتے۔

آپ کی زیادہ تر تحریرات عقائد اور عقیدت کے متعلق ہیں۔ آپ کی تصانیف مندرجہ زیل ہیں:[7]

1- رد وہابیاں (تقریباً 11 سال کی عمر میں تالیف فرمائی۔نونہال نورمحمد کی اس کتاب کی اشاعت پر اس قدر شور اٹھا کہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی کی بیوی نے امرتسر، لاہور اور گوجرانوالہ میں اس کی اشاعت کے خلاف مقدمات دائر کر دیے۔)

2- بتیان المتقین

3- تفسیرِ نوری (سورہ والضحیٰ کی منظوم پنجابی تفسیر، عالمانہ او صوفیانہ اقوال کا حسین امتزاج ہے)

4- ظہورالصفات فی جمیع الموجودات (یعنی مسئلہ وحدت الوجود کا براہین قاہرہ سے قطعی اور درست فیصلہ سے ملحدین کا رد کیا گیا ہے۔ ہند و پاکستان کے نامور علما و مشائخ کرام نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت فرمائی)

5- تحقیق الوجد (مسئلہ وجد و حال کے حوالے سے لاجواب کتاب ہے، خواجہ صاحب نے قرآنِ پاک، احادیثِ مبارکہ، آثارِ صحابہ اور ہر چہار سلاسل کے اولیأ کاملین، کتبِ مخالفین کے حوالہ جات اور پیرا فزیکل سائنسی مظاہر کی تشریح کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ یہ منتہی المنازل مقام ہے۔ وجد و حال پر منکرین اور اس نعمت عظمیٰ سے محروم لوگوں کے اعتراضات کے مکمل، محققانہ اور مدلل جوابات دیے ہیں۔)

6۔ حجت ربانی (توثیقِ علم غیب کے موضوع پر بہترین، مکمل، مدلل اور محققانہ کتاب ہے۔)

7- حج فقیر بر آستانۂ پیر (قرآن پاک، احادیث مبارکہ اور ہر چہار سلاسل کے بزرگان دین کے حوالہ جات سے ثابت کیا ہے کہ کامل پیر و مرشد کے آستانہ کی حاضری سے نفلی حج کا ثواب ملتا ہے۔)

8- توثیق الابحاث لصلواۃ المستغاث (درود مستغاث شریف کا ترجمہ و تشریح عمدہ انداز میں لکھ کر مسئلہ نور، علم غیب، حاضر ناظر، زیارت قبور اور مسئلہ استمداد کو قطعی دلائل سے ثابت کیا گیا ہے-)

9- شرح قصیدہ ناجیہ شریف بزبان اردو

وفات اور مزارِ مقدس

[ترمیم]

آپ نے دنیائے ظاہری سے 21 مئی 1958ء کو بروز بدھ بوقت صبح پردہ فرمایا۔ آپ کا مزار شریف عثمان گنج، بادامی باغ لاہور میں آپ کے والد و مرشد گرامی حضرت خواجہ غلامِ مرتضٰے فنا فی الرسول کے مزار شریف کے قدموں والی (پائنتی) سائیڈ پر واقع ہے۔[8] ہر سال چیت کے پہلے اور اسوج کے دوسرے اتوار عرس شریف کے موقع پر دور و نزدیک سے لاکھوں ارادت و عقیدت مند آپ کے مزار شریف پر حاضری دیتے ہیں۔

  1. محمد دین کلیم، پروفیسر: لاہور میں اولیائے نقشبند کی سرگرمیاں، ص 161
  2. خلیل احمد مرتضائی، صاحبزادہ: خواجگانِ مرتضائیہ، ص 555
  3. خلیل احمد مرتضائی، صاحبزادہ: خواجگانِ مرتضائیہ، ص 560
  4. خلیل احمد مرتضائی، صاحبزادہ: خواجگانِ مرتضائیہ، ص 867
  5. خلیل احمد مرتضائی، صاحبزادہ: خواجگانِ مرتضائیہ، ص 851
  6. عبد الستار مسعودی، صوفی: لاہور کے اولیائے نقشبندیہ مجددیہ، ص 132
  7. خلیل احمد مرتضائی، صاحبزادہ: خواجگانِ مرتضائیہ، ص 591
  8. عالم فقری، علامہ: گلزارِ صوفیا، ص 419